سید اطہر حسین نقوی
نوجوان نسل کو نظر انداز کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، دنیا کے ہر قطّے کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار مرکزی رہا ہے۔ بلاشبہ انہی کے دم سے دنیا بھر کی ترقی کا پہیہ رواں دواں ہے، یہ مستقبل کے معمار ہی نہیں، ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ بھی ہیں۔ اس بات کا اندازہ یوں بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ، فورم چاہئے کوئی بھی ہو، کسی بھی موضوع پر جب بھی بات کی جاتی ہے تو وہ نوجوانوں کے عملی کردار کے بغیر نامکمل معلوم ہوتی ہے۔ غور کریں تو اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ نسل نو عہد حاضر کے تمام تقاضوں کی ضروریات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی پر دلچسپی و عبور رکھتی ہے۔ صرف ٹیکنالوجی ہی نہیں بلکہ نوجوان ہر میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی پر ان کی حکم رانی ہو۔ اس قسم کے رجحانات معاشرتی زندگی میں مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر ہم سنجیدگی کے ساتھ نسل نو کی شخصیت کا مکمل طور پر جائزہ لیں تو تقریباً 70 فیصد نوجوان دور حاضر میں خودمختار ہونا چاہتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ کا دائرہ تبدیل ہو رہا ہے، ان کے خیالات اور زندگی گزارنے کے طور طریقوں میں بھی روز بہ روز تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ لیکن آج کا نوجوان چاہتا ہے کہ اس کے معمولات زندگی میں کوئی دخل اندازی نہ کرے، کوئی اس سے باز پرس نہ کرے، اسی لیے ان میں خودپرستی کا عنصر غالب ہوتا جارہا ہے۔ وہ فطرت کے حقیقی فلسفے کو نظرانداز کرکے، اپنی شناخت دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور ہر شعبہ ہاے زندگی میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے تمام اصولوں اور اخلاقیات کو بلائے طاق رکھ دیا۔ وہ کس طرح اپنی اجارہ داری قائم کررہے ہیں ذیل میں مختصر سی ایک جھلک ملا حظہ کریں۔
1۔ والدین کی بےبسی…
انسان اشرف المخلوقات ہے، جب کہ عمر کے لحاظ سے نسل نو کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ بچے والدین کا سرمایہ حیات تصور کئے جاتے ہیں۔ والدین کو اپنی اولاد سے بہت توقعات ہوتی ہیں۔ وہ اپنی بچوں کی ضروریات زندگی کے ساتھ تعلیمی اور دیگر اخراجات کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے اور انہیں پورا کرنے کی خاطر زندگی بھر محنت کرتے ہیں۔ لیکن آج جب یہ ہی بچے جب پڑھ لکھ کر کسی قابل بنتے ہیں تو والدین سے کس طرح پیش آتے ہیں، یہ اک الگ بحث ہے۔ ضد، نافرمانی، فضول خرچی، دوستوں کے ساتھ قیمتی وقت گزارنا، اپنے فیصلوں میں والدین کو شامل نہ کرنا، والدین کی باتوں کو نظرانداز کرنا، تنقید کا نشانہ بنانا، والدین کو احساس کمتری میں مبتلا کرنا اور اکثر نوجوان نسل کے پاس کچھ ایسے مخصوص جملے یا الفاظ والدین کے لئے رہ گئے ہیں جن سے والدین کی بے بسی کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔
٭… ’’آپ پریشان نہ ہو کام ہو جائے گا‘‘۔
٭… ’’ابھی بہت وقت پڑاہے‘‘۔
٭… ’’میرے پیچھے نہ پڑا کریں‘‘۔
٭… ’’ اپنے کام سے کام رکھیں‘‘۔
٭… ’’پریشان کرکے رکھ دیاہے‘‘۔
ایسے الفاظ کہہ کر وہ اپنے رعب اور غصے سے والدین کو دبائو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ مغربی ممالک اس نوعیت کے رجحانات کا شکار عرصہ دراز سے ہیں، اب عزیز وطن کے نوجوان بھی والدین سے اپنی ہر بات منوانا چاہتے ہیں۔اور اس کے لیے ادب و احترام کی حدیں پار کر دیتے ہیں۔
2۔ اساتذہ سے جارحانہ رویہ…
علم کی فضیلت اور اہمیت کو ایک استاد سے بہتر کون جان سکتا ہے اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ علم کی روشنی اپنے شاگردوں کو منتقل کرتا اور انہیں زندگی کے تمام رموز سے آگہی دیتا ہے جو ان کے بہتر مستقبل کے لئے مفید ثابت ہوں۔ اساتذہ نسل نو کو اخلاقیات، محبت و شفقت، عاجزی، احترام، انکساری اور سب سے بڑھ کر انسانیت کا درس دیتے ہیں اور وہ تمام معلومات ان کو فراہم کرتے ہیں جو ایک طالب علم کا حق ہے۔ آج کل نوجوان نسل ان تمام باتوں کا اعتراف تو کرتی ہے، جانتی بھی ہے اور دعوے بھی بہت کرتی ہے۔ لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو وہ اپنی عزت نفس پر قابو نہ رکھتے ہوئے اپنی مرضی کی مالک بن جاتی ہے۔ اپنے ہی ہاتھوں اپنے اساتذہ کی تذلیل کرتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ امتحانات کے زمانے میں اُن (نوجوان نسل) کا رویہ اپنےاساتذہ سے انتہائی ہتک آمیز ہوتا ہے، انہیں دھمکی آمیز خطوط لکھتے اور کالز کرتے ہیں۔ نقل کرنے اور کروانے کے لئے دھمکیاں دی جاتی ہیں، طرح طرح کے الزامات اساتذہ پر لگائے جاتے ہیں اور ایسے دوست و احباب کو منتخب کرتے ہیں جن کے ذریعہ وہ تمام کام باسانی پائے تکمیل تک پہنچا سکیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار دن بہ دن گرتا جارہا ہے اور ہم دیگر اقوام کے مقابلے میں پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔
3۔ محفل میں اخلاقی قدریں…
اگر ہم عالمی تناظر کا جائزہ لیں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ، موجودہ نسل چاہئے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہو، خود کو دور حاضر کا بانی تصور کرتی ہے، انہیں یوں لگتا ہے کہ زمانہ ان ہی کے دم سے ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہورہی ہے کہ وہ ہر چیز پر اپنی صلاحیتوں سے مثبت اور منفی جیسے چاہئے اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ آج آپ کسی بھی محفل میں چلے جائیں، وہاں کے ماحول کا تقابلی جائزہ ماضی میں ہونے والی اسی نوعیت کی محفلوں سے لیں تو اندازہ ہوگا کہ آج کم و بیش ہی تمام محفیلوں کے طور طریقے تبدیل ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کسی محفل میں ہیں اور اچانک ہی ماحول میں تبدیلی محسوس کرنے لگیں، اردگرد کا جائزہ لینے پر آپ کو معلوم ہوگا کہ چند نوجوانوں نے بحث و مباحثہ شروع کردیا ہے اور رفتہ رفتہ مزید ہم خیال نوجوان ان میں شامل ہونے لگے ہیں، ان کی گفت و شنید، حرکات و سکنات سے محفل یا تقریب میں موجود شرکاء میں بے چینی کی لہر پائی جانے لگتی ہے، محفل کا ماحول تبدیل ہونے لگاتا ہے۔ جہاں چند لمحے قبل خاموشی اور سکون تھا وہاں اب گہما گہمی اور گرم ماحول ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے محفل میں پھر ایک طرح کی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب عمر رسیدہ، بزرگ اور دیگر افراد کو اس ماحول میں گھٹن کا احساس ہونے لگتا ہے کیونکہ اس طرح کی تقریبات اور محفلوں میں نسل نو اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ شرکت کرتی ہے اور اکثر اوقات اخلاقی قدروں کو پامال کرتی بھی دکھائی دیتی ہے۔
4۔ دوست، دوست نہ رہے…
