میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی سے ہمیں 35ارب ڈالرز تجارتی خسارے کا سامنا ہے، روپے کی قدر کم ہونے سے افراطِ زر 3فیصد سے بڑھ کر 7فیصد ہو گیا اور اس میں مزید اضافہ ہو گا، لینڈنگ ریٹ بڑھنے سے صنعت کاری کو بریک لگ گئی، اس وقت حکومت کو گھمبیر صورت حال کا سامنا ہے، برآمدات بڑھانے کے لیے آئی ٹی اور سیاحت جیسے شعبوں پر توجہ دینی ہو گی اور نئی منڈیاں تلاش کرنا ہوں گی، کپاس کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
جب تک پیداواری لاگت میں کمی نہیں آئے گی، برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا،
ہم سالانہ 400ارب ڈالرز کی برآمدات کی استعداد رکھتے ہیں، موجودہ حکومت برآمدات میں اضافے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے ، اگر یہ بارآور ثابت ہوئیں، توہم آئندہ 10برس میں اپنی برآمدات300ارب ڈالرز تک پہنچا سکتے ہیں،روپے کی قدر کم کرنے سے درآمد شدہ خام مال مہنگا ہو گیا، برآمدات کا شعبہ وفاقی حکومت کی زیرِ نگرانی ہونا چاہیے، حکومت کو نئی صنعتوں کے لیے مفت زمین اور مشینری کی خریداری میں سہولت فراہم کرنی چاہیے
محمد جاوید بلوانی
زیرویٹڈانڈسٹریز میں شامل ہونے کے باوجودلیدر انڈسٹری کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے،
پالیسی میں نقائص کی وجہ سےتجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے،برآمدات میں اضافے کے لیے کاٹیج انڈسٹری کو سہولتیں دینی ہوں گی، بینکوں کو نچلے کاروباری طبقے کو سیکورٹی کے بغیر قرضہ فراہم کرنا چاہیے، بھارت کا جی ایس پی اسٹیٹس ختم ہونے سے پاکستان کو لوز بال ملی ہے، ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، نوجوان صرف ضمانت پر نیشنل بینک آف پاکستان سے5لاکھ روپے تک قرضہ حاصل کر سکتےہیں، صرف کمائو پوت انڈسٹری کو سبسڈی دینی چاہیے
سید شجاعت علی
برآمدات کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ان میں کمی کی وجہ سے ہمارا تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بچانے کے لیے برآمدات میں اضافہ ضروری ہے۔ 2013ء میں ہماری برآمدات 25ارب ڈالرز تک پہنچ گئی تھیں، لیکن پھر ان میں بہ تدریج کمی ہوتی گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ 19ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں۔ تاہم، اب ایک مرتبہ پھر برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ برآمدات میں اضافے کے لیے ہم نے روپے کی قدر میں بھی خاصی کمی کی۔ اس کمی سے برآمدات پر کیا اثرات مرتب ہوئے، اس وقت ہماری برآمدات کا حجم کتنا ہے، برآمد کنندگان کو کیا مسائل درپیش ہیں، ہم غیر روایتی اشیا برآمد کیوں نہیں کر پا رہے، ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں کمی کیوں واقع ہوئی، پانچ اہم برآمداتی شعبوں کو زیرو ریٹڈ کرنے سے ہماری برآمدات میں کتنا اضافہ ہوا، جی ایس پی کے کیا اثرات مرتب ہوئے، اس وقت ہمارا مقابلہ کن ممالک سے ہے اور بنگلا دیش کی برآمدات ہم سے زیادہ کیوں ہیں۔ ان سمیت دوسرے سوالات کے جواب جاننے کے لیے گزشتہ دنوں انڈس یونی ورسٹی، کلفٹن کیمپس میں ’’پاکستانی برآمدات میں اضافے کی پالیسی‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر اور معروف معاشی ماہر، ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ، سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے چیئرمین، محمد جاوید بلوانی اور پاکستان لیدر گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین، سید شجاعت علی نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی بات چیت ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ :اس وقت پاکستان کے برآمداتی شعبے کو کیا مسائل درپیش ہیں اور انہیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟
