میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
تجاوزات قائم کرنے والوں نے کروڑوں شہریوں کے حقوق غصب کر رکھے تھے،ان کی وجہ سے کراچی چھونپڑ پٹی کا منظر پیش کر رہا ہے،سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کیا،انہدامی کارروائیاں منصوبہ بندی کے تحت کیں،
آپریشن کے دوران کسی کو خراش تک نہیں آئی اور نہ کسی کا مالی نقصان ہوا،ہر چیز کو غربت سے جوڑنا درست نہیں،ہمیں جذبات کے بجائے عقل سے کام لینا چاہیے،آج پارکوں میں تجارتی سرگرمیاں بند ہو چکی ہیں اور یہاں پارکنگ کی سہولت فراہم کر رہے ہیں،صرف تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کا صفایا کیا گیااور یہ سلسلہ جاری رہے گا،کراچی سرکلر ریلو ے سے آبادی کی منتقلی کے حوالے سے ابھی پالیسی نہیں آئی،کے ایم سی کے کرائے داروں کو دیگر مقامات پرجلد ہی دکانیں فراہم کی جائیں گی
ڈاکٹر سیف الرحمٰن
کراچی کا بیش تر حصہ تجاوزات پر مشتمل ہے،سندھ سیکریٹریٹ، سپریم کورٹ کی توسیعی عمارت اور حبیب بینک کی بلڈنگ نالے پر قائم ہے، لیکن ان پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کا بس نہیں چلتا،مسئلہ گنجانیت نہیں، ناقص منصوبہ بندی ہے،کراچی سے زیادہ گنجان آباد شہر بھی غیر رسمی معیشت کو سہارا دیے ہوئے ہیں،لاکھوں افراد کو بے روزگار کرنا شرم ناک بات ہے، منصوبہ بندی سے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا تھا،سپریم کورٹ کے فیصلے سے شہر کی 40فیصد غیر رسمی معیشت متاثر ہوئی،کراچی کی 13اہم سڑکوں پر ہونے والی آمدروفت کا نظم و نسق درست ہو جائے، توشہر چھوٹانہیں پڑے گا،شہر قائد کو 40سال پرانی حالت میں بحال کرنا ممکن نہیں،انسدادِ تجاوزات مہم سے شہر کی باہمی انحصارکی ثقافت کو نقصان پہنچا،شہر کے مزید منقسم ہونے کا خدشہ ہے، حکومت بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریوں کی ضروریات پوری کرے
عارف حسن
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نیا پاکستان‘‘ کے نعرے سے اقتدار میں آئی تھی۔ تاہم، فی الوقت انہدامی کارروائیوں کی صورت ہی میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن ملک بھر میں جاری ہے اور اس ضمن میں حکومت اور عدلیہ ہم آہنگ ہیں، جب کہ کراچی میں تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن کی عدلیہ خود نگرانی کر رہی ہے اور گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے سینئر جج، جسٹس گلزار احمد نے نہایت سخت ریمارکس دیتے ہوئے ہمیں 40برس پرانا شہر قائد چاہیے۔
یاد رہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کراچی کے میدانوں اور رفاہی پلاٹوں پر سیکڑوں کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں، جن کا صفایا نہایت کٹھن مرحلہ ہو گا۔ علاوہ ازیں، سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق بھی واضح احکامات جاری کیے ہیں اور عدلیہ اس معاملے پر بالکل بھی لچک دکھانے پر آمادہ نہیں، جب کہ پٹڑیوں اور آبادی کے درمیان مقررہ حدِّ فاصل 60فٹ سے کم ہو کر محض 15فٹ رہ گئی ہے، جسے آبادیاں گرا کر واگزار کروانا کے ایم سی اور سندھ حکومت کے لیے چیلنج سے کم نہ ہو گا۔ ایسے میں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا یہ آپریشن اسی انداز سے جاری رہنا چاہیے یا اس میں تبدیلی لانی چاہیے؟ انہدامی کارروائیوں کی وجہ سے شہریوں کا کاروبار اور مالی معاملات کس طرح متاثر ہو رہے ہیں؟ ان سمیت دیگر متعدد سوالات کے جوابات جاننے کے لیے گزشتہ دنوں دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن میں ’’تجاوزات کے خلاف آپریشن ‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں انسدادِ تجاوزات مہم کے نگراں اور کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کےمیونسپل کمشنر، ڈاکٹر سیف الرحمٰن اور معروف ٹائون پلانر اور اربن ریسورس سینٹر (یو آر سی) کے چیئرمین، عارف حسن نے اظہارِ خیال کیا۔اس موقع پر مقررین نے فورم کے شرکاء کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ ذیل میں فورم میں ہونے والی گفتگو پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ :کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے حال ہی میں اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے دیے گئے سخت ریمارکس پر آپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :سپریم کورٹ نے کراچی سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا، جس کی تعمیل میں بلدیہ عظمیٰ کراچی نے انہدامی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ میں عدالت عظمیٰ کی حالیہ آبزوریشن کو بھی درست قرار دیتا ہوں، کیونکہ جتنی بے ضابطگی، بے ترتیبی اور افراتفری کراچی میں نظر آتی ہے، شاید ہی کسی دوسرے میٹرو پولیٹن سٹی میں پائی جاتی ہو۔ یاد رہے کہ جب بھی کسی شہر کا ماسٹر پلان بنتا ہے، تو اراضی کو صرف رہائش کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ تعلیمی، تفریحی اور تجارتی سرگرمیوں کے علاوہ اسپتالوں کے لیے بھی اراضی مختص کی جاتی ہے، لیکن کراچی میں تو گلی محلوں میں بھی تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں اور کھیل کے میدانوں اور پارکوں میں گھر اور دفاتر قائم ہیں۔
جنگ :لیکن یہ سب ایک رات میں تو نہیں ہوا، بلکہ پچھلی چار دہائیوں کے دوران تجاوزات قائم اور غیر قانونی تعمیرات کی گئیں، تو کیا اس دوران متعلقہ اداروں نے غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا، جو اب توڑ پھوڑ میں مصروف ہیں اور کیا اس دور کی حکومتوں اور متعلقہ اداروں کے حکام کو بھی سزا نہیں ملنی چاہیے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :آپ کی بات بالکل بجا ہے۔ میں نے جب میونسپل کمشنر کا عہدہ سنبھالا، تو مجھے پتہ چلا کہ 20گریڈ کے افسر کی سربراہی میں انسدادِ تجاوزات کا ایک باقاعدہ ادارہ بھی قائم ہے، لیکن وہ تجاوزات کی روک تھام کے بہ جائے پیسے لے کر انہیں قانونی شکل دیتا ہے۔ میں نے یہ تمام تجاوزات ختم کروائیں اور جمع کیے گئے کروڑوں روپے بلدیہ عظمیٰ کراچی میں جمع کروانے کا حکم دیا۔
جنگ :اب تجاوزات قائم کرنے والوں کو تو سزا مل رہی ہے، لیکن تجاوزات کو قانونی شکل دینے والوں کو سزا کیوں نہیں دی جا رہی؟ پھر بلدیہ عظمیٰ کراچی نے چند روز کے نوٹس پر ایمپریس مارکیٹ میں قائم 40برس قدیم دکانیں مسمار کر دیں اور دکانداروں کو کوئی متبادل جگہ بھی فراہم نہیں کی، جس کی وجہ سے ایک ہڑبونگ سی مچ گئی، تو کیا یہ کے ایم سی کی ناقص منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :جب سپریم کورٹ نے صدر بالخصوص ایمپریس مارکیٹ کی تاریخی حیثیت بحال کرنے کا حکم دیا، تو ہم نے ایمپریس مارکیٹ میں موجود اپنے کرائے داروں کو آپریشن سے پہلے ہی کرائے کا معاہدہ ختم کرنے سے مطلع کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس پورے آپریشن میں کسی کو خراش تک نہیں آئی اور نہ کسی کا مالی نقصان ہوا۔
جنگ :لیکن آپ ایک ہی دن میں دہائیوں سے کاروبار کرنے والے افراد کو کھلے آسمان تلے لے آئے اور انہیں کوئی متبادل بھی فراہم نہیں کیا؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :بلدیہ عظمیٰ کراچی نے انہدامی کارروائیوں سے متاثر ہونے والے اپنے تمام کرائے داروں کی ایک فہرست مرتب کی ہے، جنہیں بہت جلد شہر کے مختلف مقامات پر دکانیں فراہم کی جائیں گی۔
جنگ :ایمپریس مارکیٹ کے مستقبل کے بارے میں کیا لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :اس مقصد کے لیے ہم نے ایک ٹیکنیکل ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا ہے، جس میں شہر کے جید ماہرینِ تعمیرات، سول انجینئرز، ٹائون پلانرز اور علمی شخصیات شامل ہیں۔ ہمارا بنیادی منصوبہ یہ ہے کہ یہاں ایک تفریحی مقام بنایا جائے۔ پھر ہم ایمپریس مارکیٹ کی تاریخی عمارت کی تزئین و آرائش بھی کریں گے۔
جنگ:کراچی میں جاری انسدادِ تجاوزات مُہم کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ ہم نے پہلے کبھی منصوبہ بندی سے کام کیا اور نہ اب کر رہے ہیں، تو اس میں کتنی صداقت ہے؟
عارف حسن :یہ بات درست ہے۔ کراچی کا بیش تر حصہ تجاوزات پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر 1951ء سے اب تک کراچی بندرگاہ کے رقبے میں 30گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ جہاں جی چاہا، ٹرمینلز بنا دیے، جس کی وجہ سے انٹر سٹی بس ٹرمینل تعمیر نہیں ہو سکا اور بسوں کے اڈے، ورک شاپس اور گودام جگہ جگہ پھیل گئے۔ شہریوں کو رہائش کی سہولت فراہم نہیں کی گئی، تو کچی آبادیاں قائم ہو گئیں اور تو اور سندھ سیکریٹریٹ، سپریم کورٹ کی توسیعی عمارت اور حبیب بینک کی عمارت بھی نالے پر قائم ہے، لیکن ان سب پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کا بس نہیں چلتا۔ تاہم، میرے لیے سب سے زیادہ اہمیت یہ سوال رکھتا ہے کہ کیا عدالت عظمیٰ انتظامی فیصلے کا حق رکھتی ہے؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ تجاوزات نہیں، بلکہ باہمی انحصار کا ایک ماحول ہے اور اسے برداشت کیا جاتا رہا ہے۔ درحقیقت، مسئلہ گنجانیت نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، کیونکہ اس سے زیادہ گنجان آباد شہر بھی غیر رسمی معیشت کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ ہزاروں دکانیں مسمار کر کے لاکھوں افراد کو بے روزگار کرنا نہایت شرمناک بات ہے۔ سندھ حکومت اور کے ایم سی نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مجبوراً آپریشن شروع کیا۔ سو، منصوبہ بندی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شہر بڑی کاروباری شخصیات اور ڈیولپرز کے ہاتھ بِک چکا ہے اور یہ آپریشن بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ یہ آپریشن ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ہو رہا ہے، لیکن انہدامی کارروائیوں کا آغاز بیش قیمت جائیدادوں سے ہوا۔
جنگ:آپ کے کہنے کا یہ مقصد تو نہیں کہ سپریم کورٹ بھی اس معاملے میں فریق ہے؟
عارف حسن :میں اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن یہ فیصلہ اس اعتبار سے ناقابلِ فہم ہے کہ اس کی وجہ سے شہر کی 30سے 40فیصد معیشت متاثر ہوئی ہے۔ شہری حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 72فیصد افراد کا روزگار اس غیر رسمی معیشت سے وابستہ ہے اور اگر یہ تخمینہ درست ہے، تو کم و بیش 15لاکھ افراد کا روزگار متاثر ہوا ہے۔ یہ 132تجارتی مراکز ہی شہر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اگر خلوصِ نیت سے کام کیا جائے، تو نہایت کم وقت میں ایک ایسا پلان بن سکتا ہے کہ جس میں تمام متاثرہ افراد کھپ جائیں گے اور ایمپریس مارکیٹ کی خوبصورتی کو متاثر کیے بغیر وہاں کاروبار سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ تاہم، ایک طبقے کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایمپریس مارکیٹ میں اور اس کے ارد گرد کاروبار کرنے والے افراد نے اس جگہ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔
جنگ:کیا مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے آپ کی حکومت سندھ یا میئر کراچی سے کوئی بات چیت ہوئی ہے؟
عارف حسن :ابھی تک تو نہیں ہوئی۔
جنگ :آپ اس حوالے سے کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟
عارف حسن :لیاری ندی شہر کے شمال اور شاہراہ فیصل جنوب میں واقع ہے۔ بندرگاہ مغرب میں اور مشرق میں پرانی سبزی منڈی۔ ان علاقوں سے گزرنے والی 13سڑکوں سے روزانہ لاکھوں افراد شہر میں داخل ہوتے ہیں اور جب تک ہم اس ٹریفک کا نظم و نسق درست نہیں کرتے، چاہے جو کچھ کرلیں، شہر چھوٹا ہی پڑے گا۔ انہی سڑکوں پر کم و بیش 130تجارتی مراکز واقع ہیں، جو شہر کی غیر رسمی معیشت کی بنیاد ہیں۔ ان تجارتی مراکز کو سہولتیں فراہم کی جائیں، لیکن اگر وہاں غیر قانونی سرگرمیاں جاری ہیں، تو انہیں بے شک ختم کر دیں۔ البتہ پہلے تجاوزات کا تعین تو کر لیا جائے۔ بھارت میں ایسے کاروباری مراکز کے لیے باقاعدہ قوانین بنائے گئے ہیں اور ہمیں ان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر سپریم کورٹ حکم نہ دیتی، تو بلدیہ عظمیٰ کبھی بھی آپریشن نہ کرتی۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :ہمارے ہاں فٹ پاتھوں پر مارکیٹیں قائم کرنے کی روایت بن چکی ہے، جو نہایت تشویش ناک بات ہے۔ پھر ہر چیز کا تعلق غربت سے جوڑنا بھی درست نہیں۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ غریبوں کو بے روزگار کر دیا گیا، حالانکہ جب ہم نے صدر میں آپریشن کیا، تو پتہ چلا کہ ایک ہی شخص 40دکانوں کا مالک تھا اور وہی سب سے زیادہ معترض تھا۔ آج دنیا بھر میں اسمارٹ سٹیز تعمیر کی جا رہی ہیں۔
جنگ :یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ نے شہر کے مستقبل کے حوالے سے کوئی منصوبہ تیار کیا ہے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن : جس طرح تجاوزات کے اعتبار سے کراچی انفرادیت کا حامل ہے، اسی طرح اس کا ٹرانسپورٹیشن سسٹم بھی سب سے منفرد ہے۔ دنیا کے دیگر بڑے شہروں میں زیرِ زمین راستے تعمیر کیے جا رہے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں شہری نجی سواریاں استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور سڑک پر پیدل چلنا دشوار ہے۔ اگر انہدامی کارروائیوں کی وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے ہیں، تو ان تجاوزات نے کروڑوں شہریوں کے حقوق غصب کر رکھے تھے۔ تجاوزات کی وجہ سے شہری پیدل نہیں چل سکتے تھے۔ بارشوں میں نالوں کا پانی گھروں میں داخل ہو جاتا تھا۔ اسی طرح پارکس اور رفاہی پلاٹوں کو شادی ہالز میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
