قیامِ پاکستان سے قبل سندھ کے کچھ تاریخی، سیاسی اور و مذہبی کردار ایسے ہیں جنہوں نے اپنی پوری حیات دینِ اسلام اور انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردی۔ اپنی زندگی میں عیش و آرام کو ٹھوکر مارکر اپنی خواہشات کو ختم کرتے ہوئے ہمیشہ دین کی سربلندی اور عام لوگوں کی بھلائی اور فلاح و بہبود کی خاطرکوشاں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ انہیں نہ صرف اچھے الفاظ میں یاد رکھے ہوئے ہیں بلکہ ان کے بتائے ہوئے اصولوں پرکاربند رہ کر زندگی بسر کررہے ہیں۔ایسے ہی لوگوں میں ضلع شکارپور کی تحصیل گڑھی یاسین کے علاقے امروٹ شریف کے جیدعالمِ دین اورسیاسی، سماجی و مذہبی رہنماحضرت مولانا سیدتاج محمود شاہ امروٹی بھی تھے۔
مولانا تاج محمود28 ذوالقعد 1260ھ بمطابق 8دسمبر1844ء میں روہڑی کے قریب گاؤں دیوانی میں پیدا ہوئے۔انہوں نے بنیادی تعلیم اپنے والد بزرگوار عالم دین مولانا سید عبدالقادر شاہ عرف سائیں بھورل شاہ سے حاصل کی، جبکہ عربی اور فارسی کی مکمل تعلیم وتربیت روہڑی کےجید عالم آخوند حاجی عبدالقادر پنہواری سے حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی میں داخل ہوئے۔ وہ اپنے والد کی دیانت داری، دین داری اور خدمتِ انسانی سے بے حد متاثر ہوکر انہی کے نقشِ قدم پر اپنی زندگی گزارنے میں مشغول رہے۔ والد کے انتقال کے بعد انہی کی وصیت کے مطابق میرپور ماتھیلو کے گاؤں بھرچونڈی شریف پہنچ کر حافظ الملت حضرت مولانا محمد صدیق بھرچونڈی شریف کو اپنا روحانی پیشوا مان کر انہی کے پاس رہ گئے، جہاں انہیں "خلیفہ" کا لقب بھی دیا گیا۔ مولانا تاج محمود کو سُلوک کے چاروں طریقوں قادری، نقشبندی، چشتی اور سہروردی کے فیض کی تلقین حاصل تھی۔ اپنے روحانی پیشوا کے کہنے پر دینِ اسلام کی خدمت کی خاطر اپنے گاؤں دیوانی کو چھوڑ کر شکارپور کےقریب گاؤں امروٹ شریف میں سکونت اختیار کی،یہی وجہ تھی کہ ان کے نام کا لازمی جزو بن گیا۔
انہوں نےاپنے چچا سید مہر علی شاہ کی بیٹی سے شادی کی جس سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ بڑی چاہ سے انہوں نے اپنے بیٹے کا نام سید حسن شاہ رکھا ،جو کہ بارہ برس کی عمر میں انتقال کرگیا۔ جس کے بعد انہوں نے دو شادیاں اور کیں لیکن ان سے اولاد نہیں ہوئی۔اپنے مرحوم بیٹے کی محبت اورشدید انسیت کے باعث انہوں نے اپنا تخلص "حسن" رکھ لیا۔ ان کی خانقاہ "صفہ" کا نمونہ اور روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے اہم درس گاہ ثابت ہوئی۔ انہوں نے امروٹ شریف میں پہنچتے ہی وہاں پھیلی ہوئی ساری بدعتوں کوختم کیا ۔ ان کی متاثر کن شخصیت اور حسنِ اخلاق کے باعث مختلف مذاہب کے لوگ ان کی جانب راغب ہونےپر مجبور ہوجاتے اور اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے ان سے دعائے خیر کے طلب گار ہوتے۔ یہی وجہ تھی کہ سیکڑوں غیر مسلموںنے ان کی دعوت پرلبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا ۔ امروٹ شریف میں ان کے قائم کردہ دارالعلوم میں مولانا عبیداللہ سندھی نے سات برسوں تک درس وتدریس کا عمل جاری رکھا ۔اس درس گاہ سے مولانا حماداللہ ہالیجوی،مولانا احمد علی لاہوری ، مولانا عبدالعزیز تھریچانی، مولانا محمد بنوری، مولانا محمد اسماعیل عودوی جیسے کئی عالمِ دین فارغ التحصیل ہوکر دینِ اسلام کی تبلیغ کی راہ میں نکلے۔ اس مدرسے میں شیخ الہند مولانا محمودالحسن کا بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ مولانا تاج محمود امروٹی نے اپنی ساری زندگی اسلامی تبلیغ اور عوام کی فلاح کے کاموں میں وقف کردی۔ اسی لئے دینی درس و تدریس کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی انہوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ خاص طور پر " تحریکِ خلافت"، "تحریکِ ہجرت"، "تحریکِ ترک الموالات" اور"تحریکِ ریشمی رومال"میں بھرپور حصہ لے کرانہیں کامیاب بنایا۔ انہی مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں کے باعث امروٹ شریف کو اُس وقت سیاسی سرگرمیوں کا مرکز مانا جانے لگاتھا۔ مولانا تاج محمود نے "جمعیت علمائے ہند " نامی مذہبی اور سیاسی جماعت بھی بنائی۔ اس وقت بمبئی پریزیڈنسی سے سندھ کی علیحدگی کے حوالے سے ان کی جدوجہد بھی قابل ذکر ہے۔ اس سلسلے میں انہوں تحریکِ خلافت کے پلیٹ فارم سے ایک قرارداد بھی منظور کرائی تھی۔ انہوں نے آزادی کی تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب تحریک خلافت شروع ہوئی تو آزادی کی خاطر وہ کلکتہ، بمبئی اور علی گڑھ تک جا پہنچے۔ تحریک ِ خلافت کے دوران مولانا تاج محمود امروٹی اور رئیس جان محمد جونیجو کی جان توڑ کوششوں کے باعث لاڑکانہ میں آل انڈیا خلافت کانفرنس منعقد کرائی گئی، جس میں برصغیر کے عظیم رہنماؤں سمیت مہاتما گاندھی نے بھی شرکت کی تھی، جہاں ایک عظیم الشان جلسہ کیا گیا۔تحریکِ خلافت سمیت دیگر تحریکوں میں شکارپور کی ہی دو عظیم مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات مولانا دین محمد "وفائی" اورمولانا عبدالکریم ابڑو"چشتی" سرگرم کارکن ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ مولانا تاج محمود امروٹی کے شانہ بہ شانہ رہے۔
مولانا تاج محمود امروٹی نے تحریک خلافت کے روح رواں ہونے کی حیثیت سے انگریز سرکار کی ناک میں دم کردیا،جس کے باعث ان کے کئی ساتھیوں کو جیل جانا پڑا۔ انگریز سرکار کی جانب سے جب سکھر بیراج سے نکلنے والی نہروں کی کھدائی کا کام شروع کیا گیا،تو کچھ مساجد ان کے آڑے آنے لگیں، جنہیں انگریز سرکار نے مسمار کرنے کا ارادہ کر ڈالا۔ مولانا تاج محمود امروٹی اس عمل کے سخت خلاف ہوتے ہوئے بہ آواز بلند مساجد کو بچانے کے لئے سامنے آگئے اور ان کی جان توڑکوششوں کے باعث مساجد شہید ہونے سے بچ گئیں۔
انہی مساجد میں سے ایک زندہ جاوید مثال آج بھی امروٹ شریف میں بہتے دریا کے بیچ قائم "پانی والی مسجد" ہے، جسے جدوجہد آزادی میں تاریخی حیثت حاصل ہے۔یہ خوب صورت مسجد تحصیل گڑھی یاسین، ضلع شکار پور کے قدیم اور تاریخی مسجد امروٹ شریف کے جنوب میں دو کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ کیر تھر کینال کے بیچ میں موجود پانی والی مسجد، جہاں سے تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کی ایسی طاقتور بنیاد یں فراہم ہوئیں جہاں علم و عرفان اور دانش مندی کے وہ ستارے اُبھرے، جنھوں نے آگے چل کر پاکستان کے نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی کی۔ غیر منقسم ہند میں جب انگریز سرکار نے مذکورہہ مسجدکو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت مولانا تاج محمود امروٹی نے انگریز سرکار کو مشورہ دیا کہ کینال کا رخ تبدیل کیا جائے اور مسجد کو شہیدکرنے سے گریز کیا جائے لیکن برٹش حکام مسجد کو شہید کرنےکا تہیہ کرچکے تھے۔ مولانا امروٹی نے افہام و تفہیم سے کام لیتے ہوئے، تحصیل ،دار، کلکٹر اور انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے افسران کو متعدد درخواستیں لکھیں، لیکن کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہوا۔ نتیجتاً مولانا صاحب نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی آوازپر ہزاروں افراد جذبہ شہادت سے سرشار ہوکرمیدان میں آگئے اور ایک ایسی دینی، سیاسی اور مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی ، جس نے برصغیر میں موجود انگریز سرکار کی بنیادیں ہلا دیں۔مولانا امروٹی نے مسجد کی حفاظت کے لیے سیکڑوں لوگوں کے علیحدہ علیحدہ گروپ بنا دبئے، جو الگ الگ اوقات میں مسجد کا پہرہ دینے لگے۔انگریز سرکارنے جب یہ صورت حال دیکھی تو پانی وابی مسجد شہید کرنے کے فیصلے سے دست بردار ہوگئی۔ یہ مسجد آج بھی امروٹ شریف میں کیرتھر کینال کے ان در موجود ہے۔
انہوں نے شاعری میں عشقِ حقیقی کی باریکیوں کو بیان کرتے ہوئے "یوسف زلیخاں" کے نام سے مثنوی بھی لکھی،جو کہ "پریت نامہ" کے نام سے آج بھی مشہور ہے۔ مولانا صاحب نے دینی ادب کی اشاعت کے لئے امروٹ شریف میں ایک اشاعتی مرکز "محمود المطالع"قائم کرکےوہاں سے ماہانہ سندھی رسالہ "ہدایت الاخوان" شائع کیا۔ دینی شاعری میں خاصی دلچسپی رکھنے کے باعث وہ ایک قادرالکلام سندھی شاعر بھی تھے۔ 85برس کی عمر میں 3جمادی الثانی 1348ھ بہ مطابق 5نومبر 1929ء کو مولانا تاج محمود امروٹی، خالق حقیقی سے جا ملے۔ امروٹ شریف میں ان کی مزار تعمیر کیا گیا جہاں دنیا بھر سے لوگ فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں اور روحانی فیض کے طلب گار ہوتے ہیں۔