تقریباً 2 سال قبل ابو ظہبی کے کورنیش روڈ پر بانی امارات شیخ زید بن سلطان النہیان کی پورٹریٹ دیکھی جو واقعی آرٹ کا نمونہ تھی۔ اس کے نیچے آرٹسٹ کا نام ’لیاقت علی خان‘ لکھا ہوا تھا، مجھے فوراً خیال آیا کہ یہ آرٹسٹ ضرور پاکستان سے تعلق رکھتا ہو گا۔ پورٹریٹ کے بارے میں جب معلومات حاصل کیں تو علم ہوا کہ آرٹسٹ پاکستانی ہی ہے۔ جو پچھلے 22سال سے ابو ظہبی میں مقیم ہے،لیکن شیخ زائد بن سلطان النہیان سے بھی بے حد محبت رکھتا ہے۔ میں نے لیاقت علی خان سے رابطہ کیا ،انہوں نے بڑی محبت سے میری بات سنی،ملاقات کا وقت طے پا گیا۔ انہیں اپنے سامنے دیکھ کر مجھے خوشی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت نے آن لیا۔ وہ دیار غیر میں سرتاپا پاکستان کی پہچان بنے کھڑے تھے۔ انہوں نے بڑی محبت سے مجھے گلے لگایا۔بات چیت کرتے ہوئے لیاقت علی خان نے بتایاکہ’’ ابو ظہبی کے حکمران شیخ ائد بن سلطان النہیان نے اپنی22سو مربع فٹ پورٹریٹ بنانے پر خصوصی ملاقات کا مشرف بخشا تھا اور فن کے اعتراف میں ایک بڑی رقم بطور انعام بھی دی تھی۔ میںیہاں ابو ظہبی حکومت کا ملازم ہوں، مصوری کے ساتھ ساتھ باغات کی ڈیزائننگ ،تزئین و آرائش اوران کےماڈل بھی بناتاہوں۔ امارات حکام نے مجھے ’سنہرے ہاتھوں والے مصور ‘کا لقب بھی دیا ہے‘‘۔
اس کے بعد بھی میری لیاقت علی خان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 2000ء میں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ایک انڈین آرٹسٹ اپنے قائد گاندھی کی چار ہزار مربع فٹ پورٹریٹ تیار کر رہا ہے۔ تو میں نے خود کو پاکستان کا قرض دار سمجھتے ہوئے کسی لالچ کے بغیر، قومی جذبے سے سرشار ہو کر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی آٹھ ہزار مربع فٹ تصویر بنانے کا ارادہ کیا۔ دوستوں اور گھر والوں نے مجھے پاگل اور دیوانہ کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی تصویر کس طرح بنائو گے اور اسے کہاں لگائو گے، میں اور میرا جذبہ جوان تھا۔ مسلسل اور انتھک محنت سے سات ماہ کی قلیل مدت میں قائد اعظمؒ کی تصویر بنائی جو دنیا کی سب سے بڑی تصویر ہے۔اُس وقت کے صدر پرویز مشرف جب متحدہ عرب امارات کے دورے پر آئے تو میری ان سے ملاقات ہوئی ،میں نے انہیں تصویر کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔انہوں نے میرے جذبے اور کام کو سراہا۔ 8مارچ 2001ء میں یہ تصویر اسلام آباد پہنچا دی گئی۔ پاکستان پہنچانے کا خرچ بھی میں نے خود ہی برداشت کیا کہ 23مارچ کو اسلام آباد کے کسی موزوں مقام یا پارلیمینٹ کے سامنے نصب کر کے دنیا کے سامنے پیش کی جائے گی۔ میری زندگی کا خواب اور خواہش تھی جو 23مارچ2001ء میں پوری ہونے جا رہی تھی، لیکن مجھے کہا گیا کہ موزوں جگہ کا انتخاب کرنا ہے،انتظار کریں۔ یہ انتظار دنوں سے سالوں پر محیط ہو گیا ،مجھے بتایا گیا کہ اتنی بڑی تصویر کا اسٹرکچر اتنی جلدی تیار نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے سرکاری حکام نے 14اگست کا کہا۔ یہ تاریخ بھی گزر گئی پھر بتایا گیا کہ 25دسمبر کو قائد کی 125ویں سالگرہ پر نمائش ہو گی ۔ دن،مہینے اور سال گزرتے گئے آخر میں یہ بتایا گیا کہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس تصویر کا اسٹرکچر تیار کرنے کے لئے رقم نہیں ہے۔ ہر بار مجھے اسی طرح کوئی نیا عذر بنا کر واپس بھیج دیا گیا۔ میں نے کئی بار ابو ظہبی سے اسلام آباد کے چکر لگائے ،میں آخر کار تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ میں نے پورٹریٹ کی تیاری پر15لاکھ سے زائد اپنی جیب سے خرچ کئے ہیں اور کسی صلے کی تمنا بھی نہیں ہے۔ صرف یہ خواہش ہے کہ میرے ہم وطن میرے جذبے اور فن سے باخبر ہوں۔ مسلسل اسلام آباد رابطے اور چکر لگانے کے بعد لیاقت علی خان نے حوصلہ ہار دیا ،پرویز مشرف کی حکومت چلی گئی۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں نے وقت پورا کیا لیکن کسی بھی حکمران نے اسلام آباد سی ڈی اے کے گوداموں میں بڑی قائد اعظم ؒ کی تصویر کونصب کرنے توفیق نہیں کی۔
گزشتہ دنوں میری ملاقات لیاقت علی خان سے کئی برس بعد ہوئی ،میں نے دنیا کی سب سے بڑی تصویر کے بارے میں دریافت کیا، وطن پرست دل گرفتہ لیاقت علی خان نے کہا کہ جب میں نے تصویر بنا لی تو اس وقت جوان تھا ،اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ کسی سے رابطہ کروں۔اب تو میں تقاریب میں بھی جاتے ہوئے گھبراتا ہوں اور شرم سے نگاہ جھک جاتی ہے ،لوگ طنزیہ انداز میں تصویر کے بارے میں معلوم کرتے ہیں۔ اتنا کہہ کر انہوںنے مجھ سے اجازت چاہی۔ میں انہیں کافی دور تک جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ قائد اعظمؒ کا ذکر صرف کتابوں ،اخبارات ،فلموں اور تقاریب میں ہی اچھا لگتا ہے۔ سیاست دان اور بیورو کر یسی قائد اعظم ؒکے نقش قدم پر چلنے کے دعویٰ کرتے ہیں اور دانشور ریڈیو اور ٹی وی پر قوم کو قائداعظمؒ کے سنہرے اصولوں سے آگاہ کرتے ہیں ،لیاقت علی خان واقع ہی پاگل ہے کہ اس نے بانی پاکستان کا دنیا کا سب سے بڑا پورٹریٹ کیوں بنایا۔ اگر اس نے کسی صدر یا وزیر اعظم کا پورٹریٹ بنایا ہوتا،وہ نہ صرف کسی موزوں مقام پر نصب ہو چکا ہوتا، بلکہ اسے انعام و اکرام اور ایوارڈ سے بھی نوازا جاتا ۔