جنگ :ان تمام تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کا کب تک صفایا ممکن ہے اور ان کی جگہ کیا تعمیر کیا جائے گا؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :آپریشن سے قبل ریگل چوک، برنس روڈ، آرام باغ، جوڑیا بازار اور کھوڑی گارڈن سمیت دیگر علاقوں میں دکانداروں نے کئی کئی فٹ تک اپنی دکانیں بڑھا رکھی تھی اور وہ فخریہ کہتے تھے کہ ہم تو گزشتہ 50برس سے اسی طرح کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے شہریوں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہ سارے علاقے ایک عجیب سا منظر پیش کرتے تھے، لیکن ان تمام تجاوزات اور سیکڑوں غیر قانونی تعمیر کیے گئے شادی ہالز کو ایک منصوبہ بندی کے تحت مسمار کیا گیا۔
جنگ :گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے کراچی کو 40سال پہلے والی شکل میں بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس پر عملدرآمد کے لیے آپ نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :جی بالکل۔ اس حوالے سے پلان بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہم غیر قانونی کاروبار اور شہریوں کے حقوق غصب کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے۔
جنگ :عدالت عظمیٰ نے کراچی سرکلر ریلوے کو بھی اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے کیا لائحہ عمل بنایا ہے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے سلسلے میں ہماری ذمے داری تجاوزات ختم اور اراضی واگزار کروا کر سندھ اور وفاقی حکومت کی مدد کرنا ہے۔ ہم نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور ضلع وسطی میں اب تک 11کلو میٹر تک کے علاقے سے تجاوزات ختم کروائی جا چکی ہیں۔
عارف حسن :شہر کوئی مردہ شے نہیں ہوتا، بلکہ یہ زندہ شے ہوتا ہے اور اگر باقاعدہ منصوبہ بندی سے اس کی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں، تو یہ کسی نہ کسی طریقے سے انہیں پورا کر لیتا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے شہریوں کی ضروریات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کراچی کو اس کی 40سال پرانی شکل میں بحال کر دیا جائے، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس وقت کراچی کی آبادی تقریباً 50لاکھ تھی اور آج 2کروڑ سے بھی زیادہ ہے، تو یہ ایک عجیب و غریب حکم دیا گیا ہے ، کیوں کہ 40سال کے دوران قائم ہونے والی عمارتوں کو کیسے گرایا جا سکتا ہے۔ انسدادِ تجاوزات مہم سے نہ صرف کراچی کے شہریوں بلکہ ان کی باہمی انحصار کی ثقافت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ حالانکہ حکومت کو ایسی منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ جس سے شہریوں کی ضروریات پوری ہوں اور وہ اس کے مطابق اپنے ماحول کو ڈھال سکیں۔ اس انسدادِ تجاوزات مہم سے میرا بھی بہت زیادہ نقصان ہوا ۔ میں اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ صدر میں پارک کی سیر کرنے کے بعد ایک ہوٹل میں بیٹھ جاتا اور بچے کھیلنے کے لیے پلے لینڈ چلے جاتے ہیں، لیکن اب یہ سب چیزیں ختم ہو چکی ہیں۔ آپ کسی بھی پارک میں چلے جائیں، تو آپ کو اس میں ایسے ٹھیلے والوں کا ایک ہجوم ملتا تھا کہ جو چاٹ اور شربت بیچ رہے ہوتے تھے۔ اس پارک کے اندر پوری گنجائش ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ باہر بندر والا اور فال دیکھنے والا طوطا ہوتا تھا،اور یہ سب مل کر ایک پورے ماحول کو باغ باغ کر دیتے تھے، لیکن جب ایک بریگیڈیئر صاحب وہاں گئے، تو انہوں نے کہا کہ یہ سب غیر مہذب لوگ ہیں اور ان کو باہر نکال دیا۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ منصوبہ بندی کریں، تو عوام دوست منصوبہ بندی کریں۔ آپ ایسی منصوبہ بندی کریں کہ جس سے کراچی کا شہری، اس کی ضروریات، اس کی خواہشات اور اس کا ماحول مطابقت پیدا کر سکے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کراچی مزید تقسیم ہو جائے گا اور ضلع جنوبی صدر پر قبضہ کر لے گا۔ اس کے سارے اثرات موجود ہیں اور اگر کوئی سوال پوچھے گا، تو میں بتا دوں گا۔
خان بادشاہ :اپ نے کہا کہ دکانداروں نے 40،50فٹ تک تجاوزات قائم کر رکھی تھیں، لیکن کیا یہ درست ہے کہ ماموں کو پکڑ لیں اور بھانجے کو چھوڑ دیں۔ پھر شہری پارکوں میں کیوں اور کیسے جائیں، کیوں کہ وہاں تو پارکنگ کا بندوبست ہی نہیں ہے؟ اور جہاں تک کراچی کو 40سال پرانی شکل میں بحال کرنے کی بات ہے، تو پھر تو سارا شہر ہی خالی ہو جائے گا۔
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :میں آپ کو حقیقت بتا رہا ہوں کہ جتنے بھی نئے پارکس بن رہے ہیں اور تجاوزات کا صفایا ہو رہا ہے، تو ہم دور جدید کی ضروریات کے پیشِ نظر پارکنگ کی سہولت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جلد ہی باغ ابنِ قاسم دوبارہ کھول رہے ہیں، اس میں پارکنگ کا بہت اچھا انتظام ہے۔ اسی طرح پولو گرائونڈ میں بھی بہت اچھا بندوبست کیا گیا ہے۔ ہم تمام نئے پارکوں میں پارکنگ کی سہولت فراہم کریں گے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس وقت پارکوں میں تجارتی سرگرمیاں بند ہو چکی ہیں۔ پہلے ہل پارک کے اندر شادی ہال بن گئے تھے اور منی گالف کلب بھی تھا۔ پھر ہل پارک کے اندر ایسی سرگرمیاں بھی ہوتی تھیں کہ جو ایک فیملی پارک سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ چوں کہ پارک ایک مخصوص وقت کے لیے کھلتا ہے، تو اس میں عارضی چیزوں کو جگہ دینی چاہیے۔ اس کے علاوہ بھی ہم نے کئی منصوبے بنائے ہیں۔ مثلاًآپ چڑیا گھر اور سفاری پارک ہی کو لے لیں۔ وہاں وہ تمام سہولتیں دست یاب ہیں کہ جو ایک پارک میں عارضی طور پر موجود ہونی چاہئیں۔ تاہم، ان میں ہونے والی بعض تجارتی سرگرمیاں مسائل پیدا کرتی ہیں۔
محمد عامر:کیا ایسا نہیں ہے کہ انسدادِ تجاوزات مہم کے حوالے سے مقامی باشندوں کو پہلے اعتماد میں لے لیا جاتا اور ان سے مشاورت بھی کی جاتی، تو شاید مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور یہ کام بحسن و خوبی ہو جاتا؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ انہدامی کاررائیوں کے دوران کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ چوری یا کسی کو خراش تک نہیں آئی، تو کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی بڑی ایمپریس مارکیٹ میں جو اتنے وسیع پیمانے پر آپریشن ہوا، وہ مقامی تاجروں کی تنظیموں کی مدد اور تعاون کے بغیر ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام دکانیں تاجروں نے خود ہی خالی کیں۔ کسی بھی دکاندار نے یہ شکایت نہیں کہ اسے دکان خالی کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور اسے فوراً مسمار کر دیا گیا۔ تاجروں نے خود ہی اپنی دکانوں کے شٹر وغیرہ اتار کر رکھ دیے تھے، تو اس کا مطلب ہے کہ سب کو وقت ملا۔ یہ غم تادیر برقرار نہیں رہے گا، کیونکہ آپریشن کی زد میں آنے والے دکانداروں کو معلوم تھا کہ انہوں نے تجاوزات قائم کر رکھی تھیں۔ تجازوات قائم کیے بغیر کاروبار کرنے والا کوئی بھی دکاندار یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کے ایم سی کے عملے نے اس کی دکان میں موجود چیزوں کو ہاتھ لگایا۔ جن دکانداروں کی دکانوں کو مسمار کیا گیا، انہیں پہلے ہی معلوم تھا کہ وہ غیر قانونی کاروبار کر رہے ہیں۔ پورے کراچی میں صرف تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات ہی کو مسمار کیا گیا ہے۔
رانا صادق :سپریم کورٹ نے شہری حکومت کو حکم دیا تھا کہ میٹرو کو مسمار کر کے یہاں میدان بنایا جائے، لیکن وہ تاحال قائم کیا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ پریڈی اسٹریٹ کے متاثرین کو پورٹ قاسم میں آباد کیا جائے اور یہاں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جائے، لیکن یہاں بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ پاکستان کوارٹرز کو خالی کروایا جائے، لیکن مکینوں کو مزید وقت دے دیا گیا۔ پھر سرکلر ریلوے کی بحالی کی آڑ میں پاکستان ریلوے 60فٹ کے بجائے 200فٹ دور قائم آبادیوں میں بھی مارکنگ کر رہی ہے۔ اسی طرح مچھر کالونی کے علاوہ دیگر علاقوں سے بھی مکینوں کو جبراً بے دخل کیا جا رہا ہے۔ آخر صرف غریبوں کی آبادیاں ہی کیوں مسمار کی جا رہی ہیں؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :لائنز ایریا میں جہاں میٹرو قائم ہے، وہ جگہ اسکول گرائونڈ کے لیے مختص ہے۔ ہمارے پاس حکم نامہ موجود ہے اور اس کے خلاف ضرور کارروائی ہو گی۔ جب پریڈی اسٹریٹ کا قیام عمل میں آیا تھا، تو وہاں تقریباً 1400افراد کو منتقل کیا گیا اور تب وہ ایک ویران جگہ تھی۔ یہ بات درست نہیں کہ غریبوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ کیا شادی ہال غریبوں کے ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک شادی ہال کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا اور ایک عزیز بھٹی پارک میں مسمار کیا ۔ یہاں موجود کوئی فرد مجھے یہ بتا دے کہ عزیز بھٹی پارک کہاں واقع ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ کسی کو اس کا درست پتہ معلوم ہو گا، کیوں کہ کہیں پر اس کا نام ہی درج نہیں اور وہاں نجی کلب بن گیا اور پھر شادی ہال۔ ہم نے عوامی مقامات پر موجود اس قسم کی تمام غیر قانونی تعمیرات کا صفایا کرنا ہے۔ کشمیر روڈ پر بھی، جو ایک عوامی مقام ہے، شادی ہال بنے ہوئے تھے ، ہم نے انہیں مسمار کر دیا۔ میں ایک بار پھر کہوں گا کہ یہ آپریشن صرف غریبوں کے خلاف نہیں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ تمام متاثرہ دکانداروں کو کاروبار کے لیے متبادل جگہیں فراہم کی جائیں گی۔ ہم نے ابتدائی مرحلے میں 1500سے 2000دکانوں کی نشاندہی کر لی ہے، جو باقاعدہ طریقۂ کار کے تحت متاثرہ کرائے داروں کو ملیں گی۔ یہ دکانیں مختلف مقامات پر واقع ہیں۔ مثال کے طور پر سولجر بازار، گرومندر اور کھڈہ مارکیٹ میں کے ایم سی کی جو مارکیٹ ہے، ان میں سب کو جگہ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ہم شہاب الدین مارکیٹ کو ایمپریس مال کے پاس منتقل کر رہے ہیں۔
نصیر احمد :گزشتہ دور حکومت میں سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن نے بھی پارکس واگزار کروائے تھے، لیکن وہاں تفریحی سرگرمیاں بحال نہیں ہو سکیں، تو کیا اب بھی ویسا ہو گا، جیسا 5سال پہلے ہوا تھا؟ نیز، قانونی کرائے داروں اور تجاوزات قائم کرنے والوں کے درمیان کیا فرق ہے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :میں پہلے آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب دوں گا۔ قانونی کرائے دار بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کرائے دار تھے اور ان کو متبادل مقام پر دکانیں ملیں گی، لیکن کرائے دار کے ساتھ ہی ایک اینکروچر ہوتا ہے۔ جب ہم ایمپریس مارکیٹ کے اندر گئے، تو پتہ چلا کہ وہاں کرائے پر دی گئی ایک دکان کو دو سے تین منزلہ عمارت میں تبدیل کر کے اس میں سرائے خانے اور ہوٹل بنا دیے گئے ہیں۔ ایسا کرنے والوں کو اینکروچر کہا جاتا ہے۔ آپ کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ غیر قانونی شادی ہال مسمار ہونے کے بعد پارکوں کی شکل بحال کرنی چاہیے۔ ان میں گھاس اور پھول بوٹے لگنے چاہئیں اور ایک پلے لینڈ بنانا چاہیے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی ایسے تمام پارکوں کو بحال کر رہی ہے۔ اس کی مثال باغ ابنِ قاسم کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ 140ایکڑ پر محیط اس پارک کو از سر نو تعمیر کیا گیا ہے۔
رانا حسن :سپریم کورٹ رجسٹری، سندھ سیکریٹریٹ اور حبیب بینک کی عمارت نالے پر قائم ہے، لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی، جب کہ ہل پارک کے اندر موجود ایک چھوٹی سی مسجد کو، جہاں سیر کرنے والے افراد نماز ادا کیا کرتے تھے، آپ نے شہید کر دیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ کے سی آر کے متاثرین کے لیے آپ نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ کیا ان کا حال بھی ایمپریس مارکیٹ سے بے دخل کیے گئے تاجروں کی طرح ہو گا، جنہیں ابھی تک متبادل جگہ نہیں ملی؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :ہم بتدریج تمام تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کر رہے ہیں۔ اب جہاں تک ہل پارک کی بات ہے، تو کسی بھی مقام پر جائے نماز نہیں بنا دی جاتی اور اب اسے باقاعدہ اور بہتر انداز میں مسجد کی شکل دی جائے گی۔ پھر سرکلر ریلوے کے آس پاس واقع مکانات کو ابھی تک نہیں چھیڑا گیا۔ ہم ایک پالیسی بنا رہے ہیں، جس کے تحت متاثرہ افراد کو دوبارہ آباد کیا جائے گا۔ اسی طرح ہم نے ضلع وسطی میں آپریشن کے دوران بھی گھروں کو مسمار نہیں کیا۔ تاہم، سرکلر ریلوے کے گرد رہائش رکھنے والوں کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ ان کی حد کیا ہونی چاہیے۔ انہیں آج تک یہ نہیں معلوم ہو سکا۔ یہ ساری معلومات گزٹ میںدرج ہوتی ہیں کہ شہری علاقوں میں 80فٹ کے قریب جگہ دی جاتی ہے۔ بد قسمتی سے گلشنِ اقبال میں گیلانی سیشن پر خوبصورت فلیٹس بنے ہوئے ہیں۔ وہ ریلوے کی جگہ تھی اور ریلوے ہی نے اسے الاٹ کیا تھا۔