سید شجاعت علی :لیدر گارمنٹس پانچ زیرو ریٹڈ انڈسٹریز میں شامل ایسی انڈسٹری ہے کہ جسے ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس وقت 24ارب ڈالرز کی برآمدات میں ٹیکسٹائل مصنوعات کا حصہ 14ارب ڈالرز ہے اور اس کے بعد دوسری بڑی برآمدات چمڑے کی مصنوعات کی ہیں، جن کا حجم محض 1.5ارب ڈالرز ہے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے، لیکن اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ چمڑے کی مصنوعات کی دنیا میں مانگ نہیں ہے، بلکہ اس وقت چمڑے کی مصنوعات کی مارکیٹ کا حجم 92ارب ڈالرز ہے۔ ہمیں زیرو ریٹڈ سیکٹرز سمیت دیگر شعبوں میں اپنی مسابقت کرنے والوں کی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ہم ملائیشیا کو دیکھیں، تو اس کی برآمدات کا حجم 250ارب ڈالرز ہے، جبکہ اس کی آبادی کم و بیش 6کروڑ ہے اور اس کی درآمدات کا حجم 167ارب ڈالرز ہے۔ انڈونیشیا کی برآمدات کا حجم 164ارب ڈالرز اور درآمدات کا 137ارب ڈالرز ہے۔ ترکی کی برآمدات کا حجم 156ڈالرز اور درآمدات کا 180ارب ڈالرز ہے۔ تھائی لینڈ کی آبادی 6.5کروڑ ہے اور اس کی برآمدات کا حجم 237ارب ڈالرز اور درآمدات کا حجم 188ارب ڈالرز ہے۔ ان چار ممالک میں سے صرف ترکی کی درآمدات، برآمدات کے مقابلے میں زیادہ ہیں، جبکہ باقی تینوں ممالک کی برآمدات زیادہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تینوں ممالک کو تجارتی خسارے کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے، تو 2017۔18ء میں ہماری کل برآمدات 23ارب ڈالرز تھیں۔ اس کے مقابلے میں دستاویزی درآمدات کا حجم 49ارب ڈالرز ہے، جبکہ حقیقی حجم 58ارب ڈالرز ہے اور اس اعتبار سے ہمیں 35ارب ڈالرز تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہماری آبادی 23کروڑ ہے اور ہماری برآمدات کا حجم صرف 23کروڑ ہے۔ یقیناً ہماری پالیسی میں ایسے نقائص پائے جاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے ہماری برآمدات میں اضافہ نہیں ہو پا رہا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کسی بھی ملک کو اپنی برآمدات کو بڑھانا ہے، تو اس حوالے سے کاٹیج انڈسٹری بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر تھائی لینڈ کی 70سے 72فی صد انڈسٹری کاٹیج انڈسٹری پر مشتمل ہے۔ وہاں ایک کمرے کے برابر صنعتیں قائم ہیں، جن کی سالانہ ایک لاکھ سے دو لاکھ ڈالرز کی برآمدات ہوتی ہیں۔ تھائی لینڈ میں کاروباری شعبہ خاصا مضبوط ہے اور وہاں نئے نئے کاروباری افراد سامنے آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں نئے انٹرپرینیورز سامنے آہی نہیں رہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا صنعت کار اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، تو اس کا جواب نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں ہر سال 2.5لاکھ ایم بی اے فارغ التحصیل ہوتے ہیں، کیا ہم انہیں ملازمتیں فراہم کر رہے ہیں اور کیا حکومت ان کے لیے کوئی پالیسی بنا رہی ہے۔ بد قسمتی سے اس کا جواب بھی نہیں ہے۔
جنگ :برآمدات کے اعتبار سے بنگلا دیش ہم سے آگے نکل گیا، تو ہم اپنی برآمدات کیوں نہیں بڑھا پا رہے؟
سید شجاعت علی :دراصل، ہماری پالیسی نہایت کمزور ہے۔ مثلاً ہمارے بینک صرف ان صنعت کاروں کو قرضہ فراہم کرتے ہیں کہ جن کے پاس پہلے ہی سے سرمایہ موجود ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی بی بی اے یا ایم بی اے کرنے والا متوسط یا نچلے متوسط طبقے کا نوجوان اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے، تو وہ سرمائے کا بندوبست کہاں سے کرے۔ بینکنگ سیکٹر کی اس پالیسی کی وجہ سے بڑی بڑی کمپنیز تو ترقی کر رہی ہیں، لیکن ایک نیا انٹرپرینیور ترقی نہیں کر پا رہا۔ تاہم، حال ہی میں اسٹیٹ بینک نے قرضے کی ایک نئی اسکیم متعارف کروائی ہے، جسے ایس ایم ای لون کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک اچھی اسکیم ہے، لیکن اس میں بھی ایک خامی ہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ وہ لڑکوں کو 6فیصد اور لڑکیوں کو 5فیصد شرحِ سو پر قرضہ فراہم کرے گا اور قرضے کی حد 3کروڑ روپے تک ہے، لیکن اس میں بھی سیکورٹی کی شرط عاید کی گئی ہے۔
جنگ: کیا دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں؟
سید شجاعت علی :میں یہاں نوبیل انعام یافتہ بنگلا دیش کے ڈاکٹر یونس کی مثال پیش کرنا چاہوں گا، جنہوں نے نئے کاروباری افراد کو سرمایہ فراہم کیا اور آج وہاں صنعتیں ترقی کر رہی ہیں۔ ہمیں نچلے کاروباری طبقے کو سرمایہ فراہم کرنا چاہیے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے طلبہ یا نیا کاروبار شروع کرنے والے افراد کو یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ کاروبار شروع کرنے سے پہلے انہیں TDAPسے رابطہ کرنا چاہیے۔ وہاں کاروبار شروع کرنے کے خواہش مند افراد کے لیے ایک باقاعدہ ڈیسک قائم ہے۔ میں نے بھی آج سے 30برس قبل اسی ادارے کی معاونت سے اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔
جنگ :آپ ایک طویل عرصے سے تجارتی پالیسی میں پائے جانے والے نقائص کی نشان دہی کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
محمد جاوید بلوانی: 1950ء کی دہائی میں پاکستان میں بجلی سب سے سستی تھی، لیکن اب یہ بے تحاشا مہنگی ہو چکی ہے۔ ایوب خان کے دور میں ہائیڈل پاور پر زور دیا جاتا تھا، لیکن اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے تھرمل پاور کو اپنا لیا۔ اس کے پس پردہ طاقتور لابیز موجود تھیں اور ان کی وجہ سے ہم سستی ترین بجلی سے مہنگی ترین بجلی پر آ گئے۔ جب ہمارے ملک میں گیس دریافت ہوئی، تو دنیا کے بڑے بڑے ماہرین کا کہنا تھا کہ اسے صرف صنعتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، لیکن پھر صرف سیاسی مقاصد کے تحت اسے گھروں میں استعمال کیا جانے لگا۔آج گیس کے شعبےکے لائن لاسز 55ارب سالانہ ہیں۔ اس وقت گیس کا زیاں ہو رہا ہے۔ جب تک پیداواری لاگت میں کمی نہیں آئے گی، برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا۔ البتہ موجودہ حکومت نے ہمارا دیرینہ مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے برآمداتی سیکٹر کا بجلی اور گیس کا ٹیرف الگ کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے پانچ زیرو ریٹڈ انڈسٹریز کو عام صنعتوں سے علیحدہ کر دیا ہے، لیکن اس کے اثرات ابھی سامنے نہیں آئے۔ ہم اپنی بندرگاہوں سے سالانہ 400ارب ڈالرز کی مصنوعات برآمد کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور پیداواری لاگت میں کمی اشد ضروری ہے۔ موجودہ حکومت کوششیں کر رہی ہے، اگر یہ بار آورثابت ہوئیں، تو آیندہ 10برس میں ہماری برآمدات 300ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی۔
جنگ :حکومت نے برآمد کنندگان کے کہنے پر روپے کی قدر میں بھی کافی کمی کی، لیکن اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا؟
محمد جاوید بلوانی :تمام ایکسپورٹرز اس فیصلے کے حق میں نہیں اور ان میں میں بھی شامل ہوں۔ دراصل، ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات میں استعمال ہونے والا خام مال درآمد ہوتا ہے اور روپے کی قدر کم ہونے سے یہ مہنگا ہو جاتا ہے۔ پھر خریدار بھی ڈسکائونٹ مانگتا ہے، حالانکہ قدر کم ہونے سے ایکسپورٹر کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
جنگ :اگر موجودہ حکومت پانچ سال پورے کر جاتی ہے، تو ہماری برآمدات کو کتنا فائدہ ہو گا؟
محمد جاوید بلوانی :اس وقت پاکستان میں آرڈرز تو بہت زیادہ آ رہے ہیں، لیکن ان میں اسپل اوور آرڈرز زیادہ ہیں، جبکہ ہمیں حقیقی آرڈرز کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت معیشت کی بہتری کے لیے سنجیدہ ہے اور مثبت اقدامات کر رہی ہے، لیکن جب تک پیداواری لاگت کم نہیں کی جاتی، برآمدات میں اضافہ نہیں ہو گا۔ نیز، برآمدات کا شعبہ وفاقی حکومت کے زیرِ نگرانی ہونا چاہیے اور اس میں صوبائی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ صوبائی حکومت اور ایف بی آر کو برآمدات سے کوئی سروکار نہیں، انہیں صرف اپنی آمدنی سے غرض ہے۔ یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
