• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق ساحل مکران کے آس پاس 9کھرب مکعب فٹ قدرتی گیس اور بحیرہ عرب کے ساتھ سمندر میں 6ارب بیرل تیل موجود ہے۔ سندھ سے لیکر بلوچستان تک سمندر میں چھپے تیل و گیس کے ان بے پناہ ذخائر کی تصدیق کے بعد ماہرین گزشتہ کئی دہائیوں سے ان کی نشاندہی کے لئے سرگرم عمل ہیں لیکن اسے بدقسمتی کہئے کہ آثار ملنے کے باوجود ماضی میں کئی بار تیل و گیس کی تلاش کا کام شروع کیا گیا لیکن یہ کبھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچا، یہاں تک کہ اربوں روپے کے بجٹ سے وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں ڈرلنگ بھی شروع کردی گئی اور جب کئی ہزار فٹ نیچے تیل کے آثار ملے تو نہ جانے کس مصلحت کے تحت کام روک دیا گیا۔ یہ مقام کراچی سے ڈیڑھ سو کلو میٹر دور ہے، جہاں گیس ملنے کے بھی روشن امکانات موجود ہیں۔ اس منصوبے پر اب دوبارہ کی جانے والی ڈرلنگ کے حوالے سے قوم کو رواں مارچ، اپریل میں خوشخبری کا عندیہ دیا گیا تھا تاہم اس حوالے سے متعلقہ ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ کھدائی کا تخمینہ 5800میٹر لگایا گیا تھا مگر 4900میٹر پر پہنچنے کے بعد ایک بڑا پریشر محسوس ہوا ہے، جس کی وجہ سے مزید کھدائی کی ضرورت پڑ گئی ہے جس سے یہ لاگت 80ملین سے بڑھ کر 100ملین ڈالر ہو گئی ہے تاہم ماہرین اب تک کے کام سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ اس منصوبے کو ماضی کی طرح سرد خانے میں ڈالنے سے اجتناب کیا جانا چاہئے اور یکسوئی کے ساتھ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ بلوچستان میں 1935میں آنے والے زلزلے نے جہاں خوفناک تباہی مچائی وہاں خیر کا ایک پہلو بھی سامنے آیا کہ قدرت نے وجود میں آنے والے تین ایسے جزیروں کی نشاندہی کی جہاں سے میتھین گیس کا اخراج ہو رہا ہے، یہ وہ گیس ہے جو گھروں میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ صورت حال قدرت کی طرف سے ایک دعوت ہے کہ ہم اپنے سمندری ذخائر کو بروئے کار لانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین