• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
It is never too late to mend ایک نگلش کہاوت ہے، مینڈ mend کالفظی مطلب ہے مرمت کرنا، درست کرنا جب کہ یہاں پرریفارم لانا سے مقصود ہے، یعنی کسی کے طور و اطوار میں تبدیلی لانا ہے اور جب کبھی بھی کسی کی زندگی میں مثبت تبدیلی وقوع پذیر ہوجائے تو یہ دیری نہیں بلکہ اس کو ویلکم ہی کیا جائے گا باالفاظ دیگر دیر آید درست آید۔۔یہ انگلش ضرب المثل حالیہ عرصے میں برطانوی سکولوں کے معاملات جو ہوسٹ host اور دیگر کمیونٹیز کے علاوہ پاکستانی کشمیری بچوں کو بھی متاثر کرتے ہیں مگر ہمارے والدین کا لاتعلقی کا جو عمومی رویہ ہے ان رویوں کے تناظر میں ذہن میں ابھری کہ ضرورت ہے ہماری کمیونٹی اپنے رویوں میں انقلابی تبدیلیاں لائے اور جب بھی ایسا ہوجائے بہتر ہے ۔والدین کے لیے اشد ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے تعلیمی معاملات کو متاثر کرنے والے عوامل اور عواقب پر گہری نظر رکھیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ اقلیتی برادریوں بالخصوص پاکستانی کشمیری طلباء کے والدین اپنے بچوں کے تعلیمی امور جاننے میں کوئی زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ تعلیمی حوالوں سے برطانیہ کن تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ آپ کے اور ہمارے بچوں کو کرکلم میں کیا پڑھایا جا رہا ہے ۔ سیکس اینڈ ریلیجیس sex and Religious education کیا ہے ؟ نصاب میں جو نئی تبدیلیاں لائی گئی ہیں ان سے آپ کے مذہب اور کلچر پر آپ کے بچوں کے اخلاقیات اور عقائد پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے یا ہورہے ہیں چاقو سے متعلق جرائم میں اچانک کیوں اضافہ ہوگیا ہے؟ برطانوی بعض اسکولوں سے امتحانات کے عرصہ میں بعض بچوں کو پیوپلز ریفرلز یونٹوں میں ریفر کرنے کا تناسب آخر کیوں بڑھ جاتا ہے؟ پھر ایک ہی اسکول میں زیر تعلیم ہم عصر بعض کمیونٹیز کے بچوں کی کارکردگی تو مثالی ہو اور پاکستانی کشمیری ناقص ترین، آخر اس کی کیا وجوہات ہیں؟ کس کمیونٹی کے نوعمر بچے شام کے وقت بلکہ رات کے وقت بھی آوارہ گردی کرتے دکھائی دیتے ہیں؟ کیا آپ کی بھاری اکثریت کا کام معذرت کے ساتھ صرف بچے کو جنم دے کر پورا ہوجاتا ہے ان کی پرورش کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ بچوں کو پروان چڑھانے میں کیا خود ہمارے والدین کا کوئی نمایاں کردار نہیں بنتا؟ کیا یہ تمام معاملات صرف ریاست کی ذمہ داری ہیں ؟ اپنے بچوں کو اسکول کے دروازے پر ڈراپ کر کے ہی کیا آپ تمام ذمہ داریوں سے مستثنی ہوجاتے ہیں ؟ جبکہ تعلیم اور سماجی علوم کے تمام ماہرین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ والدین کا اپنے بچوں کی تعلیمی زندگیوں کو متاثر کرنے والے مختلف افیئر میں مکمل طور پرشامل ہونا اشد ضروری ہے۔ یہ تو ملک کے تمام والدین کے لیے ہے جبکہ جب آپ کسی ملک میں بحثیت ایک ایتھنک منارٹی اقلیتی برادری یا نسلی اقلیت کے طور پر رہ رہے ہوں تو اقلیتی طبقہ کے والدین پر یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ بغائر نظر اپنے بچوں کے تعلیمی معاملات ان کے حوالے بننے والے نئے نئے قوانین اور ان کے شب و روز کے امور سے کما حقہ آگاہی حاصل کریں ۔ بطور والدین آپ کے حقوق اور ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ اسکولز آپ سے کس رول کی توقع کرتے ہیں ان کا بخوبی ادراک کیا جائے۔ اسکولز اور مختلف اسٹیک ہولڈر اسکولوں کے متعلق جو مختلف مہمات کمپینز campaigns چلاتے ہیں ان میں حصہ دار بننا بھی اشد ضروری ہے۔
پیر 11 مارچ کے دی ٹائمز کے ہیلتھ ایڈیٹر کی صفحہ اوّل پر شہ سرخی ہی ملاحظہ کرلیں اسکول کے بچوں کو کثافتوں اور غلاظتوں سے پاک صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے کےلیے ہیلتھ چیفس سربراہان صحت یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملک بھر کے اسکولوں کے اردگرد کاروں پر پابندی عائد کی جائے اور ملک بھر کے شہروں میں کنجسچن چارجز عائد کیے جائیں تاکہ فضا صاف رکھی جاسکے۔ کیا ہمارے بچوں کے والدین بھی پیدل چل کر بچوں کو اسکول لے جانے کی زحمت گوارہ کریں گے؟ چلو پیدل نہ سہی بس پر ہی بچوں کو اسکول بھیج دیں یا سائیکل پر اگر بچے سیانے ہیں تو یا پھر اسکول کے احاطے سے دور گاڑی پارک کریں گے؟ اور تھوڑی دیر اپنے بچوں کے ساتھ چہل قدمی کرکے ان کو اسکول کے گیٹ پر پہنچائیں گے اور اس طرح تعلیمی اداروں کے ماحول کو ماحولیات کے حوالے صاف ستھرا بنانے میں اپنا پارٹ پلے کریں گے۔ اسی طرح دیگر والدین کی طرح ہمارے پاکستانی کشمیری والدین کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ اس اہم معاملہ پر غور کریں کہ بعض بچوں کو امتحانات کے عرصہ میں ہی تعلیمی اداروں کے ریفرل یونٹوں میں کیوں بھیجا جارہا ہے۔ جیسا کہ دی ٹائمز پیر 11مارچ کے ہی اندر لیڈنگ آرٹیکل stay in schools اسکول میں رہو میں واضح کیاگیا ہے کہ بعض اوقات ہیڈٹیچروں کو بعض بچوں کو ادارے سے اخراج کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوتا کہ جو بچے متشدد پسند ہوں اساتذہ عملہ یا ساتھی طلبا پر حملے کریں جب ایک بچہ چاقو سے کوری ڈور میں استاد یا کسی کلاس فیلو پر بلا وجہ حملہ آور ہوجائے ایسے طلبا کو خارج کرنا ہیڈ ٹیچرز کی ذمہ داری بن جاتی ہے تاکہ سکول کا ماحول خوف اور خطر سے پاک ہو لیکن ایسا ہر کیس میں نہیں ہوتا۔ رائل سوسائٹی آف آرٹس کی ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے جو بہت ہی تشویش ناک ہے کہ بچوں کے جی سی ایس ای سال میں جب ان کے امتحانات کے نتائج شمار ہوسکتے ہیں اس کٹ آف پوائنٹ cut off point پر بچوں کو خارج کر دیا جاتا ہے ۔ اسی کے قریب لوکل اتھارٹیز کے سروے سے معلوم ہوا کہ جس وقت بچوں کو طلباء کو پیوپلز ریفرل یونٹس pupils referral units بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاں پر ان ایجوکشن مہیا کی جاتی ہے ۔ یہ انکشاف ہوا ہے کہ 1328 طلباء کو پیوپلز ریفرل یونٹس ان کی جی سی ایس اوٹم ٹرمGCSE Autumn Term کے عرصہ میں داخل کیا گیاجبکہ ٹرم کے بعد صرف 748 اور ٹرم سے قبل 676نوعمر بچے داخل کیے گئے۔ اس نوعیت کے اعدادوشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ ہیڈ ٹیچر سسٹم کو گیم کرنے کے لیے ایکسکلوژن کو استعمال کرتے ہیں۔ آفسٹیڈ نے اگرچہ آف رول معاملے کا نوٹس لیا ہوا ہے تاہم اس غیر قانونی ایکسکلوژن کی بھی تفتیش کی ازحد ضرورت ہے۔دی ٹائمز کی ایجوکیشن ایڈیٹر روز میری بینیٹ نے لکھا ہے کہ اسکولوں کو لازمی طور ہر تمام طلباء جو جنوری میں اپنے جی سی ایس ای ز کے لیے رجسٹرڈ ہوتے ہیں، کے نتائج کو شامل کرنا چاہئیے ۔ چاہے ایسے بچے پیوپلز ریفریل یونٹ یا کسی اور اسکول میں امتحان میں بیٹھیں۔ لاورا پورٹریج جو رائل سوسائٹی آف آرٹس کی سینئر ریسرچر ہیں نے واضح کیا ہے کہ موجودہ سسٹم کے تحت ایک امتحانی سیٹ جس کے ناقص نتائج ہوں وہ کسی ہیڈٹیچر کے لیے ناخوشگوار ثابت ہوتا ہے اس لیے جو بچے انڈر پرفارم یا خراب رویوں کا مظہر ہوتے ہیں ان کا اخراج اس پراسیس میں گویا نسبتا” ایک کم برائی ہے۔ انہوں نے ڈپارٹمنٹ فار ایجوکیشن کی اس کمٹمنٹ کو ویلکم کیا ہے کہ پرفارمنس مینجمنٹ میں تبدیلی لائی جائے گی جس سے معمولی تعداد میں منفی سکورز ایک اسکول کی مجموعی کارکردگی پر اثر انداز نہیں ہوگی جبکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کون سی کمیونٹیز برطانیہ کی زیادہ پسماندہ ہیں اور زیادہ غریب علاقوں میں رہائش پزیر ہیں ۔ اس تناظر میں تمام والدین بشمول پاکستانی کشمیری کا کلیدی رول بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے روزمرہ معاملات میں دلچسپی لیں ان کے چال چلن طور و اطوار میں تبدیلیوں کو نوٹ کریں اور مزید تاخیر نہ برتیں کہ کہیں پانی سر سے اونچا نہ ہوجائے۔ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر پاکستانی کمیونٹی کا اپنے بچوں کے معاملات سے سردمہری اور لاتعلقی کا یہ رویہ آخر کس بات کا مظہر ہے؟ راقم کا جائزہ ، زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ہوس! The love of money is the root of all evilکہ ہر طرح کی برائیوں کی جڑ امیر بننے کی خواہش ہے۔ پونڈ سے حد سے زیادہ محبت اپنے بچوں کے مشاغل ان کی نصابی غیر نصابی سرگرمیوں سے لاتعلقی پہلو تہی کے رویوں کا باعث بن رہی ہے اور نتیجتا” جن بچوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ہر جائز نا جائز طریقے سے پیسے بنانے کی مشق جاری ہے وہی بچے اسکولوں سے خارج ہورہے ہیں۔ برطانیہ جس نے ہمارے باپ دادا پہلے کی پاکستانی کشمیری جنریشنز کو پناہ دی تھی وہ آج جب اسی ملک کی سلامتی کے خلاف متحرک ہونے لگے تو اسکولوں میں Britishness کی اصطلاحیں متعارف ہونا شروع ہوئی ہیں ۔ آج پولیس کے علاوہ اسکولوں کو پابند کیا جارہا ہے کہ وہ بچوں کے انتہاپسندی کے رویوں منفی خیالات اور سوچوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو باخبر کریں۔خدارا والدین خواب غفلت سے بیدار ہوں اور ایکٹیو پیرنٹ active parent کا رول نبھانے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔
تازہ ترین