میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
موجودہ حکومت کے آنے کے بعد جی ڈی پی کی شرحِ نمو 6سے کم ہو کر 3فیصد ہو گئی، ہمارے پورے دورِ حکومت میں افراطِ زر کی شرح 4.8فیصد رسہی، جو نومبر میں 6.5فیصدہو گئی، شرحِ سود 6.5فیصد سے بڑھ کر 10فیصد ہو گئی،رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں گزشتہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے مقابلے میں زیادہ تجارتی خسارہ ہوا،
حکومت نے ان چھ ماہ کے دوران ریکارڈ قرضے لیے، ٹیکس سے ہونے والی آمدنی میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے، حالانکہ روپے کی قدر میں کمی کے بعد ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہونا چاہیے تھا،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے سے برآمدات کی مد میں سالانہ 3ارب ڈالرز کی بچت ہوگی،غیر ملکی امداداور تیل کی قیمت کم ہونے سے حکومت کو 14ارب ڈالرز مل گئے ،روپے کی قدر کم کرنے سے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی، نومبر میں برآمدات میں چھ فیصد کمی واقع ہوئی،معیشت درست ہونے میں ڈیڑھ برس لگیں گے،پی آئی اے کی فی الفور نجکاری کرنی چاہیے،ہم حمایت کریں گے
مفتاح اسمٰعیل
روپے کی قدر میں 28فیصد تک کمی کے باوجود پچھلے برس کے مقابلے میں ہماری برآمدات میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوا اور درآمدات میں بھی کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوئی، برآمدات میں اضافے کے لیے پیداواری لاگت میں کمی اور برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی،
حکومت کو جلد از جلد آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے، اس سے روپے کی قدر میں پائی جانے والی بے یقینی ختم ہو گی، منی بجٹ کا مقصد172ارب کے شارٹ فال کو پورا کرنا ہے، کاروباری برادری کی تجاویزمنی بجٹ میںشامل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، اس سے زیادہ ابتری نہیں آئے گی اور اب حالات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے، 50لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہے، پاکستان اسٹیل ملز کو فروخت کرنے کے بجائے لیز پر دیا جا سکتا ہے، نئی مشینری آنے سے پیداواری سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی
عارف حبیب
گزشتہ پانچ ماہ کے دوران معیشت کی نمو سست ہوئی ہے،غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو رہی ہے،ایک کروڑملازمتوں اور 50لاکھ گھروں کے منصوبے میںکوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی، افراطِ زر، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ اور جی ڈی پی میں کمی واقع ہورہی ہے،
حکومت کی جانب سے اپنے وعدوں کی تکمیل کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گی،عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت گم نہ ہوتی، تو حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا، عمران خان اپنی ذاتی شخصیت کی بناء پر سعودی عرب، چین اور یو اے ای سے فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے،حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر کم و بیش عمل کر چکی ہے، دو سے چار ہفتوں کے دوران آئی ایم ایف سے رجوع کرے گی،حکومت کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرے،منی بجٹ سے متوسط اور نچلا متوسط طبقہ متاثر ہو گا
زبیر طفیل
پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملکی معیشت میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں؟ اس میں بہتری واقع ہوئی یا یہ مزید ابتری کا شکار ہوئی؟ 2019ء میں معیشت کی کیا صورتحال ہو گی؟ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کیا ہے؟ ایک اور منی بجٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور پاکستان کے معاشی اشاریے کن حالات کی نشاندہی کر رہے ہیں؟ ان سمیت دیگر سوالات کے جوابات جاننے کے لیے گزشتہ دنوں دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائیرایجوکیشن، کراچی میں ’’بیمار معیشت کا علاج کیسے؟‘‘کے عنوان سے جنگ فورم منعقد کیا گیا ۔ فورم کے شرکاء میں سابق وفاقی وزیرِ خزانہ اور معروف صنعت کار، ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل، ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر، زبیر طفیل اور عارف حبیب گروپ کے چیئرمین، عارف حبیب شامل تھے۔ اس موقع پرماہرینِ معیشت نے حاضرین کے سوالات کے جواب بھی دیے۔فورم میں ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
