آج اتوار ہے۔ آپ یقیناً اپنے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزاریں گے۔ کچھ سیکھیں گے۔ کچھ سکھائیں گے۔
میں یہ سطور اپنے آبائی شہر جھنگ سے لکھ رہا ہوں۔ فیصل آباد ہو آیا ہوں۔ اب اپنے ننھیال اور سسرال سرگودھا جانے کا ارادہ ہے۔
عمر کا پہلا حصّہ بچپن۔ لڑکپن اور جوانی کا کچھ حصّہ جن گلیوں۔ چوباروں۔ منڈیروں۔ پگڈنڈیوں میں گزارا ہو وہاں عمر کے آخری حصّے میں جب جاتے ہیں تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ اپنے ماہ و سال ہی سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ ہجرت کے بعد لاہور۔ گجرات۔ منڈی بہائو الدین ہوتے ہوئے مستقل سکونت جھنگ میں ہی اختیار کی۔ کیا مردم خیز شہر ہے۔ ہر طرف رومان بکھرا ہوا ہے۔ جب چاندنی ریت کے ٹیلوں پر بکھرتی ہے تو شاعری اترنے لگتی ہے۔
’بیٹیاں پھول ہیں‘۔ میرا شاعری کا انتخاب مجھے ان علاقوں میں لے کر آیا ہے۔ جہاں زندگی ٹھہری ہوئی ہے۔ ’موٹر وے‘ کا بہت شہرہ ہے۔ لیکن یہ انسانوں سے بہت دور دور ہے ۔ جہاں بستیاں ہیں۔ قصبے ہیں۔ آبادیاں ہیں۔ وہاں سڑکیں اسی طرح تنگ ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی۔ موٹر وے تو جزیرے ہیں۔ عوام جو اصل ملک ہیں بلکہ ملک کے مالک ہیں۔ وہ وفاق۔ صوبوں اور بلدیات کے درمیان لٹک رہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں سے اختیارات چھین لیے گئے ہیں۔ اس لیے سڑکیں دلدل بن رہی ہیں۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے عین سامنے سڑک کا یہی حال ہے۔ ایک درسگاہ جہاں ڈاکٹر عبدالسلام اور بڑی بڑی شخصیتیں زیر تعلیم رہی ہیں۔ ماضی کو تو چھوڑ یئے جہاں آٹھ نو ہزار طلبہ و طالبات روزانہ علم کی روشنی حاصل کرنے آتے ہیں۔وہاں کا راستہ اتنا دُشوار ۔ کسی ناظم۔ کسی چیئرمین۔ ایم این اے۔ ایم پی اے کو فکر نہیں۔ ان کے اپنے بچے بھی تو یہاں پڑھتے ہوں گے جہاں ہمارا مستقبل پرورش پارہا ہے۔ ہم اس کا خیال نہیں رکھتے۔ یہاں آنے والی بسوں۔ گاڑیوں ۔ موٹر سا ئیکلوں سب سے ٹیکس تو لیتے ہوں گے۔
فیصل آباد میں خوشی ہوئی کہ اب کے جہاز سے سیڑھی سے نہیں اترنا پڑا۔ جدید ترین سہولتیں۔ نیا ایئرپورٹ۔ پاکستان آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے۔ ایسا ایئرپورٹ کم از کم 20سال پہلے ہونا چاہئے تھا۔ یہ عمارت 20سال پہلے کی ضروریات کے مطابق ہے۔ یہاں بھی مستقبل کی ضروریات کا اندازہ نہیں کیا گیا۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ اسلامیات میں پروفیسر ڈاکٹر غلام شمس الرحمن کی قیادت میں انتظامات کیے گئے ہیں۔ دیواروں پر فارسی کے اشعار نقش ہیں۔ طالبات۔ طلبہ۔ بڑی تعداد میں ہیں۔ م پبلشر عابد علی بہت متحرک فعال ہیں۔ میری کتاب کے بارے میں مضامین پڑھے جارہے ہیں۔ میری صلاحیتیں مجھ پر کھل رہی ہیں۔ ڈاکٹر آصف اعوان۔ ڈین ہیں ۔ سوشل سائنسز کے۔ پروفیسر طاہرہ اقبال صدر شعبۂ اُردو بڑی ناول نگار۔ افسانہ نویس ۔ آفتاب احمد سرکاری افسر ہیں اور شاعر بھی۔ ڈاکٹر بشیر احمد قادری ۔ عبدالماجد ندیم۔ ماجد مشتاق صاحب۔عبدالعزیز ملک۔ سب ہی مہربان ہیں۔ ظفر حسین صاحب بہت دل سے نظامت کررہے ہیں۔ یہ ان سب کی کرم فرمائی ہے۔ سب کو گلہ ہے کہ فارسی عربی معدوم ہورہی ہے۔ میری شاعری اور صحافت کے درمیان جو فاصلے ہیں وہ آج کم ہورہے ہیں۔
فیصل آباد میں چائے خانوں کا زور ہے۔ عامر محمود ہمیں نیا اور پرانا فیصل آباد دکھانے کا اہتمام کررہے ہیں۔ ایک چائے خانے میں ہم رکتے ہیں۔ نوجوان نسل بڑی تعداد میں بیٹھی ہے۔ رات گئے تک یہ رونقیں رہتی ہیں۔ حجاب میں ایک خاتون ہمیں چائے کے ساتھ کیا لوازمات لیں گے ، پوچھنے آتی ہے۔ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔ زرعی زمینیں۔ رہائش گاہوں میں کمرشل دفاتر میں بدل رہی ہیں۔ اس زمین کو سلام کہ یہ جب ہم 3کروڑ تھے۔ہماری گندم چاول کپاس کی ضروریات پوری کرتی تھی۔ اب 22کروڑ ہیں۔ پھر بھی ہماری بھوک مٹارہی ہے اگر چہ اس پر بلڈروں کے حملے جاری ہیں۔
یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں بیٹے بیٹیوں کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ لیکن جب معاشرے کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں کھارا پانی اسی طرح نظر آتا ہے ۔ ہر سال فارغ التحصیل طالب علموں کی شکل میں جو میٹھا پانی اس سمندر میں داخل ہوتا ہے وہ بھی کھارا ہوجاتا ہے۔
گورنمنٹ کالج جھنگ میں علم کے پیاسوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ نئے نئے بلاک تعمیر ہوگئے ہیں۔ ہائی گرائونڈ ختم ہوگیا ہے۔ بہت سے شعبے بڑھ گئے ہیں۔ فلسفے جیسے بنیادی علوم کی تحصیل ختم ہوگئی ہے۔ طالب علموں کے لیے کلاس روم نہیں ہیں۔ اس لیے زمین پر چوکڑی مار کر کلاس ہورہی ہے۔ کہاں ہے ایچ ای سی۔ کہاں ہے صوبائی محکمۂ تعلیم۔
کالج کا مرکزی ہال بہت بڑا ہے۔ طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد ہمہ تن گوش ہے۔ یہ ہال ابن خلدون سے موسوم ہے۔ میں جذبات سے مغلوب ہوں۔ اپنی ہی درسگاہ۔ اپنے ہی شہر میں مہمان۔ اک عجب کیفیت ہے۔ ہال کی دیواروں پر سابق طلبہ کی تصویریں آویزاں ہیں۔ مجھے بھی اپنی تصویر ڈاکٹر عبدالسلام۔ نوبل انعام یافتہ ۔ایک اور نوبل انعام یافتہ کھرانا مجید امجد۔ شیر افضل جعفری کے ساتھ نظر آرہی ہے۔ شعبۂ اُردو کے صدر ڈاکٹر عمران ظفر نے یہ محفل سجائی ہے۔ اسٹیج پر ڈاکٹر محسن مگھیانہ ہے جو اُردو ادب کے حوالے سے جھنگ کی پہچان ہیں۔ ڈاکٹر مختار حر دل نشیں نظامت کررہے ہیں۔ میرے بارے میں سینئر افسانہ نگار۔ شاعر۔ حنیف باوا کو کچھ کلمات کہہ رہے ہیں۔ شعیب الرحمن صاحب ۔ بشارت وقار۔ عرفان احمد۔ انیس انصاری۔ مدثر حبیب جامی۔ نے بہت اچھے شعروں کا انتخاب کیا ہے۔ ان سب کا مطالعہ مشاہدہ بہت وسیع ہے۔ مغربی اور مغربی نقادوں کے حوالے سے بہت ہی مختصر مگر جامع اظہار خیال۔قرأت اور نعت بھی دل میں اترنے والی۔ میں 57سال بعد اپنی درسگاہ سے مل رہا ہوں۔ سب کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ کتنی نئی نسلیں آگئی ہیں۔ کتنے نئے جدید علوم۔ یہ کالج پنجاب کی قدیم ترین درسگاہوں میں سے ہے۔ اب سات سال بعد اس کی سوسالہ تقریبات ہوں گی۔ لائل پور۔ سرگودھا اور دوسرے اضلاع سے بھی یہاں نوجوان پڑھنے آتے ہیں۔ جھنگ کے باسی اپنے طور پر نئی جہات تلاش کررہے ہیں۔ بہت سے ریستوران کھل گئے ہیں۔ موبائل فون کی مارکیٹیں۔ 105ایف ایم۔ اور سارے برانڈ آچکے ہیں۔ جھنگ اب سویا ہوا شہر نہیں ہے۔ ہماری قیام گاہ کے قریب سڑک رات بھر جاگتی رہی ہے۔ ٹریفک کا شور تھمتا ہی نہیں ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ یہ سڑکیں کب آرام کرتی ہوں گی۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے گیسٹ ہائوس کے عقب میں سڑک بھی دن رات مصروف رہتی ہے۔ شہری چین کی نیند سوتے ہیں۔ اس وقت بھی سڑکیں جاگ رہی ہوتی ہیں۔
چھوٹے شہروں میں وطن کی فکر اور پاکستان سے محبت بڑے شہروں سے زیادہ ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں بھی۔ اور قناعت بھی۔ بہت ہی پر مغز گفتگو ہوتی ہے۔ حکمرانی کے حوالے سے ادب شاعری ، افسانہ نگاری۔ ان کا مطالعہ ہم سے زیادہ ہے۔ نئی ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ یہی اٹھارہے ہیں۔ ڈاکٹر محسن مگھیانہ ۔ عامر عبداللہ۔ مدثر حبیب جامی نے آن لائن اپنا گروپ بنالیا ہے۔ جس میں صرف پاکستان جنوبی ایشیا کے نہیں امریکہ یورپ کے شہروں سے بھی اہل فکر اور قلم کار شامل ہیں۔ نئے نئے موضوعات پر گفتگو رہتی ہے۔ مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