جنگ :اگلے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں شروع ہو چکی ہوں گی۔ آپ نے برآمدات میں اضافے کے حوالے سے حکومت کو کیا تجاویز دی ہیں؟
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ :حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ زرِ مبادلہ کے ذخائر کا کم ہونا اور تجارتی خسارے کا بڑھنا تھا۔ اس وقت ہمیں کم و بیش 35ارب ڈالرز کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے، جو بہت بڑا خسارہ ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے سے روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں افراطِ زر 3فیصد سے بڑھ کر 7فیصد ہو گیا اور اب یہ دہرے ہندسے کی طرف جا رہا ہے۔ اگر افراطِ زر دہرے ہندسے پر پہنچ گیا، تو مہگانی میں بے تحاشا اضافہ ہو گا، جو حکومت کے لیے بھی ناقابلِ برداشت ہو گا۔ لہٰذا، اسٹیٹ بینک نے ڈسکائونٹ یا پالیسی ریٹ میں اضافہ کر دیا اور اس سے بینک کے لینڈنگ ریٹ بڑھ گئے۔ لینڈنگ ریٹ بڑھنے سے مارکیٹ میں روپیہ کم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے صنعت کاری رک گئی اور نئی ملازمتوں کے مواقع ختم ہو گئے اور اس صورت حال پر قابو پانے میں حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ روپے کی قدر میں 30فیصد کمی سے بیرونی قرضوں کا بوجھ بھی بڑھ گیا۔ اس وقت حکومت کو گھمبیر صورت حال کا سامنا ہے۔ اگرچہ یہ معاملات درست کرنے کی کوششیں کر رہی ہے، لیکن اگر ایک معاملہ درست کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو دوسرا بگڑ جاتا ہے۔ دراصل، ہماری برآمدات کا دائرہ بہت مختصر ہے اور ہم نے اسے بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ تمام روایتی مصنوعات ہیں اور ہمیں غیر روایتی مصنوعات پر توجہ دینی چاہیے، جن میں آئی ٹی اور سیاحت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں، ہم نے افریقا اور شمالی کوریا وغیرہ میں نئی منڈیاں بھی تلاش نہیں کیں، حالاں کہ ہمیں اپنا دائرہ وسیع کرنا چاہیے تھا۔ ہم ’’ٹین کنٹریز، ٹین پروڈکٹس سینڈروم‘‘ میں مبتلا ہیں۔ پھر ہم نے برآمدات کو آمدنی کا ذریعہ بنا لیا، حالاں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ برآمدات کے شعبے کو ہمیشہ مستحکم رکھا جاتا ہے۔ اس پر کم سے کم ٹیکسز عاید کیے جاتے ہیں، پیداواری لاگت کم کی جاتی ہے اور سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، جب کہ ہماری حکومت نے گزشتہ 3.5برس سے ایکسپورٹرز کا 400ارب روپے کا ری فنڈ روک رکھا ہے۔ یہ کسی بھی ایکسپورٹر کا ورکنگ کیپیٹل ہوتا ہے اور اگر یہ پھنس جائے، تو پھر صنعت کار بینک سے قرضہ لیتا ہے اور اس پر سود ادا کرتا ہے، جس سے اس کی پیداواری لاگت مزید بڑھ جاتی ہے اور وہ اپنی صنعتی و معاشی سرگرمیوں کو سکیڑ لیتا ہے۔ ری فنڈز نہ ملنے سے 90فیصد صنعت کاروں نے اپنی سرگرمیاں کم کر لیں کہ رقم ملے گی، تو وہ اپنا کام بڑھائیں گے۔ حکومت نے ہمارے کہنے پر 80ارب روپے جاری کیے ہیں، لیکن یہ Discount Promissory Bondsہیں، جن پر بینک تین برس میں 40فیصد کٹوتی کرے گا۔ یعنی ایک تو حکومت ساڑھے تین برس بعد ری فنڈز دے رہی ہے اور وہ بھی پورے کی بہ جائے 60فیصد۔ یہ تمام حل دیرپا نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز بھی عاید کیے گئے ہیں۔ اس وقت ایکسپورٹس پر ود ہولڈنگ ٹیکس، ایڈوانسڈ ٹیکس اور ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ سرچارج عاید ہے، حالانکہ یہ تو گناہ ہے، کیونکہ برآمدات پر0.1فیصد بھی ٹیکس عاید نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تمام ان ڈائریکٹ ٹیکسز کل ملا کر 5سے6فیصد بنتے ہیں۔ یعنی حکومت اس ایکسپورٹ سے بھی آمدنی حاصل کر رہی ہے۔ پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ویلیو ایڈیشن نہیں کی۔ 