جنگ :عوام اور بزنس کمیونٹی کےنقطۂ نظر سے معیشت کی کیا صورتحال ہے؟
زبیر طفیل:پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے قبل متعدد بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ اب اس کی حکومت کو پانچ مہینے ہو چکے ہیں۔ حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ نہ صرف ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کرے گی، بلکہ 50ہزار نئے گھر بھی تعمیر کرے گی، لیکن ابھی تک اس سمت میں کوئی پیش رفت تک دکھائی نہیں دیتی۔ علاوہ ازیں، افراطِ زر، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور جی ڈی پی کم ہو رہی ہے۔ ان صورتحال کے پیشِ نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اپنے وعدوں کی تکمیل کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گی، لیکن اس کے ساتھ ہی اچھی بات یہ ہے کہ کم و بیش 22کروڑ کی آبادی کا حامل پاکستان ایک بڑی منڈی ہے اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں کمی بھی واقع ہوئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔ حکومت کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں مزید 7ماہ انتظار کرنا ہو گا۔ البتہ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران معیشت کی نمو سست ہوئی ہے۔ ماضی کی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری ملک میں نہیں آ رہی، بلکہ غیر ملکی سرمایہ دار دستبردار ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے حکومت اپنی تمام تر توانائیاں اپوزیشن کے خلاف صَرف کر رہی ہے، حالانکہ اسے ملکی معیشت پر توجہ دینی چاہیے۔ تاہم، اس عرصے میں حکومت نے بعض اچھے اقدامات بھی کیے۔ مثال کے طور پر وزیرِ اعظم عمران خان اپنی ذاتی شخصیت کی بناء پر سعودی عرب، چین اور یو اے ای سے فنڈز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ ہم ان فنڈز کو خرچ نہیں کر سکتے اور ان کے ذریعے ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھا جائے گا، مگر اس سے حکومت پر موجود دبائو میں کمی واقع ہو گی۔ علاوہ ازیں، حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا آپشن بھی ہے، کیونکہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر کم و بیش عمل کر چکی ہے۔ یعنی آئی ایم ایف روپے کی قدر میں جتنی کمی چاہتی تھی، اتنی کر دی گئی ہے۔ نیز، بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی مطلوبہ حد تک بڑھا دی گئی ہیں۔ اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا اور برآمدات کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
جنگ :برسرِ اقتدار آنے سے قبل بزنس کمیونٹی کی پی ٹی آئی سے کافی توقعات وابستہ ہیں۔ کیا وہ توقعات پوری ہوئیں؟
زبیر طفیل :دراصل، بزنس کمیونٹی دو حصوں میں منقسم تھی۔ ایک طبقہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور دوسرا پی ٹی آئی کی حمایت کرتا تھا۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی حامی بزنس کمیونٹی کی توقعات بھی پوری نہیں ہوئیں، لیکن فی الوقت اس بارے میں حتمی طور پر کوئی رائے نہیں دی جا سکتی۔
جنگ:کیا گزشتہ پانچ ماہ کے دوران سرمایہ کاروں کی مشکلات میں اضافہ ہوا؟
زبیر طفیل :یہ کہا جا سکتا ہے کہ معاشی نمو سست ہوئی۔ اس کے علاوہ شرحِ سود میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا۔ تاہم، حال ہی میں عدالتِ عظمیٰ نے کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر عاید پابندی ہٹا دی ہے، جس کے سبب تعمیراتی شعبے کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور اس سے جڑی باقی 40صنعتیں بھی چلنے لگیں گی۔