جنگ:کیا سرکلر ریلوے کے پاس مارکنگ کر دی گئی ہےکہ اتنی جگہ درکار ہے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :بلدیہ عظمیٰ صرف انسدادِ تجاوزات پر کام کر رہی ہے، جب کہ باقی کام حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کا ہے۔
عاقب خان :آپ نے تجاوزات کو قانونی شکل دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ نیز، صدر کے اندر کار پارکنگ کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :سب سے اہم بات ہے کہ تجاوزات میں سرکاری اہلکار کسی نہ کسی حد تک ضرور ملوث ہوتے ہیں اور اس کا اعتراف میں نے خود سب سے پہلے کیا۔ جب میں نے پہلی ریونیو ریویو میٹنگ کی، تو مجھے بڑے فخریہ انداز میں بتایا گیا کہ محکمۂ انسدادِ تجاوزات نے 8کروڑ روپے کمائے۔ تو میرا اگلا سوال تھا کہ یہ ریونیو کیسے حاصل ہوا، تو محکمے والوں نے بتایا کہ ہم نے کسی دکاندار کو جنریٹر اور کسی کو دوسری چیزیں دکان کے آگے رکھنے کی اجازت دی اور پھر اس کے چالان جاری کیے۔ میں نے آتے ہی اس سلسلے کو ختم کیا اور اپنے اہم ذریعہ آمدن کو باقاعدہ شکل دی۔
جنگ :جس طرح ناردرن بائی پاس کے پاس منصوبہ بندی سے مشرف کالونی بسائی گئی، اگر اسی طرح کی پلاننگ یہاں بھی کر لی جاتی، تو یہ سب نہ ہوتا؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :ہماری ترجیح ہے کہ صدر ٹائون کے لوگوں کو دوبارہ وہیں بسایا جائے۔ کسی کو نیو کراچی یا سہراب گوٹھ میں بسانا ہمارے لیے تو آسان ہے، لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ اس کی وجہ سے ان کا روزگار متاثر ہو۔ اسی لیے انہیں کاروباری علاقوں ہی میں متبادل جگہ فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
محمد عرفان:مستقبل کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟
ج :اگر سب کچھ درست انداز میں چلتا رہا، تو پہلے مرحلے میں ہم صدر، ایمپریس مارکیٹ، جوڑیا بازار، آرام باغ، کھوڑی گارڈن، برنس روڈ کے متاثرہ کے ایم سی کے قانونی کرائے داروں کو متبادل جگہیں فراہم کریں گے۔
ڈاکٹر سعد :یہاں شہر کو بہتر بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ کیا ہمیں شہریوں کو اس بارے میں بھی تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت نہیں کہ شہر کا حلیہ درست ہونے سے انہیں کیا فائدہ پہنچے گا؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :آپ کی بات 100فی صد درست ہے۔ شہری اس وقت جذبات میں آ گئے کہ جب انہیں پتہ چلا کہ ایمپریس مارکیٹ میں یا اندرونِ سندھ انہدامی کارروائیاں کی جائیں گی۔ ایسے میں لوگوں نے راتوں رات اپنی غیر قانونی جگہیں فروخت کر دیں اور خریدنے والا بیچارا پھنس گیا۔ دراصل، لوگوں کو پہلے یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ تجاوزات ہیں اور انہیں کسی بھی وقت مسمار کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں اس بات کا شعور پیدا کیا جائے کہ وہ قانونی طریقۂ کار اپنائیں۔ شہریوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بڑے شہروں میں کیسے رہا جاتا ہے۔ آج کراچی ایک چھونپڑ پٹی کی صورت اختیار کر گیا ہے اور یہ کوئی طرئہ امتیاز نہیں، بلکہ نہایت شرمناک بات ہے۔ میں پائیدار ٹرانسپورٹیشن سسٹم کے سلسلے میں منگولیا گیا تھا۔ وہاں احمد آباد، بھارت کے میٹرو پولیٹن کمشنر بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کس طرح انہوں نے اپنے شہر کو ایک اسمارٹ سٹی میں تبدیل کیا۔ ہمارے ہاں لوگ غلط انداز سے فٹ پاتھ پر چلتے اور گاڑیاں چلاتے ہیں، لیکن وہ اسی کو صحیح طریقہ کار سمجھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شہر میں جو بھی تبدیلی آئے، اس کی باقاعدہ قانونی حیثیت ہو اور میں عارف حسن صاحب سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں شہریوں میں آگہی پیدا کریں۔
