میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
یہ منی بجٹ نہیں، معاشی اصلاحاتی پیکیج ہے،اسے پیش کرنے سے قبل وفاقی وزیر خزانہ نے کاروباری برادری کو اعتماد میں لیااور ہماری تجاویز کو پیکیج میں شامل کیا،حکومت نے معیشت کو ایک سمت دینے کی کوشش کی،
ٹیکس چھوٹ کا دائرہ وسیع کیا جائے، کئی برسوں تک دہشت گردی کی زد میں رہنے والے قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں بھی کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، حکومت کو چمن میں انڈسٹری لگانی چاہیے،افغانستان ہمارے لیے ایک بڑی منڈی ہے، اس کے ساتھ تجارت بڑھانی چاہیے،غربت اور مہنگائی سے ملک کا ہر فرد متاثر ہو رہا ہے،معاشی معاملات میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں موقف اپنانا چاہیے،تجارتی خسارے میں کمی کے لیے پڑوسی ممالک اور وسطی ایشیا کے ساتھ مال کے بدلے مال کی تجارت شروع کرنی چاہیے، تجارت سے تعلقات میں بھی بہتری واقع ہو گی
انجینئر دارو خان اچکزئی
اس وقت ہمیں تجارتی خسارے کی صورت میں سب سے بڑا بحران درپیش ہے،حکومت نے بجلی کی قیمت کم کرنے کے بہ جائے بڑھادی، جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ اور مسابقتی سکت میں کمی واقع ہوگی،
چھ مہینے میں حکومت نے قرضوں کے حجم میں 15ارب ڈالرز کا اضافہ کر دیا،حکومت کو روزگار فراہم کرنے والی صنعتوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینی چاہیے اور ایک ایسی پالیسی بنانی چاہیے کہ جس سے نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں داخل ہوں اور ٹیکس گزاروں کو سہولت ملے، حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے منی بجٹ کی منظوری کے لیے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے،رئیل اسٹیٹ سیکٹر جمود کا شکار ہے،سیمنٹ اور سریے کی قیمت کم کی جائے،نجی شعبے کو آسانیاں فراہم کرنے سے ہی 50لاکھ مکانات کی تعمیر ممکن ہو گی،حکومت کوعوام کو مہنگائی کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے کوئی منصوبہ بنانا چاہیے
زبیر طفیل
منی بجٹ یا اقتصادی اصلاحات کا پیکیج دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ روپے کی قدر میں 25فیصد سے زاید کمی کے باوجود بھی ہماری برآمدات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، منی بجٹ میں کم و بیش 200اشیا پر عاید ریگولیٹری ڈیوٹی کو واپس لیا گیا ،حکومت نے ری فنڈز کی مد میں ابھی تک 80ارب روپے دیے ہیں، جو کہ سیلز ٹیکس ری فنڈ ہے،
جب کہ سیلز ٹیکس ری فنڈ اور ری بیٹ تاحال ادا نہیں کیا گیا،کاروبار آسان بنانے کے حکومتی اقدامات کا خیرمقدم کرتے ہیں،صنعت کاروں کو پانی، بجلی اور گیس کی سہولت بھی فراہم کی جائے،مارک اپ بڑھنے سے صنعتوں کو نقصان ہوگا، انکم ٹیکس کمشنر کو شوکاز نوٹس جاری کیے بغیر اکائونٹ سے رقم نکلوانے کا اختیار درست نہیں، آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کا حتمی فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں ایک غیر یقینی صورت حال پائی جاتی ہے،حکومت کو قوم کو اعتماد میں لے کر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا چاہیے، مستقبل میں بھی روپے پر دبائو برقرار رہے گا
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
حکومت نے گزشتہ ماہ کے آخر میں منی بجٹ پیش کیا، جسے ’’اقتصادی اصلاحات کا پیکیج‘‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران حکومت کو دوسرا منی بجٹ پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پھر یہ سوالات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں کہ کن معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لیے دوسرا ضمنی میزانیہ پیش کیا گیا اور اس کے اہداف کیا ہیں؟ اگرچہ اس منی بجٹ کو کاروبار اور صنعت دوست بجٹ قرار دیا جا رہا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ اس کے نتیجے میں صنعتوں میں کتنی بہتری واقع ہوتی ہے۔ نیز، اس کے سبب تجارتی خسارے، جاری کھاتوں کے خسارے اور بجٹ خسارے میں کمی سمیت روپے کی قدر مستحکم کرنے اور شرحِ نمو بڑھانے میں کتنی مدد ملے گی؟ ان سمیت دیگر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے گزشتہ دنوں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) میں ’’منی بجٹ 2019ء‘‘ پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں ایف پی سی سی آئی کے صدر، انجینئر دارو خان اچکزئی، معروف کاروباری شخصیت اور ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر، زبیر طفیل اور مشہور ماہرِ معیشت، ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ نے شرکت کی۔ فورم میں ہونے والی بات چیت ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ :حکومت کو چھ ماہ کے دوران دوسرا منی بجٹ پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ :منی بجٹ یا اقتصادی اصلاحات کا پیکیج دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ روپے کی قدر میں 25فیصد سے زاید کمی کے باوجود بھی ہماری برآمدات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ دوسری جانب حکومت نے بعض ایسے اقدامات بھی کیے تھے کہ جن کی وجہ سے برآمدات متاثر ہوئیں۔ مثال کے طور پر حکومت نے درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے پر تعیشات اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی عاید کی تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی اس خام مال پر بھی پابندی عاید ہو گئی، جو اندرون ملک تیار نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں یہ خام مال بھی مہنگا ہو گیا۔ اس ریگولیٹری ڈیوٹی کو واپس لینے کی ضرورت تھی اور منی بجٹ میں کم و بیش 200اشیا پر عاید ریگولیٹری ڈیوٹی کو واپس لیا گیا ہے۔ میں یہاں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ منی بجٹ پیش کرنے سے قبل وفاقی وزیر خزانہ فیڈریشن ہائوس میں آئے تھے اور انہوں نے کاروبار کو آسان بنانے کے لیے ہم سے تجاویز طلب کی تھیں۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ وہ کاروباری شعبے کو درپیش مشکلات کے خاتمے کے لیے معاشی اصلاحات کا پیکیج لا رہے ہیں۔ اس موقع پر ہم نے ان سے کہا کہ حکومت نے ہمیں ری فنڈز نہیں دیے، جی آئی ڈی سی یعنی گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کا مسئلہ گمبھیر ہو چکا ہے اور ایل این جی کا پراجیکٹ بھی نجی سیکٹر نے لگایا ہے۔ جی آئی ڈی سی کے معاملے میں انہوں نے صرف فرٹیلائزر سیکٹر کے لیے 40فیصد جی آئی ڈی سی تین سال کے لیے سیٹل کر دی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے اس کے ثمرات عوام تک منتقل کرنے کے لیے ایک بوری کی قیمت میں 200روپے کمی بھی کی ہے۔ تاہم، حکومت کی نئی شرط نے صنعت کاروں کو پریشان کر دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ صرف ان صنعتی شعبوں کو جی آئی ڈی سی میں رعایت دی جائے گی کہ جو اسے ادا کر چکے ہوں گے۔ علاوہ ازیں، ہم نے وزیرخزانہ سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر حکومت یک لخت 250ارب روپے کے ری فنڈز نہیں دے سکتی، تو ہمیں Promissory Note دیدے۔ اس موقع پر انہوں نےہم سےدو وعدے کیے تھے۔ پہلا وعدہ یہ تھا کہ ہماری اور حکومت کی ادائیگی میں ایڈجسٹمنٹ ہو گی اور اگر اس کے بعد بھی رقم بچتی ہے، تو حکومت Promissory Note دے گی، جو بینک میں ڈسکائونٹ ہو سکے گا۔ اب حکومت نے تین سال کا Promissory Note جاری کیا ہے اور 10فیصد مارک اپ بینک کو دیا جائے گا۔ ہمیں 30فیصد کم رقم ملے گی۔ یہ کاروباری برادری نے بہت بڑی قربانی دی ہے۔ حکومت نے ابھی تک 80ارب روپے دیے ہیں، جو کہ سیلز ٹیکس ری فنڈ ہے، جب کہ سیلز ٹیکس ری فنڈ ابھی تک نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ ری بیٹ بھی نہیں دیے۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ اسی فارمولے پر دوسرے ری فنڈز بھی دیے جائیں، تاکہ پیسے کی روانی ہو اور برآمدات میں اضافہ ہو۔ تاہم، حکومت نے کاروبار کو آسان بنانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