جنگ :عام انتخابات تک معاشی صورتحال بہتر تھی، لیکن نئی حکومت قائم ہونے کے بعد آخر ایسا کیا ہوا کہ معیشت ابتری کا شکار ہو گئی؟ نیز، اس صورتحال کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
عارف حبیب :ایک عام آدمی روزگار اور مہنگائی میں کمی چاہتا ہے اور اس کا تعلق تیز رفتار معاشی نمو سے ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان نے جب بھی آئی ایم ایف سے پیکیج لیا، تو اس کی معیشت میں بہتری واقع ہوئی اور جیسے ہی ہم آئی ایم ایف پروگرام سے نکلتے ہیں، تو ہماری معیشت زوال کا شکار ہونے لگتی ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت کے دوران بجلی کی لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی کے واقعات اور مالی خسارے میں کمی واقع ہوئی۔ نیز، روپے کی قدر بھی مستحکم رہی، جس سے معیشت کو فائدہ پہنچا، مگر موجودہ حکومت نے ڈالر کی کمی پوری کرنے کے لیے یہ جواز پیش کرتے ہوئے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں روپے کی قدر مصنوعی طور پر مستحکم رکھی گئی، روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی کر دی۔
جنگ :حکومت نے روپے کی قدر میں کمی کیوں کی؟
عارف حبیب:کہا یہی جاتا ہے کہ اس سے برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی واقع ہو گی، لیکن روپے کی قدر میں28فیصد تک کمی کے باوجود پچھلے برس کے مقابلے میں ہماری برآمدات میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوا، درآمدات میں بھی کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہیں ہوئی اور ترسیلاتِ زر پر بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ پچھلی تین دہائیوں کی معاشی صورتحال کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے ہماری برآمدات پر کوئی خاص اضافہ نہیں پڑا۔ یعنی ہمارے ہاں ان دونوں کا براہِ راست تعلق نہیں بنتا۔ مثال کے طور پر شوکت عزیز کے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ڈالر 60روپے کا ہونے کے باوجود ہماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ برآمدات میں اضافے کے لیے ہمیں پیداواری لاگت میں کمی کرنی ہوگی اور برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ اس وقت ہمارا جاری خسارہ قابو میں نہیں، جس کی وجہ سے لوگ معیشت پر اعتماد نہیں کر رہے، لیکن جیسے ہی اس میں کمی واقع ہو گی، تو لوگوں کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ اس وقت دیگر ممالک کا پاکستان سے تعاون کرنا بہت اچھا اقدام ہے اور اس ضمن میں آئی ایم ایف کا پیکیج سب سے اہم ہے۔ حکومت کو جلد از جلد آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے۔ اس سے روپے کی قدر میں پائی جانے والی بے یقینی ختم ہو گی۔
جنگ :ایک اور منی بجٹ کیوں لایا جا رہا ہے؟
عارف حبیب :اس کا مقصد 172ارب کے شارٹ فال کو پورا کرنا ہے۔
جنگ: منی بجٹ میں کیا اعلانات متوقع ہیں؟
عارف حبیب :حکومت ماضی میں ختم کیے گئے ٹیکسز کو بحال کرے گی، جس سے اس کی آمدنی بڑھے گی، لیکن اس کا مستحکم طریقہ یہ ہے کہ ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے اور اسی سے معیشت کو فروغ ملے گا۔
جنگ :حکومت کو ایک اور منی بجٹ پیش کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :میں سب سے پہلے کچھ اعداد و شمار پیش کرنا چاہوں گا۔ پچھلے برس ہماری جی ڈی پی کی شرحِ نمو 5.8فیصد تھی اور بجٹ پیش کرتے ہوئے ہم نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ رواں برس جی ڈی پی کی شرحِ نمو 6.25فیصد ہوگی۔ یعنی ہم اپنی معیشت میں 18سے20ارب ڈالرز مزید شامل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے وفد کا بھی یہ ماننا تھا کہ پاکستان کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو6.0تک پہنچنے کی توقع ہے۔ ایک وقت تھا کہ اس خطے میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرحِ نمو سب سے زیادہ تھی، لیکن اپنی ناقص حکمتِ عملی کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کسی مخصوص سیاسی جماعت کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے بھی شدید نقصان پہنچا۔ تاہم، موجودہ حکومت کے آنے کے بعد جی ڈی پی کی شرحِ نمو 6سے کم ہو کر 3فیصد ہو گئی۔ اسی طرح ہمارے پورے دورِ حکومت کے دوران افراطِ زر کی شرح 4.8فیصد رہی، جو نومبر تک 6.5فیصد ہو گیا۔ علاوہ ازیں، شرحِ سود 6.5فیصد سے بڑھ کر 10فیصد ہو گئی۔ ہماری حکومت پر الزام عاید کیا جاتا ہے کہ ہم نے قرضوں اور خسارے میں بہت زیادہ اضافہ کیا، جبکہ رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں گزشتہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے مقابلے میں زیادہ خسارہ ہوا۔ اسی طرح حکومت نے ان چھ ماہ کے دوران ریکارڈ قرضے لیے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی حکومت اخراجات میں کمی کے دعوے کرتی ہے، لیکن اس کے دور میں اخراجات میں اضافہ ہوا۔ شرحِ سود بڑھنے سے حکومت کے اخراجات میں 400ارب کا اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ پچھلے منی بجٹ میں حکومت نے ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں اضافہ کر دیا اور میں نے تنخواہ دار طبقے پر جو ٹیکسز ختم کیے تھے، انہیں بھی بحال کر دیا۔ میرے اس فیصلے پر تنقید کی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس تنخواہ دار طبقہ ہی دیتا ہے۔ اس سے ہمیں 80سے 90ارب ڈالرز کی کمی ہوئی تھی، جس کا ازالہ ہم نے پیٹرولیم لیوی عاید کرنے سے کیا۔ اس کے علاوہ ٹیکس سے ہونے والی آمدنی میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے، حالانکہ روپے کی قدر میں کمی کے بعد ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ البتہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے سے حکومت کو تیل کی برآمدات کی مد میں سالانہ 3ارب ڈالرز کی بچت ہوگی۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے سعودی عرب سے3فیصد کی شرحِ سود پر 3ارب ڈالرز، چین سے 8فیصد پر 2ارب ڈالرز اور یو اے ای سے 3سے 3.25فیصد کی شرح پر 3ارب ڈالرز قرض لیا گیا ہے۔ تیل کی بچت کو ملا کر حکومت کو 14ارب ڈالرز مل گئے ، جو اس سال حکومت کی ضرورت تھی۔ اگر حکومت نا تجربہ کاری کا مظاہرہ نہ کرے، تو اس وقت حکومت کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ جب ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا، تو وزیرِ اطلاعات تک نے اس بارے میں بیان دیا، حالانکہ ہمارے دورِ حکومت میں معاشی معاملات پر صرف وزیرِ خزانہ ہی بات کیا کرتا تھا۔ اسی طرح ٹیکس کے معاملات پر بھی بڑھ چڑھ کر باتیں کی جاتی ہیں۔ وزراء کو کم بولنا چاہیے۔ روپے کی قدر کم کرنے سے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی، کیونکہ نقصان کے پیشِ نظر لوگوں نے یہ رقم نکلوا لی۔ گزشتہ برس جب میں آئی ایم ایف سے مذاکرات میں مصروف تھا، تو ان کا کہنا تھا کہ ڈالر 125روپے کا ہونا چاہیے، لیکن میرا ارادہ دسمبر 2018ء تک 115پر رکھنے کا تھا۔ حکومت کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی کے باوجود برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ اگرچہ گزشتہ پانچ ماہ میں برآمدات میں ایک فیصد اضافہ ہوا، لیکن نومبر میں برآمدات میں چھ فیصد کمی واقع ہوئی۔ ہماری حکومت نے تو ری فنڈز بھی ادا کیے تھے، لیکن اس حکومت سے تو ایکسپورٹرز ری فنڈز بھی نہیں مانگ رہے کہ کہیں یہ نئے ٹیکسز نہ عاید کر دے۔ حکومت نے نا تجربہ کاری کے علاوہ حد سے زیادہ خود اعتمادی سے بھی کام لیا اور ماہرینِ معیشت اور کاروباری شخصیات سے مشورہ لینے تک کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ منی لانڈرنگ روک کر ملک میں 10ارب ڈالرز لا سکتی ہے۔ پتہ نہیں وہ کون سی منی لانڈرنگ تھی۔
جنگ:کیا حکومت بزنس کمیونٹی سے تجاویز نہیں لے رہی؟
عارف حبیب :پاکستان اسٹاک ایکسچینج، پاکستان بزنس کائونسل اور ایف پی سی سی آئی جیسے پلیٹ فارم موجود ہیں۔ مفتاح اسمٰعیل صاحب نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کچھ تجاویز عملدرآمد کیا تھا اور جن پر عملدرآمد ہونا باقی تھا، ان پر وزیرِ خزانہ اور وزیرِ اعظم نے پی ایس ایکس کے دورے کے موقعے پر عملدرآمد کی یقین دہانی کروائی اور اگلے منی بجٹ میں یہ تجاویز بھی شامل ہوں گی۔ اسی طرح پاکستان بزنس کائونسل کی بیشتر تجاویز پر منی بجٹ میں اور باقی ماندہ پر اگلے بجٹ میں شامل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے زیادہ ابتری نہیں آئے گی اور میں امید کرتا ہوں کہ اب حالات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔
جنگ:کیا منی بجٹ کے حوالے سے ایف پی سی سی آئی کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے؟
زبیر طفیل :اسٹاک ایکسچینج کے بعد موجودہ حکومت کا زیادہ رابطہ پاکستان بزنس کائونسل سے تھا۔ تاہم، حکومت نے ایف پی سی سی آئی سے بھی رابطہ کیا۔ میں عارف حبیب صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ معیشت میں اس سے زیادہ ابتری نہیں آئے گی اور اب یہ بہتری کی جانب گامزن ہو گی۔ حکومت کی نا تجربہ کاری اور لا ابالی پن کی وجہ سے بھی اس پر دبائو آ گیا تھا۔ موجودہ حکومت کی خوش قسمتی یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کافی حد تک کم ہو گئی ہے اور اس سے دبائو میں کمی واقع ہو گی۔ تاہم، حکومت کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کرے، جن میں مفتاح اسمٰعیل صاحب بھی شامل ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دورِ حکومت میں تمام تر صورتحال کو نہایت قریب سے دیکھا ۔ اس کے علاوہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت دو سے چار ہفتوں کے دوران آئی ایم ایف سے رجوع کرے گی۔ اگر اس نے جنوری میں رجوع نہیں کیا، تو فروری میں ضرور کرے گی۔ اس وقت حکومت کو 170ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے اور منی بجٹ کے ذریعے اس نے 200ارب حاصل کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ تاہم، اس منی بجٹ سے کم آمدنی والا طبقہ متاثر نہیں ہو گا، البتہ متوسط اور لوئر مڈل کلاس پر اثر پڑے گا۔
جنگ:کیا ٹیکس نیٹ بڑھانے سے مراد یہ تو نہیں کہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید بوجھ بڑھا دیا جائے؟
زبیر طفیل:حکومت کا ماننا ہے کہ ٹیکس نیٹ بڑھانا ضروری ہے، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت کو ٹیکس نہ دینے والے مالدار افراد کو گرفت میں لینا چاہیے۔
عارف حبیب :بد قسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت میں ملک کا مفاد فراموش کر دیتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی برسرِ اقتدار آتے ہی سابقہ حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے ملکی معیشت کو ضرورت سے زیادہ ابتر بنا کر پیش کیا، جس سے بیرونِ ملک پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔ دنیا کے ہر ملک کو ہی چیلنجز درپیش ہوتے ہیں، جن کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں اسحٰق ڈار صاحب نے بھی یہ غلطی کی تھی اور اس حکومت نے ابتدا میں یہ غلطی دہرائی، لیکن اسے جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ میں یہاں ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جب اسٹاک ایکسچینج میں چیئرمین تبدیل ہوتا تھا، تو سابقہ چیئرمین نئے چیئرمین کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا کرتا تھا۔ مگر نیا وزیرِ خزانہ اپنے سابق ہم منصب سے بات تک کرنا گوارا نہیں کرتا۔ اسد عمر صاحب مفتاح اسمٰعیل صاحب کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے، کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں اور ہمیں قومی سوچ کو پروان چڑھانا چاہیے، اگر ایسا ہو گا، تو ان شاء اللہ جلد اچھے دن آئیں گے۔
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :ایسا نہیں ہے کہ اس ملک میں سارے ہی غلط کام ہو رہے ہیں۔ یہاں بہتری بھی آ رہی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کی آبادی کم و بیش 22 کروڑ ہے، جس میں 55فیصد افراد 25برس سے کم عمر ہیں اور یہ افرادی قوت کا حصہ بننے والے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں قدرت نے بیش بہا وسائل سے نوازا ہے، جن سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، حالات میں بہتری ضرور آئے گی۔ تاہم، میں نہیں سمجھتا کہ ہماری معیشت مزید مشکلات کا شکار نہیں ہو گی، بلکہ ابھی اسے درست ہونے میں ڈیڑھ برس لگیں گے۔