دوستی دنیا کا ایک انمول رشتہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سچے دوست بہت کم ہوتے ہیں، یہ رشتہ پیار، محبت، خلوص اور قربانی جیسے حسین جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کو لفظوں کے ترازو میں نہیں تولہ جاسکتا لیکن آج نوجوان نسل کی آپس میں دوستی تو ہے لیکن وہ ان تمام جذبوں سے عاری نظر آتے ہیں جو ماضی کا حصہ ہے کیونکہ موجودہ نسل نو میں آپس میں مقابلے کا رجحان زیادہ ہے اسی وجہ سے دوستی کا محور محدود اور سمٹ کر رہ گیا ہے اگر کوئی دوست مالی طور پر مستحکم ہے اور اس کی زندگی زیادہ پرکشش ہے تو وہ اپنے اہل حلقہ و احباب کے درمیان خود منوانے کی کوشش کرتا ہے، وہ خود کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ تمام دوستوں پر اپنی برتری ثابت کرسکے جس کی وجہ سے غرور و تکبر کا عنصر اس کی ذات پر غالب آجاتا ہےاور وہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنا چاہتا ہے اس طرح دیگر دوستوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں اور اپنی دوستی کو وہ اجارہ داری کے زمرے میں لے آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے دوستوں میں آپس میں احساس کمتری بڑھنے لگتی ہے اور پھر دوستی کا مفہوم سمجھنے والے نوجوان اس دائرے سے باہر نکلنے کو ہی فوقیت دیتےہیں کیونکہ موجودہ دور میں دوستی کے معنی بدلتے جارہے ہیں۔
5- مستقبل کی فکر میں…
انسان اُس کا تعلق کسی بھی رنگ و نسل سے ہو وہ اپنا مستقبل روشن اور تابناک دیکھنا چاہتا ہے۔ اُس کے لئے وہ بچپن سے لے کر جوانی تک مختلف نشیب و فراز سے گزرتا ہے محنت اور جدوجہد کے ذریعہ اپنے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ یہی حال نوجوان نسل کا بھی ہے اُس کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ وہ اپنے مستقبل کے لئے فکر مند ہوتا ہے۔ نوجوان طلبہء ایسے مضامین کا انتخاب کرتے ہیں جو اُن کی عملی زندگی میں مفید ثابت ہوں، اسی طرح محنت کش نوجوانوں کا طبقہ (اَن پڑھ) وہ اپنے اپنے شعبہ جات میں مہارت حاصل کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ تاکہ اپنا معیار زندگی بہتر کر سکیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان نسل ملازمت پیشہ ہو یا کاروباری یا پھر مزدور طبقہ ہو یومیہ اُجرت کماتے ہوں اُن میں بھی اجارہ داری کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ نوجوانوں کے چند گروپ نے تمام شعبۂ ہائے زندگی میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور وہی ان شعبہ جات اور مختلف اداروں یا کاروباری سطح پر منتخب کئے جاتے ہیں جو اُن کے نظریئے کو آگے لے کر چل سکیں انہیں ایسے نظریاتی نوجوان کی طلب ہوتی ہے جو اُن کو مطلوبہ نتائج دے سکیں، جس کی وجہ سے نوجوان نسل کی مستقبل کی خواہشوں پر بھی ان کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے نئے آنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ بھی وقت کے ہاتھوں اور معاشی استحصالی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کر کے اُن کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ اور افرا تفری کے ماحول میں نسل نو کو چاہئے کہ وہ علم کو محض اعلیٰ ڈگریوں تک محدود نہ کرے، بلکہ باشعور، روشن خیال بن کر سوچے، علم کی اہمیت کو سمجھے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے، بزرگوں کی دُعاؤں کے سائے میں آگے بڑھے اور ایسا کچھ کرے، جس میں انسانیت کا فلسفہ سب سے پہلے ہو، بعدازاں دیگر شعبہ جات سمیت معاشرتی مسائل کا خاتمہ بھی مل جل کر کریں اور اُن گروہ اور مافیا سسٹم کو ختم کریں جس نے ہمارے ملک کی جڑیں کھو کھلی کر دی ہیں۔ آزاد معاشرے کے آزاد شہری کی طرح ہر نوجوان اپنے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچائے اور اپنی قوم کے لئے اک مثال بن جائے۔