عارف حسن :میرا گزشتہ 45سال کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ کراچی میں ایک گز زمین کا ٹکڑا بھی سرکاری افسران کی اجازت کے بغیر کسی کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ کہیں براہِ راست معاملات طے کیے جاتے ہیں ،تو کہیں مڈل مین کے ذریعے اور کبھی کسی سیاسی جماعت کے ذریعے۔ یہ ساری تفصیلات میری کتاب میں درج ہیں اور ساتھ ہی بھتے کی تفصیلات بھی ۔ ایک زمانے میں کراچی کی تین سڑکوں میلسی روڈ، نیپئر اسٹریٹ اور سمر سیٹ اسٹریٹ کے ریڑھی اور ٹھیلے والے پونے دو کروڑ ماہ وار بھتہ دیتے تھے۔ اس وقت شہر میں تقریباً 4000ہاکرز ہیں اور مجھے ان سے بہت دلچسپی ہے۔ آخر یہ شہر انہیں جگہ کیوں فراہم نہیں کر سکتا۔ کھوڑی گارڈن سے تجاوزات کا خاتمہ احسن عمل ہے اور اب وہاں ماحول کافی بدل گیا ہے، لیکن اب وہاں سارے ہاکرز دوبارہ واپس آ گئے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ ان ہاکرز کو ان ہی سڑکوں پر آرام سے بسایا جا سکتا تھا اور بسائے نہ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں ملبہ پڑا ہوا ہے۔ یہاں سب سے اہم چیز منصوبہ بندی ہے اور منصوبہ بندی ریسرچ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایک زمانے اس شہر میں تحقیق کے لیے ایک ادارہ موجود تھا، جو اب نہیں رہا۔
محمد اکرم :سرکلر ریلوے کی زمین پر پہلے شہریوں کو بسنے کی اجازت دی گئی اور اب آبادی کو غیر قانونی قرار دے کر مکینوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے، جب کہ اس سے قبل مچھر کالونی سے بے دخل کیے گئے خاندانوں کو متبادل زمین نہیں ملی۔ کیا یہ ظلم نہیں؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :ابھی اس حوالے سے کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی، لیکن میں ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ کسی کے کہنے پر جگہ خریدنے کی بہ جائے اس کی قانونی حیثیت ضرور دیکھ لینی چاہیے۔
شیراز :مختلف ادوار میں کہا گیا کہ کچی آبادیوں کو قانونی شکل دینے کے لیے این او سی جاری کیا جائے گا، لیکن اس سلسلے میں کتنی پیش رفت ہوئی؟ نیز، کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سے متاثر ہونے والوں کو کہاں متبادل جگہ دی جائے گی؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :میں ایک بار پھر یہ کہہ رہا ہوں کہ ابھی آبادی کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں آئی۔
عارف :جمشید روڈ پر ایک ڈیولپر نے 4ہزار اسکوائر فٹ کی اجازت لے کر 8ہزار اسکوائرفٹ تک تعمیر کی اور کئی برس پہلے کے بی سی اے نے اسے مسمار کرنے کا حکم دیا تھا، لیکن یہ عمارت ابھی تک قائم ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :میں اس جگہ کے معائنے کے لیے تیار ہوں۔
سلیم :کے سی آر کو بحال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا یہاں موٹر وے نہیں بن سکتی؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :میں آپ کی رائے کا احترام کرتا ہوں، لیکن ٹرین کے ذریعے ایک وقت میں بڑی تعداد میں لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتے ہیں اور اسی لیے ریلوے کا نظام قائم کیا گیا تھا۔
محسن خان :یہ کیسی مدینہ کی ریاست ہے کہ یہاں لوگوں سے روزگار اور چھت چھینی جا رہی ہے؟
ڈاکٹر سیف الرحمٰن :ہمیں غلط اور صحیح میں تمیز کرنی چاہیے اور ہر بات پر جذبات کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص آپ کے گھر کے سامنے آ کر تجاوزات قائم کر لے، تو آپ فوراً انہیں ہٹانے کے لیے حرکت میں آ جائیں گے، تو ہمیں شہر کو بھی اپنا گھر سمجھنا چاہیے۔
عارف حسن: میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کو درست نہیں سمجھتا۔ بھارت سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک کے شہروں میں ایک منصوبہ بندی کے تحت ہاکرز کو فٹ پاتھوں پر بسایا گیا اور غیر رسمی معیشت کو سہارا دیا گیا۔ ایسے شہروں کو مختلف طبقات کا شہر قرار دیا گیا۔ مجھے ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میں یہ شہر مزید تقسیم ہو جائے گا اور بہت ساری منصوبے مکمل نہ ہو سکیں گے، کیوں کہ ہمارے پاس ویژن ہی نہیں ہے۔ یہ بصیرت شہری حکومت دیتی ہے اور اس میں شہریوں کی شمولیت ہوتی ہے۔ میں نے 2003ء میں شہر کی بہتری کے لیے چند تجاویز دی تھیں اور اگر ان پر عمل کیا جاتا، تو آج ہمیں ان مسائل کا سامنا نہ ہوتا۔
جنگ :میں جنگ فورم کے توسط سے عدالت عظمیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایسا کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل کہ جس سے عوام کے مفادات وابستہ ہوں، اس کے مضمرات پر ضرور غور کرے۔