جنگ :پیداواری لاگت میں اضافے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ :صنعت کاروں کی سہولتوں میں پانی، گیس اور بجلی کے کنکشنز کو شامل نہیں کیا جاتا اور کاروبار کی آسانی کے لیے انہیں شامل کیا جانا چاہیے۔ ڈائریکٹ ٹیکسز عاید ہونے سے ہماری پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، اس کے علاوہ توانائی پر آنے والی لاگت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور جی آئی ڈی سی ایک تلوار کی صورت ہمارے سروں پر لٹک رہا ہے۔ پھر ری فنڈ روکنے سے ہمارا ورکنگ کیپیٹل ختم ہو گیا ہے اور اب صرف یہی حل رہ گیا ہے کہ بینکوں سے قرضہ لے کر اضافی لاگت ادا کی جائے یا کاروبار کو سکیڑا جائے۔
جنگ :کیا منی بجٹ سے کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئے گی؟
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ :حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صنعتوں کو ترقی دے کر روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتی ہے اور برآمدات بڑھا کر جی ڈی پی میں اضافہ کرنا چاہتی ہے، لیکن دوسری جانب مارک اپ 7فیصد سے بڑھ کر 14فیصد ہو گیا ہے اور ڈالر 140روپے تک جا پہنچا ہے، تو اس صورت حال میں صنعتوں کو کیسے فروغ ملے گا۔
جنگ :اس وقت ہماری معیشت کو کیا بڑے چیلنجز درپیش ہیں اور کیا حکومت درست سمت میں جا رہی ہے؟
زبیر طفیل :اس وقت ہمیں تجارتی خسارے کی صورت میں سب سے بڑا بحران درپیش ہے۔ ہماری برآمدات کا حجم 24ارب ڈالرز ہے، جب کہ درآمدات 60ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہیں۔ یہ اتنا بڑا فرق کیسے ختم ہو گا۔ اگر برآمدات کے ساتھ ترسیلاتِ زر کو بھی شامل کر لیا جائے، تو یہ رقم تقریباً 45ارب ڈالرز ہو جاتی ہے اور اس کے باوجود بھی 15ارب ڈالرز کا خالص خسارہ بچتا ہے۔ اس خسارے کو کم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ 4سے 5ارب ڈالرز کی درآمدات کم کی جائیں اور اتنی ہی مالیت کی برآمدات بڑھائی جائیں۔ جب یہ 10ارب ڈالرز کی بچت ہو گی، تو تبھی حکومت معاملات چلا سکتی ہے۔ حکومت نے بجلی کی قیمت کم کرنے کے بہ جائے مزید بڑھائی ہے، جس سے پیداواری لاگت مزید بڑھے گی۔ بجلی کی موجودہ قیمت میں ہم کبھی بھی مسابقت نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت تجارتی خسارے کو کم نہیں کر سکتی، تو پھر ہر سال 15ارب ڈالرز کہاں سے لائے گی۔ پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے ملک پر 92ارب ڈالرز کے قرضے تھے۔ موجودہ حکومت نے 6ارب ڈالرز سعودی عرب اور یو اے ای سے لیے، جب کہ ادھار ملنے والا تیل بھی قرض ہی کی ایک شکل ہے۔ اس کے علاوہ چین سے بھی قرضہ لیا۔ یعنی چھ مہینے میں اس حکومت نے قرضوں کے حجم میں 15ارب ڈالرز کا اضافہ کر دیا۔ اب حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ قرضوں کی ادائیگی کیسے ہو گی۔ پھر حکومت کو صنعتوں کی مدد کرنی چاہیے، کیوں کہ صنعتیں چلیں گی، تو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اب ایک بہت بڑا چیلنج بیروزگاری کی شکل میں سامنے آ رہا ہے ، اس سے کیسے نمٹا جائے گا۔ حکومت کو روزگار فراہم کرنے والی صنعتوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینی چاہیے۔ پھر ایسی پالیسی بنائی جائے کہ جس کے نتیجے میں لوگ انڈسٹری میں سرمایہ کاری کریں، کیوں کہ معیشت کو مضبوط کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ صنعتوں کو ترقی دینے سے روزگار کے علاوہ حکومت کو ٹیکس کی صورت میں آمدنی بھی ملتی ہے۔ ہم کوئی بھی چیز بناتے ہیں، تو اس پر 17فیصد سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں اور یہ سیلز ٹیکس ہی اس وقت ایف بی آر کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے بعد کہیں جا کر کسٹم اور ایکسائز ڈیوٹیز کا نمبر آتا ہے۔ حکومت نے Promissory Note کی صورت ری فنڈ دینے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کے ذریعے 100کے بہ جائے 90روپے ملیں گے۔ حکومت نے ایک اچھا اعلان یہ بھی کیا ہے کہ فائلرز کو ود ہولڈنگ ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے اسٹاک ایکسچینج کو بھی سہارا دیا ہے اور یہاں لیا جانے والا ایڈوانسڈ ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو گئی ہے، تو اس کے لیے ہمیں ملک ایسا ماحول پیدا کرنا ہو گا کہ غیر ملکی باشندے یہاں آکر سرمایہ کاری کریں اور ایسا تب ہو گا کہ جب پاکستانی خود سرمایہ کاری کریں۔ اس کے علاوہ حکومت نے 50ممالک کے باشندوں کو پاکستان آمد پر ویزا دینے کا اچھا فیصلہ کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس کی آڑ میں کوئی دہشت گرد ملک میں داخل نہ ہو جائے۔
جنگ :ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
زبیر طفیل :بد قسمتی سے ایف بی آر ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اضافے کے بہ جائے انہی لوگوں پر بوجھ ڈالتا ہے، جو پہلے سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی درست ہے کہ اگر کسی فرد کا این ٹی این نہیں ہے، تو وہ 1300سی سی کار اور 50لاکھ روپے مالیت کا مکان خرید سکتا ہے۔ حکومت کو کوئی ایسی پالیسی بنانی چاہیے کہ نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں داخل ہوں اور ٹیکس گزاروں کو سہولت ملے۔ اس وقت ایف بی آر خوف کی علامت ہے اور اس خوف کو ختم کرنا چاہیے۔
جنگ :آخر معیشت کو دستاویزی شکل کیوں نہیں دی جاتی؟
زیبر طفیل :ایف پی سی سی آئی کی خواہش ہے کہ معیشت کو دستاویزی شکل دی جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں۔ ان گنت افراد بیرون ملک سفر پر جاتے ہیں، لیکن وہ ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں۔ تاہم، ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے حکومت نے اسلام آباد میں ایک آزمائشی منصوبہ شروع کیا ہے، جسے پورے پاکستان میں توسیع دی جائے گی۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ :اب ایک ایسی پالیسی بنائی جا رہی ہے، جس کے تحت اگر انکم ٹیکس کمشنر کو آپ کی بیرون ملک موجود کسی جائیداد کے بارے میں پتہ چلتا ہے، تو وہ اس پر ٹیکس عاید کر کے آپ کے اکائونٹ سے پیسے نکلوا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کے بہ جائے پہلے شوکاز نوٹس جاری کیا جانا چاہیے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ پراپرٹی پہلے ہی ڈکلیئر ہو اور اس پر ٹیکس بھی ادا کیا گیا ہو۔ ہم انکم ٹیکس کمشنر کو کسی کے اکائونٹ سے بھی پیسے نکلوانے کا اختیار دینے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔
جنگ :کیا منی بجٹ سے پہلے ایف پی سی سی آئی کو اعتماد میں لیا گیا اور اس کی تجاویز کو تسلیم کیا گیا؟ نیز، اس وقت کاروباری برادری کو کیا مشکلات درپیش ہیں؟
دارو خان اچکزئی :میں اسے منی بجٹ نہیں، بلکہ معاشی اصلاحاتی پیکیج کہوں گا۔ اس پیکیج سے پہلے وفاقی وزیر خزانہ نے کاروباری برادری کو اعتماد میں لیا اور ایف پی سی سی آئی بھی تشریف لائے۔ اس موقع پر ہم نے کاروبار کو آسان بنانے کے حوالے سے ایک پریزنٹیشن پیش کی۔ وزیر خزانہ نے نہ صرف اس پریزنٹیشن کو سراہا، بلکہ ہماری کمیٹی کے چیئرمین کو اسلام آباد میں دوبارہ ملاقات کے لیے بھی کہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نکات کو بھی اس پیکیج میں شامل کیا گیا۔ قبل ازیں، ہم اسے منی بجٹ سمجھ رہے تھے اور ہم نے اس کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی بھی کی تھی، لیکن حکومت نے کاروبار کو آسان بنانے کے لیے اصلاحاتی پیکیج پیش کیا اور اس میں بھی سب سے زیادہ توجہ ایس ایم ایز پر دی ہے، جو کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے زرعی قرضوں میں 22فیصد اضافہ کیا اور زرعی آمدن پر لاگو شرحِ سود 39فیصد سے کم کر کے 20فیصد کر دی ہے۔ یعنی حکومت نے معیشت کو ایک سمت کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کی ہے۔ علاوہ ازیں، حکومت نے کم لاگت کی رہائشی اسکیم کے لیے 5ارب کا گردشی قرضہ بھی مختص کیا ہے۔ اگرچہ ہمارے خیال میں یہ رقم بہت معمولی ہے، لیکن اگر اس کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں، تو یہ ایک اچھی پیش رفت ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں اس میں کئی گنا اضافہ کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ حکومت نے گرین فیلڈ انڈسٹری پر ٹیکس میں پانچ سال کی چھوٹ دی ہے، جو ایک اچھا اقدام ہے، لیکن کافی نہیں۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ حکومت کئی برسوں سے تک دہشت گردی کی زد میں رہنے والے قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں بھی کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دے۔ سی پیک میں ایک طویل عرصے تک کے لیے ٹیکس سے چھوٹ دی گئی ہے، لیکن جب تک یکساں مواقع فراہم نہیں کیے جاتے، تب تک صنعتیں تیزی سے ترقی نہیں کر سکتیں۔ میں حکومت کو یہ تجویز دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس چھوٹ کا دائرہ پسماندہ علاقوں تک وسیع کرے۔ اس سلسلے میں، میں چمن کا نام اس لیے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کا کا گیٹ وے ہے۔ کراچی کے مقابلے میں چمن سے ترکمانستان کی سرحد قریب ہے، جہاں سے وسطی ایشیا کے دیگر ممالک اور مشرقی یورپ جانے کے لیے بہترین ریلوے نظام موجود ہے۔ حکومت کو چمن میں انڈسٹری لگانی چاہیے۔ اس کے علاوہ ہم بلوچستان میں توانائی کے متبادل منصوبوں پر کام کر سکتے ہیں اور وہاں غیر ملکی سرمایہ کار بھی آ سکتے ہیں، لیکن اس مقصد کے لیے حکومت کو سی پیک کی طرز کا ٹیکس ہالیڈے پیکیج دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں افغانستان کے ساتھ تجارت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ افغانستان ہمارے لیے ایک بہت بڑی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی دور میں یہ ہمارا سب سے بڑا تجارٹی پارٹنر ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت میں کمی واقع ہوئی ہے اور اسی لیے ہم نے حکومت کو یہ تجویز دی ہے کہ طورخم بارڈر، چمن بارڈر اور غلام خان بارڈر کے ذریعے ہمہ وقت تجارت کی اجازت دی جائے۔ میں یہاں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ افغانستان ہمارے لیے پانچ ارب ڈالرز کی منڈی ہے۔ پی پی نے اپنے دور حکومت میں اسے تین ارب ڈالرز تک پہنچانے کی کوشش کی تھی، جب کہ اس وقت اس میں ایک ارب ڈالرز کی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم، افغانستان میں ہمارے لیے بہت سے امکانات پوشیدہ ہیں اور عمران خان کی پہلی تقریر اس اعتبار سے خاصی حوصلہ افزا تھی کہ انہوں نے افغانستان کے ساتھ یورپی یونین کی طرز پر تجارت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ سی پیک کی صورت میں ہمیں ایک بہت بڑا موقع ملا ہے۔ سی پیک کے مغربی روٹ پر کام جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی کوئٹہ میں ڈی ایچ اے کے نام سے ایک بہت بڑا منصوبہ شروع ہوا ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ یہاں ہوٹل انڈسٹری کو بھی فروغ دے۔
جنگ :حکومت آئی ایم ایف سے رجوع کرنے میں پس و پیش کا مظاہرہ کر رہی ہے، تو اس سے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور حکومت آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے یا نہیں؟