1990ء کی دہائی میں ہم غریب کسان سے 30فیصد سستی کاٹن خریدتے تھے اور اس سے بننے والا دھاگہ برآمد کرتے تھے، لیکن اب ہمیں انٹرنیشنل پرائس پر کاٹن مل رہی ہے اور سستا خام مال نہیں مل رہا۔ اس کی وجہ سے بھی برآمدات پر فرق پڑا ہے۔ ہماری کاٹن کی پیداوار 15ملین بیلز سے کم ہو کر 11ملین بیلز رہ گئی ہے اور 4ملین بیلز بھارت سے درآمد کی جا رہی تھی، لیکن کشیدگی کی وجہ سے آرڈر منسوخ ہونے کے بعد اب دوسرے ممالک سے کاٹن درآمد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کو کپاس کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے، تاکہ ہماری اپنی ضرورت تو پوری ہو سکے۔ ہمارے ملک میں کپاس کی پیداوار کم ہوئی ہے، جبکہ بھارت میں گزشتہ پانچ برس میں کپاس کی پیداوار 18ملین بیلز سے بڑھ کر 36ملین بیلز تک پہنچ چکی ہے۔ یعنی وہاں کاٹن کی پیداوار دگنی ہو گئی ہے۔
سید شجاعت علی :ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمیں نئی منڈیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ میں یہاں کرکٹ کی ایک اصطلاح کا سہارا لوں گا۔ جب کسی بلے باز کو لوز بال ملتی ہے، تو وہ اس پر چھکا لگانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اگلی بال پر رنز بنانے کا موقع نہ ملے یا وہ آئوٹ ہو جائے، تو اس وقت ہمیں بھی لوز بال ملی ہے۔ وہ لوز بال یہ ہے کہ امریکا نے بھارت کا جی ایس پی اسٹیٹس ختم کر دیا ہے۔ امریکا اور بھارت کے درمیان 74.6ارب ڈالرز کی باہمی تجارت ہوتی تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اسٹیٹس ختم کیوں کیا گیا۔ عام طور پر لوگ ٹرمپ کو احمق سمجھتے ہیں، لیکن ایک کاروباری ہونے کے ناتے وہ خاصا ذہین آدمی ہے۔ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد اپنے تھنک ٹینک سے سوال کیا کہ معاہدے میں لکھا ہے کہ بھارت ہمیں مارکیٹ تک رسائی دے گا اور ہم اسے مارکیٹ تک رسائی دیں گے، تو اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں، تو انہیں بتایا گیا کہ بھارت، امریکا کو 49ارب ڈالرز کی برآمدات کرتا ہے اور ہم اسے 26ارب ڈالرز کی ایکسپورٹس کرتے ہیں۔ اس پر ٹرمپ نے کہا کہ جب ہمیں اس قدر تجارتی خسارہ ہو رہا ہے، تو ہم کیوں بھارت کو یہ اسٹیٹس دے رہے ہیں۔ ہمارے اور امریکا کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 6ارب ڈالرز ہے، جس میں ہم امریکا کو 2.4ارب ڈالرز کی برآمدات کرتے ہیں اور وہ ہم سے3.6ارب ڈالرز کی برآمدات کرتا ہے۔ یعنی اس سے امریکا کو فائدہ ہو رہا ہے۔ بھارت کا جی ایس پی اسٹیٹس ختم ہونے کی صورت میں ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمیں ایک لوز بال ملی ہے۔ ہمارے لیے 5.6ارب ڈالرز کی برآمدات کی کھڑکی کھلی ہے، جس میں ٹیکسٹائل و چمڑے کی مصنوعات اور تازہ پھل اور سی فوڈ وغیرہ شامل ہیں۔
جنگ :اس کے لیے کیا کرنا ہو گا؟
سید شجاعت علی :اس کے لیے ہمیں بھی بھارت کی طرح لابنگ کرنی ہو گی۔ یاد رہے کہ بھارت کا تھنک ٹینک بہت مضبوط ہے اور وہ اس حوالے سے بہت زیادہ تحقیق کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکا میں پاکستانی سفیر، ڈاکٹر اسد مجید نے دو سینیٹرز سے ملاقات کی ہے، جن کا براہِ راست تجارت سے تعلق ہے۔ ہمیں امریکا کو یہ بتانا چاہیے کہ باہمی تجارت میں وہ ہم سے فائدہ حاصل کرتا رہا ہے اور بھارت کا جی ایس پی اسٹیٹس ختم ہونے کے بعد وہ ہمیں فائدہ دے۔
کومل :ہمارے ملک میں کپاس کی پیداوار کم کیوں ہو گئی ہے؟