محمد اویس:آپ پانچ سال حکومت میں رہے۔ اس دوران آپ نے پی آئی اے کو خسارے سے نکال کر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے کیا کردار ادا کیا؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایئر لائن یا پیٹرول پمپ وغیرہ چلانا حکومت کا کام نہیں۔ ہم پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتے تھے، لیکن اسی دوران ہڑتال ہوئی، جس میں دو افراد جاں بحق ہو گئے، جس کی وجہ سے یہ معاملہ رک گیا۔ پی آئی اے 45ارب روپے کا نقصان کر رہی ہے، جو اس کے ملازمین کی تنخواہوں سے بھی دگنا ہے۔ ہمیں اس ادارے کی فی الفور نجکاری کرنی چاہیے۔ ہم اس کی نجکاری کر رہے تھے، لیکن تب پی پی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے رکاوٹیں کھڑی کر کے اپنی سیاست چمکانا شروع کر دی۔ اگر موجودہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کرے گی، تو ہم اس کی حمایت کریں گے۔ نجکاری سے روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور حکومت پر اربوں روپے کا بوجھ کم ہو جائے گا۔
ڈاکٹر عتیق :تھرکول اور سی پیک جیسے منصوبے کس قدر مفید ثابت ہوں گے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :تھر کول منصوبے میں 180ارب ٹن کوئلہ ہے، جس کی مالیت9ٹریلین ڈالرز ہے۔ ابتدا میں اس کوئلہ سے جو بجلی بنے گی، وہ ہمیں کافی مہنگی پڑے گا، لیکن جب بجلی کی مقدار میں اضافہ ہوگا، تو اس کی قیمت خود بہ خود کم ہوتی جائے گی۔ یاد رہے کہ ہم تھر کول سے ایک سو سال تک ایک لاکھ میگا واٹ تک بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب سولر اور ونڈ انرجی کی قیمت میں کافی کمی آ گئی ہے اور ان سے پیدا ہونے والی بجلی کول انرجی سے سستی پڑتی ہے، نیز یہ ماحول کو بھی نقصان نہیں پہنچاتی، تو حکومت کو دیگر متبادل پر بھی غور کرنا ہو گا۔
ڈاکٹر فہیم الدین:کیا پاکستان کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوں میں کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :رجحانات یہی بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت ترقی کرے گی، چاہے اس کے حکمرانوں کی استعداد ہو یا نہ ہو۔ پاکستانی معیشت کی ترقی کے امکانات روشن ہیں، جبکہ اگلی دو سے تین دہائیوں میں پاکستان کا شمار دنیا کی سرِ فہرست معیشتوں میں ہو گا۔
محمد فاروق:کیا موجودہ حکومت اپنے وعدوں کی تکمیل میں کامیاب ہو جائے گی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :اس وقت کراچی اور لاہور میں اتنے پکے مکانات نہیں ، جتنے موجودہ حکومت نے بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ یعنی حکومت نے اس وقت کراچی اور لاہور میں موجود مکانات سے زیادہ مکانات تعمیر کرنے ہیں۔
عارف حبیب :یہ ممکن ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ پانچ سال ہی میں 50لاکھ تعمیر ہو جائیں گے، البتہ کم از کم اس سفر کا آغاز ہو جائے گا۔ چونکہ میرا تعلق رئیل اسٹیٹ سے ہے اور ہم نیا ناظم آباد تعمیر کر رہے ہیں، تو میں حکومت کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے زمین کی نشاندہی کرے اور اس کے بعد اس کی ڈیولپمنٹ کرے۔ البتہ اس سلسلے میں ریونیو ڈیپارٹمنٹ اور ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن بہت ہے اور یہ تاخیری حربے استعمال کرتا ہے، لیکن جب حکومت خود ہی منصوبہ شروع کرے گی، تو یہ محکمہ بھی جلد از جلد کام نمٹائے گا۔ اسی طرح روڈ، سیوریج، پانی اور بجلی کا انفرااسٹرکچر بھی جلد ہی تعمیر ہو جائے گا۔ پھر اگر ڈیولپرز کو ترغیبات دی جائیں، تو وہ مساجد، میدان، پارک اور اسپتال بھی بنا سکتے ہیں اور یوں گھروں کی قیمت کئی گنا بڑھ جائے گی۔
جنگ:کیا شرحِ منافع بڑھنے سے یہ اسکیم متاثر نہیں ہو گی؟
عارف حبیب :جی بالکل، اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ تاہم، جس طرح حکومت ایکسپورٹرز کو سبسڈی دیتی ہے، تو اسی طرح اس معاملے میں بھی سبسڈی دینی چاہیے۔
صدام :اس وقت ہماری برآمدات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس کے ہماری معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور ہماری برآمدات کا مستقبل کیسا ہو گا؟