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ:جی ہاں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کا حتمی فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں ایک غیر یقینی صورت حال پائی جاتی ہے، لیکن بہر حال حکومت کو آئی ایم ایف سے ضرور رجوع کرنا پڑے گا۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف توازنِ ادائیگی کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو قرضہ دیتا ہے۔ نیز، اگر ہم آئی ایم ایف کا پروگرام لیتے ہیں، تو ہماری معیشت منظم ہو جائے گی۔ پھر آئی ایم ایف ہمیں ایک کلین چٹ دے دیتا ہے، جس کی وجہ سے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے ہمیں قرضہ دیتے ہیں، لیکن اگر یہ ہمیں قرضہ نہیں دیتے اور ہم بانڈز جاری کرتے ہیں، تو ہمیں پریمیم پر جانا پڑے گا اور زیادہ مارک اپ حاصل کرنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیونکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے اور ہماری برآمدات بھی کچھ بڑھی ہیں۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے اس منی بجٹ میں کچھ ایسی مراعات دی ہیں، جن کی وجہ سے منفی اثر پڑے گا اور آئی ایم ایف ہم سے پوچھے گا کہ یہ کس طرح دی جائیں گی۔ حکومت کو قوم کو اعتماد میں لے کر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا چاہیے اور تمام شرائط عوام کے سامنے رکھنی چاہئیں، تاکہ بے یقینی کی فضا ختم ہو۔ حکومت نے زرعی شعبے اور ایس ایم ایز کے لیے شرحِ سود میں جو نصف کمی کی ہے، تو اس سے بینکوں کو فائدہ پہنچے گا، جب کہ اس کے بہ جائے ہم یہ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنا مارک اپ ایس ایم ایز اور زرعی شعبے میں کم کرے۔ اس وقت ایس ایم ایز کا مارک اپ 21فیصد اور زرعی شعبے کا 18فیصد ہے، جو ان کے لیے مناسب نہیں۔ ہم نے ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہر بینک ایس ایم ایز اور زرعی شعبے کے لیے کوٹہ مختص کرے، ورنہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
جنگ :رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہمارے ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور معاشی استحکام کے لیے سیاسی تنائو کا خاتمہ بھی ضروری ہے، جو اس وقت ملک میں خاصا زیادہ ہے۔ کیا حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت نہیں؟
زبیر طفیل :یہ بات بالکل درست ہے کہ اس وقت ملک کی سیاست میں خاصا تنائو پایا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت بننے کے بعد اپوزیشن تنقید برائے اصلاح کرتی، لیکن انتخابات کے چھ ماہ بعد بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے۔ یہ اچھی علامت نہیں ہے۔ اس صورت حال میں حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔
جنگ :حکومت کو قومی اسمبلی میں صرف چار نشستوں کی برتری حاصل ہے، لہٰذا منی بجٹ کی منظوری آسان نہیں لگتی؟
زبیر طفیل :حکومت کو واضح برتری حاصل نہیں۔ اس لیے اسے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ اس لفظی جنگ سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور بیرونِ ملک بھی پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ ہی اپوزیشن کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے۔ اب جہاں تک رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی بات ہے، تو یہ یقیناً پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شعبہ ہے، لیکن اس وقت یہ جمود یا مندی کا شکار ہے۔ سیمنٹ اور سریے کی قیمت بڑھنے کے باعث ہماری تعمیراتی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ یہ لاگت کس طرح کم کی جا سکتی ہے۔ آج سریے کی قیمت ایک لاکھ روپے فی ٹن اور سیمنٹ کی بوری 600روپے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ حکومت نے سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بہت زیادہ عاید کر دی ہے، جسے کم کرنا چاہیے۔ اسی طرح سریے پر بھی بہت زیادہ ٹیکسز عاید ہیں، جس کی وجہ سے اس کی قیمت ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے چلنے سے دیگر درجنوں صنعتوں کا پہیہ چلے گا اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ حکومت 50لاکھ مکانات تعمیر کرنا چاہتی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب حکومت نجی شعبے کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ یاد رہے کہ 50لاکھ مکانات تنہا حکومت تعمیر نہیں کر سکتی۔ یہ کام پرائیویٹ سیکٹر کے بغیر ممکن نہیں۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو پالیسی لانی چاہیے اور یہ پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ جس کی وجہ سے سرمایہ کار رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کر سکیں اور تعمیراتی سرگرمیوں میں تیزی آئے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ 120گز کے مکانات کی تعمیر پر ٹیکسز انتہائی کم کر دے اور 80گز اور 60گز پر مشتمل مکانات پر ٹیکس کی چھوٹ دی جائے۔ اس طرح تعمیراتی شعبہ تیزی سے گھر تعمیر کرے گا۔ اس کے علاوہ میں یہ تجویز دینا چاہوں گا کہ حکومت کو دیگر ممالک کی لو کاسٹ ہائوسنگ اسکیم کا جائزہ لینا چاہیے۔ مثال کے طور پر ملائیشیا نے بھی ایک ایسے ہی اسکیم کے تحت مکانات تعمیر کیے تھے اور اب وہاں گھروں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ انہیں کوئی خریدنے والا ہی نہیں ہے۔ حکومت کو زیادہ سے زیادہ مکانات تعمیر کرنے چاہئیں اور ان کی قیمت اتنی کم ہونی چاہیے کہ ایک کم آمدنی والا مزدور بھی اسے خرید سکے۔ حکومت کو کم آمدنی والے افراد کو 8سے 10ہزار روپے کی ماہانہ اقساط پر گھر فراہم کرنے چاہئیں اور حکومت کو چاہیے کہ زمین وہ خود فراہم کرے۔
جنگ :موجودہ حکومت نے ایک کروڑ نوکریوں کی فراہمی اور 50لاکھ مکانات کی تعمیر کا وعدہ کیا ہے۔ کیا اس سمت کوئی پیش رفت نظر آ رہی ہے، کیوں کہ اس وقت بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ اس منی بجٹ سے کاروباری طبقہ خوش ہے، لیکن افراطِ زر 4فیصد سے بڑھ کر 7فیصدتک پہنچ چکا ہے اور غریب آدمی پس رہا ہے۔
دارو خان اچکزئی :دراصل حکومت نے پانچ ارب کا جو مالیاتی پیکیج دیا ہے، وہ مکانات تعمیر کرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہمیں اس وقت ایک متفقہ لائحہ عمل کی اشد ضرورت ہے اور بعض اہم معاملات میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں نقطہ نظر اپنانا چاہیے۔ مثال کے طور پر تمام سیاسی جماعتوں نے عسکریت پسندوں کے خلاف یکساں موقف اپنایا تھا اور ان کے خلاف آپریشن پر سیکورٹی فورسز کی حمایت کی تھی۔ اسی طرح غربت اور مہنگائی سے بھی ملک کا ہر فرد متاثر ہو رہا ہے۔ یعنی اگر کوئی کاروباری فرد ہے، تو مہنگائی کی وجہ سے اس کے ملازمین یکسوئی سے کام نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے اس کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، جب کہ غریب افراد کو تو ویسے ہی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مذکورہ پیکیج سے اگر ایک لاکھ مکانات تعمیر نہ ہو سکے، تو 50ہزار تو بن ہی جائیں اور ویسے بھی کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔
جنگ :روپے پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ :سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے امداد ملنے کے باوجود ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے ہیں اور یہ صورت حال رواں مالی سال کے اختتام تک برقرار رہے گی۔ اس کے علاوہ توازنِ ادائیگی بھی درست نہیں، جب کہ غیر ملکی امداد خرچ کرنے کے لیے نہیں، بلکہ زرِ مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے ہے اور اگر ان میں مزید کمی واقع ہوئی،تو روپے کی قدر مزید کم ہو کر ڈالر کے مقابلے میں 200روپے ہو جائے گی۔ مستقبل میں بھی روپے پر دبائو برقرار رہے گا، کیوں کہ برآمدات میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں برآمدات 27ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی، لیکن مجھے ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا اور اگر ہم انہیں 25سے 26ارب ڈالرز تک لے جائیں، تو یہ بھی اچھی کارکردگی شمار ہو گی۔ ماضی میں ہماری برآمدات 19ارب ڈالرز تک پہنچ گئی تھیں۔ مستقبل میں بھی روپے پر دبائو برقرار رہے گا اور اس کا حل صرف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہے، جس کے تین طریقے ہیں۔ ترسیلاتِ زر، برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ۔ ان تینوں کو دیکھتے ہوئے میرا ماننا ہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر اور روپے پر دبائو برقرار رہے گا۔ بنیادی طور پر منی بجٹ اچھا ہے۔ عموماً منی بجٹ میں کاروباری برادری کو نئے ٹیکسز عاید کرنے کی وجہ سے 100سے 150ارب کا ٹیکہ لگایا جاتا تھا، لیکن اس بجٹ میں ایسا نہیں ہوا، جو خوش آیند ہے اور ہم اس پر حکومت کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح معاشی اصلاحات کے پیکیج کے تحت حکومت نے کاروبار کو آسان بنانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ بھی اچھے ہیں، لیکن کافی نہیں۔ یعنی اگر جی آئی ڈی سی کو ختم کرنا تھا، تو سب پر ختم کرنا تھا اور اسی طرح اگر ری فنڈز دینا تھا، تو سب کا دینا تھا۔ اگرچہ یہ اقدامات ناکافی ہیں، لیکن اس کے باوجود مجھے حکومت کی نیت پر کوئی شک نہیں۔
جنگ :مہنگائی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید کم ہو جاتی ہے، جس کا انڈسٹری پر منفی اثر پڑتا ہے، کیوں کہ اس کی بچت کم ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری نہیں ہو پاتی۔ تو مہنگائی کے ان دور رس اثرات کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
زبیر طفیل :اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اس کے اثرات سامنے آ رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب کسی کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ اس کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کا معیارِ زندگی روز بروز گرتا جا رہا ہے۔ حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے اور عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے کوئی منصوبہ بنانا چاہیے۔ دوسری جانب انسدادِ تجاوزات مہم کی وجہ سے بھی ملک بھر بالخصوص کراچی میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کو اس پر بھی سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔ بے روزگاری میں خاتمے کا اہم طریقہ یہ ہے کہ حکومت صنعت کاروں کو زیادہ سے زیادہ مراعات فراہم کرے۔ کوئی بھی نئی صنعت لگنے سے حکومت کو 17فیصد سیلز ٹیکس ملے گا۔ اس لیے حکومت کو صنعت کاروں کو سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ میں دارو خان صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں افغانستان کے ساتھ تجارت کو بڑھانا چاہیے۔ آج سے تین برس قبل پاکستان کی افغانستان کے لیے برآمدات کا حجم 3ارب ڈالرز تھا، جو اب ایک ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ رکاوٹیں افغان حکومت کی ناراضگی کی وجہ سے درپیش ہیں اور حکومت کو انہیں دور کرنا چاہیے۔ پاکستان آیندہ ایک برس میں افغانستان کے ساتھ 2ارب ڈالرز تک تجارت بڑھا سکتا ہے۔
جنگ :منی بجٹ کے نتائج کیا برآمد ہوں گے اور آیندہ کے لیے کیا تجاویز دینا چاہیں گے؟
دارو خان اچکزئی :حکومت کا اصلاحاتی پیکیج دراصل ایک آزمائشی منصوبہ ہے۔ اگر آیندہ چھ ماہ میں یہ کامیاب ہو گیا، تو پھر حکومت اسے اگلے پانچ برس تک وسیع کرے گی۔ حکومت نے خام مال پر عاید ڈیوٹی کم یا صفر کر دی ہے، لیکن اگر اسے پوری انڈسٹری تک پھیلایا جائے، تو اس سے برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ علاوہ ازیں، ہمیں پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا ہوں گے، تاکہ ہم بھارت، افغانستان، ایران اور چین کے علاوہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کریں، کیوں کہ اس کی وجہ سے درآمدات کی صورت میں بھی ہمیں نقصان نہیں ہو گا۔ ابتدا میں حکومت کو ان میں سے چند ممالک کے ساتھ مال کے بدلے مال کی تجارت شروع کرنی چاہیے اور جب معاشی تعلقات استوار ہوں گے، تو پھر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری واقع ہو گی۔