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ :ہمارے ہاں نئے بیج دریافت نہیں کیے جا رہے ۔ ہم ابھی تک کئی دہائیوں پرانے بیج ہی استعمال کر رہے ہیں، حالانکہ اب ایک بی ٹی کاٹن نامی نیا بیج دریافت ہوا ہے، جس کی وجہ سے بھارت کی کپاس کی فصل دگنی ہو گئی ہے۔ جب میں وزیر اعظم کا مشیر تھا، تو ہم نے ایک کمپنی سے نئے بیجوں کے لیے بات کی تھی، لیکن پیش رفت ہونے سے قبل ہی ہماری حکومت کی مدت ختم ہو گئی۔ زیادہ پیداوار والے بیج استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ہماری فی ایکڑ پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے۔ پھر اس وقت تمام با اثر سیاست دانوں کی شوگر ملز ہیں اور یہ کپاس والی زمین پر گنا کاشت کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ صرف کپاس کی پیداوار کم ہو گئی ہے، بلکہ پانی بھی زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ پھر گنے سے پیدا ہونے والی شکر کو سبسڈی لے کر برآمد کیا جا رہا ہے، جس سے مقامی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ یہ عمل بھی ہمارے قومی مفادات کے منافی ہے۔
احسان :کیا ایس ایم ایز اور نئے انٹرپرینیورز کو سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے حکومت سے بھی درخواست کی جاتی ہے؟
سید شجاعت علی :ہم سرکاری حکام سے ہونے والی ہر میٹنگ میں یہ نکتہ اٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قانون بھی بنایا گیا تھا کہ جب بھی بیرونِ ملک پاکستانی مصنوعات کی نمائش ہو گی، تو اس میں 20فیصد نئے افراد کو لے جایا جائے گا، لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر حکومت نئے کاروباری افراد کو سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے، تو بیورو کریسی آڑے آ جاتی ہے۔ میں اور ہماری ایسوسی ایشن ہمیشہ نئے انٹرپرینیورز کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اگر بیرونِ ملک کہیں نمائش ہوتی ہے، تو ہم نئے کاروباری افراد کو آگے آنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف لیدر ٹیکنالوجی بھی نئے صنعت کاروں کو اپنی برآمدات بڑھانے کی تربیت دیتا ہے۔
اویس :ہم سی پیک منصوبے میں چین اور چینی مصنوعات کو زیادہ تقویت فراہم کر رہے ہیں، تو کیا اس سے مقامی مصنوعات اور صنعت کاروں کی حوصلہ شکنی نہیں ہو گی؟
سید شجاعت علی :سی پیک جیسے بڑے منصوبے کا ایس ایم ایز سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ تاہم، یہ سوال درست ہے کہ اگر چین اپنی مصنوعات پاکستان لائے گا، ہماری مقامی صنعتوں کا کیا بنے گا۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنی درآمدات پر قابو پا کر ہی ترقی کی۔ میں نے حال ہی میں پاکستان کے 20بڑے ایکسپورٹرز کے ساتھ ترکی کا دورہ کیا، تو انہوں نے بڑی مشکل سے ہمیں اپنی مصنوعات کی نمائش کی اجازت دی۔ روپے کی قدر گرنے کے باوجود چمڑے کی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہماری بنائی گئی جیکٹ میں چمڑے کے علاوہ باقی ہر شے درآمد شدہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ہماری پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور ہم مسابقت نہیں کر پاتے۔ ہمیں اپنی مقامی مصنوعات اور صنعتوں کو استحکام دینا ہو گا۔ اس وقت پاکستان میں چینی مصنوعات کا غلبہ ہے اور بعض وجوہ کی بنا پر ہم اس کی مخالفت نہیں کر سکتے، لیکن ہم کم از کم اپنی انڈسٹری کو تو اپ گریڈ کر سکتے ہیں۔ پھر چینی مصنوعات پاکستانی مصنوعات کے مقابلے میں سستی بھی ہیں۔ یہ فری مارکیٹ کا دور ہے اور ڈبلیو ٹی او کے دستخطی ہونے کے ناتے ہم کسی ملک کی مصنوعات پر پابندی عاید نہیں کر سکتے، البتہ اس پر ڈیوٹی عاید کر سکتے ہیں۔ سو، ہمیں پیداواری لاگت کم کر کے اپنی مقامی صنعتوں کا مضبوط کرنا ہو گا۔
جویریہ :حکومت طلبہ سے یہ توقع کرتی ہے کہ وہ مستقبل میں ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے، لیکن انہیں کوئی سہولت فراہم کرنے پر آمادہ نہیں، تو کیا پھر یہی بہتر نہیں کہ وہ بیرونِ ملک چلے جائیں؟