عارف حبیب :اس سوال کا جواب ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل صاحب بہتر انداز میں دے سکتے ہیں۔ البتہ میں تھرکول منصوبے کے بارے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بلاک ٹو کی پیداوار شروع ہو گئی ہے اور جلد ہی پاور پلانٹ بھی شروع ہو جائے گا۔ اس بلاک کے چار مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے پر 68ڈالرز کی لاگت آ رہی ہے اور اگر چاروں فیززفعال ہو جائیں، تو لاگت کم ہو کر 37ڈالرز ہو جائے گی۔ اس سے پاکستان کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا کہ یہ اس کا مقامی ایندھن ہو گا اور اسے فیول درآمد نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تھر اور ریکوڈیک ہمارے لیے گیم چینجر منصوبے ثابت ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :بد قسمتی سے روپے کی قدر میں کمی کے باوجود گزشتہ پانچ ماہ میں برآمدات میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوا، لیکن میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ میں گزشتہ دورِ حکومت میں ایس ایس جی سی کا چیئرمین رہا، تو ہم نے کراچی میں گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں کی، لیکن اس مرتبہ یہاں گیس کی لوڈشیڈنگ ہوئی، جس کی وجہ سے صنعتیں بند ہو گئیں۔ یاد رہے کہ اگر اس طرح صنعتکاروں کا نقصان ہوتا ہے، تو حکومت کو بھی ٹیکس کی مد میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حکومت نے ایل این جی لینا بند کر دی تھی، جبکہ ہم موسمِ سرما میں ایل این جی کو لوکل اور موسمِ گرما میں لوکل کو ایل این جی کے طور پر فروخت کرتے تھے۔ پھر اس وقت حکومت گیس کے بجائے فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کو ترجیح دی رہی ہے، جو میرے لیے ناقابلِ فہم ہے۔
کوکب:گزشتہ حکومت نے سائنس اینڈ ڈیولپمنٹ کے لیے کیا کردار ادا کیا اور موجودہ حکومت کیا کرے گی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :ہماری حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کے فنڈ میں تین گنا اضافہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ہماری حکومت نے ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر ہم مصنوعی ذہانت اور آئی ٹی سمیت دیگر سائنسی شعبوں کے لیے ادارے قائم کر رہے تھے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں لوگ سائنس و ٹیکنالوجی سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہیں۔ میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اعلیٰ تعلیم بالخصوص سائنسی تعلیم کے لیے بجٹ میں اضافہ کرے۔
مبشرہ :خسارے میں کیسے کمی واقع ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل: اگر بجٹ خسارے کی بات کی جائے، تو اس پر قابو پانے کے دو طریقے ہیں۔ اخراجات میں کمی یا ٹیکسز میں اضافہ۔ پچھلی مرتبہ این ایف سی ایوارڈ کی وجہ سے ہماری اچھی خاصی رقم ضائع ہو گئی تھی۔ حکومت کو ٹیکسز میں اضافے کے بہ جائے این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی لانی چاہیے اور اخراجات کم کرنے چاہئیں۔
عارف حبیب :ہم اپنی جی ڈی پی میں اضافے سے بھی اپنی آمدنی بڑھا سکتے ہیں۔ یعنی جتنی جی ڈی پی بڑھے گی، ٹیکسز سے ہونے والی آمدنی میں بھی اتنا ہی اضافہ ہو گا اور یوں ہمارے وسائل بڑھیں گے۔
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :ہمیں درآمدات پر ٹیکسز بڑھا کر آمدنی حاصل کرنے کے بجائے اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا چاہیے اور اسی کے ساتھ ہی حکومت کو اپنے اخراجات بھی کم کرنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں سی پیک اور روپے کی قدر میں کمی مددگار ثابت ہو گی، مگر اس کے نتائج سامنے آنے میں چند برس لگیں گے۔
یاسر: ڈیمز کے لیے جمع کی جانے والی رقم سے معیشت کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :یہ رقم بینک میں جمع ہوتی ہے اور اس سے بینک اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ فی الوقت ڈیم فنڈ میں سات سے آٹھ ارب روپے جمع ہوئے ہیں، جبکہ پاکستان کی معیشت کا حجم 3400ارب روپے ہے۔ لہٰذا، اس رقم کا معیشت کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
محمد عمران: کیاکراچی میں جاری انسدادِ تجاوزات مہم سے کاروباری سرگرمیاں سست پڑنے سے حکومت کو ملنے والی ٹیکس میں کمی واقع نہیں ہو گی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :دنیا بھر میں بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں تجاوزات کے خلاف آپریشن ہوتے ہیں، لیکن انسدادِ تجاوزات کا یہ طریقۂ کار غلط ہے۔ حکومت کو پہلے تاجروں کو متبادل فراہم کرنا چاہیے تھا اور انہیں اس طرح بے روزگار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس قسم کی مارکیٹس عوام کے لیے نہایت فائدہ مند ہیں اور ان کے انہدام سے اشیا ء کی قیمتیں بڑھ جائے گی۔ سندھ حکومت عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
جنگ:مگر یہ سب تو عدالت کے احکامات کی تعمیل میں ہو رہا ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل:کیا سندھ حکومت عدالت کے باقی احکامات بھی تسلیم کر رہی ہے۔
احمد ذکی: کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولت کی عدم فراہمی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں، لیکن عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :بد قسمتی سے سندھ پر پی پی کی حکومت رہی ہے اور کراچی سے ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے یہ اس شہر پر توجہ نہیں دیتی ، جو ناقابلِ فہم ہے۔ لاہور اور پشاور سمیت ملک کے جتنے بھی شہروں میں نئی بس سروسز شروع ہوئیں، وہ صوبائی حکومت کے فنڈز سے شروع ہوئیں۔ کراچی میں بھی سندھ حکومت کو بس سروس شروع کرنی چاہیے تھی، لیکن ایسا نہ کرنے پر میں اور مشاہداللہ خان صاحب کراچی کے لیے گرین لائن بس کا منصوبہ لے کر آئے۔ اس وقت گرومندر سے سرجانی ٹائون تک پوری لائن بن چکی ہے، لیکن سندھ حکومت کو صرف بسیں لے کر آنی ہیں اور وہ بھی نہیں لا رہی۔
جنگ :لیکن یہ لائن ابھی مکمل نہیں ہوئی؟
ڈاکٹر مفتاح اسمٰعیل :سرجانی ٹائون سے گرومندر تک بہت بڑا فاصلہ ہے۔ یہاں تک تو بسیں چلانی چاہئیں۔
جنگ:کیا ایف بی آر میں اصلاحات کی ضرورت ہے؟
زبیر طفیل :جی ہاں۔ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ ایف بی آر کی غلطیوں کی وجہ سے نہ صرف عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ ایک اندازے کے مطابق 500ارب روپے کا ٹیکس بھی چوری ہو جاتا ہے۔ اگر یہ رقم حکومت کو ملتی، تو عوام کی حالت میں تبدیلی واقع ہوتی۔ موجودہ حکومت نے ایک اچھا کام یہ کیا ہے کہ 15برس سے ایک ہی جگہ بیٹھے افراد کا تبادلہ کردیا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں ایف بی آر میں مزید بہتری واقع ہو گی اور اگر ایسا ہوا، تو عوام کا ایک بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا اور انہیں ریلیف ملے گا۔
جنگ :سرکاری اداروں کے خسارے کے بارے میں کیا کہیں گے؟
زبیر طفیل :ان اداروں کی وجہ سے عوام پر بوجھ پڑ رہا ہے، لیکن اگر حکومت ہزاروں ملازمین کو تنخواہ دینا بند کر دے گی، تو اس سے انسانی بنیادوں پر مسائل پیدا ہوںگے۔ لہٰذا، حکومت کو پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کر دینی چاہیے۔ دوسری جانب سیاستدان اس پر سیاست چمکا رہے ہیں۔ پی پی کا کہنا ہے کہ نجکاری کے لیے ہماری لاش پر سے گزرنا ہو گا۔ تاہم، اگر حکومت ان اداروں کی نجکاری کر دیتی ہے، تو پیداوار شروع ہونے کی صورت میں اسے سیلز ٹیکس کی صورت میں آمدنی بھی ہونے لگے گی۔
جنگ:حکومت 1200روپے کے گردشی قرضے کیسے ادا کرے گی؟
عارف حبیب :حکومت اپنے بجٹ کو متوازن رکھنے کے لیے ادائیگیوں میں تاخیر کرتی ہے اور کمپنیوں کو حکومتی ضمانت پر قرضے لینے کا کہا جاتا ہے۔ دیگر ایئر لائنز کے مقابلے میں پی آئی اے کی ہیومین ریسورس پر آنے والی لاگت کم ہے۔ البتہ اس وقت Legacy Loanسب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یعنی انہوں نے پرانے خسارے پورے کرنے کے لیے حکومت کی ضمانت پر قرضے حاصل کر رکھے ہیں۔ پی آئی اے کا سال ہی 20سے 22ارب کے خسارے سے شروع ہوتا ہے اور پھر اس میں دوسرے خسارے بھی شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اب جہاں تک پاکستان اسٹیل ملز کی بات ہے، تو اسے فروخت کرنے کے بجائے لیز پر دیا جا سکتا ہے۔ یوں اثاثے بیچنے کی نوبت بھی نہیں آئے گی اور نئی مشینری آنے سے پیداواری سرگرمیاں بھی شروع ہو جائیں گی۔