محمد جاوید بلوانی :بیرونِ ملک خدمات انجام دینے والے بیش تر پاکستانی کامیاب ہیں اور وہ اپنے ملک واپس آنا چاہتے ہیں۔ اگر پاکستان میں مکمل طور پر امن و امان قائم ہو جائے اور یہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے، تو وہ بھی یہاں واپس آ جائیں گے۔ پھر جب یہ کامیاب افراد آئیں گے، تو ان کی صلاحیتوں کی بہ دولت ترقی کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔ اس وقت پاکستان کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے اور اگر ہم صرف سندھ ہی میں چند بیراج تعمیر کر دیں، تو یہاں زرعی پیداوار تین گنا بڑھ جائے۔ چین میں دنیا کا سب سے بڑا ڈیم واقع ہے اور وہ امریکا نے تعمیر کیا۔ اس وقت حکومت کے پاس ہی پیسہ نہیں ہے اور جب پیسہ ہو گا، تو وہ آپ کو دے گی۔ ہمارے گردشی قرضے ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، تو حکومت کسی اور کو قرضہ کیسے فراہم کرے۔
جنگ :سرکاری بینک تو قرضے فراہم کر سکتا ہے؟
محمد جاوید بلوانی :سرکاری بینک بھی نہیں دے سکتا، کیونکہ حکومت اسٹیٹ بینک سے بے تحاشا قرضہ لے چکی ہے۔ حکومت نہ صرف سرکاری بینک بلکہ نجی بینکوں سے بھی قرضے لے رہی ہے۔
سید شجاعت علی :یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت مدد نہیں کرتی۔ حکومت نیشنل بینک آف پاکستان کو رقم فراہم کرتی ہے، لیکن وہ آپ تک نہیں پہنچ پاتی۔ اس مقصد کے لیے ہر بجٹ ہی میں ایک فنڈ مختص کیا جاتا ہے۔ آپ منسٹری آف یوتھ افیئرز آف پاکستان کی ویب سائٹ پر جائیں۔ اس وزارت کا قلمدان عثمان ڈار کے پاس ہے اور وہ نچلے طبقے سے اوپر آئے ہیں۔ وہ جب بھی مجھ سے ملتے ہیں، تو یہی کہتے ہیں کہ میرے پاس فنڈز بہت ہے، لیکن کوئی لینے ہی نہیں آتا۔
جنگ :کیا طلبہ کو کسی سیکورٹی کے بغیر قرضہ مل سکتا ہے؟
سید شجاعت علی :جی بالکل۔ صرف صمانت پر نیشنل بینک آف پاکستان سے 5لاکھ روپے تک قرضہ مل سکتا ہے۔ ہمیں عوام میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہ نور: لیکن سرکاری اداروں میں کرپشن بھی تو بہت ہے؟
سید شجاعت علی :یہ شعبہ وفاقی حکومت کے پاس ہے اور آپ ایک مرتبہ کوشش تو کر کے دیکھیں۔
ابرار :ہمارے ہاں اچھا فرنیچر تیار کرنے والے ہنر مند موجود ہیں، تو ہم انہیں مواقع کیوں نہیں فراہم کرتے، تاکہ ہماری برآمدات میں اضافہ ہو؟
محمد جاوید بلوانی :ماضی میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے غیر ملکی پاکستان آنے سے گھبراتے تھے، لیکن امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے کے بعد اب بیرون ملک سے بھی لوگ یہاں آنا شروع ہو گئے ہیں اور پھر اب حکومت نے ویزے کی فراہمی میں بھی سہولتیں فراہم کرنا شروع کر دی ہیں، جس سے فائدہ ہو گا۔پاکستان میں بہت عمدہ فرنیچر تیار ہوتا ہے اور ایکسپو میں اس کی نمائش بھی ہوتی ہے، لیکن بد قسمتی سے اسے دیکھنے کے لیے کوئی غیر ملکی موجود نہیں ہوتا۔ یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ غیر ملکیوں کو پاکستان کی جانب راغب کرے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ ہمیں اس وقت نمائش منعقد کرنی چاہیے کہ جب ہمارے آس پاس کے ممالک میں نمائشیں منعقد ہو رہی ہوں، تاکہ سیاح یہاں سے ہوتے ہوئے واپس جائیں۔ پھر اس کے ساتھ ہی ہمیں ٹور ازم کو بھی فروغ دینا ہو گا۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ اگر کوئی نمائش منعقد ہوتی ہے، تو ہوٹلوں میں کمرے نہیں ملتے، مگر جب غیر ملکی سیاح آنا شروع ہوں گے، تو ہوٹلز بھی بن جائیں گے۔
حنا قادر :ہماری حکومت سبسڈیز دیتی ہے اور آئی ایم ایف ان پر پابندی لگا دیتی ہے، تو کیا سبسڈیز دینا بہتر ہے یا نہ دینا بہتر ہے؟
سید شجاعت علی :یہ بہت اہم سوال ہے اور ہر صنعت کار اس کا جواب دینے سے گریزکرتا ہے، کیونکہ وہ سبسڈیز کے حق میں ہوتا ہے اور حکومت اس کی مخالفت کرتی ہے۔ مثال کے طور پر سابق وزیر اعظم، شوکت عزیز نے سبسڈی صفر کر دی تھی۔ تاہم، ہمیں سبسڈی کی صحیح تعریف کرنی چاہیے۔ میں یہاں ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اگر میں اپنے بچے کو معیاری طرزِ زندگی فراہم کر رہا ہوں، تو میں اس سے ایک اچھا طالب علم ہونے کی توقع رکھوں گا۔ اسی طرح اگر ایک انڈسٹری کمائو پوت ہے، تو اسے سبسڈی دینی چاہیے، لیکن اگر کوئی انڈسٹری نقصان پہنچا رہی ہے، تو اسے سبسڈی نہیں دینی چاہیے۔ یاد رہے کہ ڈومیسٹک انڈسٹری کو سبسڈی دینے کے بہ جائے ایکسپورٹ انڈسٹری کو سبسڈی دینی چاہیے اور ایسی سبسڈی دینی چاہیے کہ جس سے حکومت کو نقصان نہ پہنچے۔ یعنی اس سے حکومت غریب نہ ہو، بلکہ امیر ہو۔ اسی طرح بعض افراد قرضہ لے کر معاف کروا لیتے ہیں اور یہ بھی ایک قسم کی سبسڈی ہوتی ہے، کیونکہ یہ قرضہ ڈوب جاتا ہے۔
محمد سفیان قادری :ہمارے صنعت کار اپنی مصنوعات برآمد کیوں کرتے ہیں؟ اگر وہ اپنی مارکیٹ کے لیے اشیا تیار کریں، توہمیں گارمنٹس درآمد ہی نہ کرنا پڑیں۔
محمد جاوید بلوانی :دراصل، ہماری مارکیٹ بہت چھوٹی ہے۔ ٹیکسٹائل مصنوعات ہمارے ملک میں سب سے زیادہ تیار ہوتی ہیں اور بہت سارے ممالک نے ٹیکسٹائل ہی سے ترقی کی ہے۔ جاپان نے بھی آغاز ٹیکسٹائل ہی سے کیا اور پھر ہائی ٹیک کی جانب آیا۔ ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر بہت ترقی کر سکتا ہے، لیکن ہم اس جانب توجہ نہیں دیتے۔ میں یہاں سبسڈیز کے حوالے سے بھی بات کروں گا۔ سبسڈی کئی قسم کی ہوتی ہے۔ کوئی سبسڈی ڈیولپمنٹ کے لیے دی جاتی ہے، تو کوئی پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے۔ ہماری برآمدات کا 76فیصد حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں امپورٹڈ گارمنٹس کی بھرمار ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پیداواری لاگت زیادہ ہے اور ہم اس قیمت پر اپنی مصنوعات فروخت نہیں کر سکتے، جس قیمت پر امپورٹڈ گارمنٹس دستیاب ہیں۔ اب آپ چینی مصنوعات ہی کو لے لیں۔ یہ اس لیے سستی ہیں کہ وہاں انڈسٹری کے لیے بجلی، گیس مفت ہے اور زمین بھی حکومت فراہم کرتی ہے۔ ہماری حکومت کو بھی نئی صنعتوں کے لیے زمین مفت اور مشینری کی خریداری میں سہولت فراہم کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں موجودہ حکومت اقدامات کر رہی ہے۔
شہناز زیدی :ہمیں بٹن اور لیس جیسی جیسی چھوٹی چیزیں بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہیں، تو کیا یہ سب مقامی طور پر تیار نہیں ہو سکتا؟
محمد جاوید بلوانی :کسی دور میں بہت ساری چیزیں پاکستان ہی میں تیار ہوتی تھیں اور ہم وہی استعمال کرتے تھے، لیکن اب بد قسمتی سے یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ اب پیداواری لاگت اتنی بڑھ گئی ہے کہ چھوٹی صنعتیں پنپ نہیں سکتیں۔ اس وقت چین میں ٹیکسٹائل ڈائیز بنانے والی سب سے زیادہ کمپنیز ہیں، لیکن ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے یہ کمپنیز بند ہو رہی ہیں اور پھر بھارت سب سے زیادہ ٹیکسٹائل ڈائیز بنانے والا ملک بن جائے گا، جہاں اس وقت ایسی 2,000کمپنیز ہیں۔ اسی طرح جان بچانے والی ادویہ بھی بھارت ہی سے پاکستان آتی ہیں۔ بھارت میں صنعتیں بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بجلی، گیس اور پانی سستا ہے، جبکہ ہمارے ملک میں یہ ساری چیزیں مہنگی ہیں۔ماضی میں بھارت پاکستان سے ٹیکسٹائل مصنوعات درآمد کرتا تھا، لیکن جب سے ہم ہائیڈل انرجی سے تھرمل انرجی پر آئے ہیں، تو ہماری پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
سید شجاعت علی :ایک سرمایہ دار کو کوئی انڈسٹری لگانے میں اتنی مشکلات پیش آتی ہیں کہ وہ پلاٹ خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے، جس سے اسے چند ماہ بعد ہی منافع ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہماری بیوروکریسی میں اتنی کرپشن ہے اور اتنی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں کہ کوئی سرمایہ دار انڈسٹری لگانے سے دور بھاگتا ہے۔ صنعت کاری کے لیے ہمیں ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔
محمد حیدر :کیا موجودہ حکومت مقامی صنعتوں اور برآمدات میں اضافے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
محمد جاوید بلوانی :موجودہ حکومت اور وزیر اعظم عمران خان معیشت کی بہتری کے لیے پرعزم ہیں۔ میں وفاقی وزیرِ خزانہ، اسد عمر سے ان کے گھر جا کر کئی مرتبہ ملا ہوں۔ ہمیں اس حکومت سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں اور یہ برآمدات بڑھانے میں کامیاب ہو جائے گی۔