میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
امریکا کا ایک پورا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ہے، جس سے اس کی معیشت وابستہ ہے اور اگر وہ دنیا کے کسی خطے میں جنگ نہ کروائے،
تو اس کی معیشت بیٹھ جائے گی، عالمی طاقتوں کی جنگ میں ہم آلۂ کار بنے ہوئے ہیں،پاکستان نے اپنا دفاعی بجٹ کم سے کم سطح پر رکھنا ہے، مستقبل میں پاک، بھارت جنگ ہوئی، تو فضائیہ اور بحریہ ہی فیصلہ کن کردار کی حامل ہوں گی، پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارتی جہازوں کے ہم پلہ طیارے خریدے، اس وقت بھارتی فضائیہ جتنی کمزور ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی، پاکستان کا دفترِ خارجہ انڈین فارن آفس کے مقابلے میں زیادہ اہلیت و قابلیت رکھتا ہے، دفترِ خارجہ میں موجود افراد کی صلاحیتوں کو بہتر انداز سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں دفاعی بجٹ بڑھائے بغیر ہی جدید حربی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا چاہیے،
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد راؤ
حالیہ پاک، بھارت کشیدگی کے بعد بھارت 200ایف 16طیارے اور 40رافیل طیارے خرید رہا ہے ، اسرائیل کے ساتھ بھی ایک بہت بڑا دفاعی معاہدہ کرنے والا ہے،
روس نے بھی بھارت کو 3ارب ڈالرز کی آبدوز فروخت کر ڈالی، محاذ آرائی سے امریکا، فرانس، اسرائیل اور روس کو فائدہ پہنچ رہا ہے،بھارتی طیارہ مار گرائے جانے کے اگلے روز ہی شنگھائی اسٹاک ایکسچینج میں جے ایف تھنڈر 17بنانے والی چینی کمپنی کے شیئرز میں 10فیصد اضافہ ہو گیا، جو سب سے اونچی حد ہے اور اگر یہ حد نہ ہوتی، تو یہ اضافہ 10فیصد سے بھی زیادہ ہو سکتا تھا، اس کے علاوہ ایف16اور رافیل طیاروں کی مانگ اور قیمت میں بھی اضافہ ہوا ،پاکستان اور بھارت کی اشرافیہ کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں، اگر ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ ہونے والی مجموعی رقم کا 20فیصد سماجی تحفظ پر خرچ کیا جائے، تو پوری دنیا کو تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں،
سردار اشرف خان
بھارت میں ہتھیاروں کی خریداری ایک بہت بڑا کاروبار ہے اور اس میں مودی کے دوست بھی شامل ہیں، بھارتی وزیراعظم نےفرانسیسی رافیل طیاروں کی خریداری کا ٹھیکہ مشہور کاروباری شخصیت مکیش امبانی کو دیا ،
اب یہ ایک بڑا اسکینڈل بن چکا ہے، اگرچہ اس وقت دنیا اپنے معاشی مفادات کے سبب بھارت کی حمایت کر رہی ہے، لیکن اس سے مستقبل میں بھارت کو سیاسی طور پر نقصان ہو گا، بھارت اپنے دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ کرے گا، تاہم ہمیں اپنا دفاعی بجٹ نہیں بڑھانا چاہیے، حالیہ کشیدگی سے مسئلہ کشمیر دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا، بھارت کا دفترِ خارجہ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور خود مختار ہے،اگر پاکستانی سفارت کاروں کو بھی خود مختاری دی جائے، تو وہ اپنا مؤقف منوا سکتے ہیں، جنگ میں ناکامی کے بعد بھارت کے پالیسی سازوں نے معاشی طور پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ بنایا ہے،
مصطفیٰ کمال قاضی
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تنازعات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان وقتاً فوقتاً تنازعات سر اٹھاتے ہیں اور خوں ریز تصادم اور جنگ کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ 70برس سے زاید عرصے جاری ہے۔ تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاک، بھارت تصادم سے مستفید کون ہوتا ہے۔ اگر حالیہ کشیدگی کی بات کی جائے، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس سے پاکستان نے کس حد تک فائدہ اٹھایا، بھارت اور مودی کو کس طرح فائدہ پہنچا، ہتھیاروں کی صنعت کو کیا فائدہ حاصل ہوا ؟ نیز، نفرت یا جنگ کی اس صنعت کو ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ ان سمیت دیگر سوالات کے جواب جاننے کے لیے گزشتہ دنوں انڈس یونیورسٹی کے کلفٹن کیمپس میں ’’پاک، بھارت تنازع، فائدے میں کون؟‘‘ کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس میں اسٹرٹیجک سیکورٹی تجزیہ کار، ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو، معروف صنعت کار اور امورِ کشمیر کے ماہر، سردار اشرف خان اور سابق سفیر، مصطفیٰ کمال قاضی نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ :پاک، بھارت تنازعےسے فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟ اس بارے میں مختصراً بتائیں۔
سردار اشرف خان :کئی برس قبل میں نے ایک ناول پڑھا تھا، جس میں پاکستان اور بھارت کے ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچنے کا منظر پیش کیا گیا تھا، جسے پھر روک لیا گیا۔ حالیہ پاک، بھارت کشیدگی بھی اسی ناول کے پلاٹ سے ملتی جلتی ہے۔ پاک، بھارت تنازع کو ہوا دینے والے عناصر بہت سارے ہیں اور اس سے مستفید ہونے والے بھی بہت ہیں۔ بھارت خالصتاً 40ارب ڈالرز کے ہتھیاروں کا خریدار ہے۔ حالیہ کشیدگی کے بعد بھارت 200ایف 16طیارے اور 40رافیل طیارے خرید رہا ہے اور اسرائیل کے ساتھ بھی ایک بہت بڑا دفاعی معاہدہ کرنے والا ہے۔ پھر روس نے بھی بھارت کو 3ارب ڈالرز کی آبدوز فروخت کر ڈالی۔ یعنی اس کا فائدہ امریکا، فرانس، اسرائیل اور روس کو ہو رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کے پاس پیسے نہیں ہیں، ورنہ وہ بھی مزید ہتھیار ضرور خریدتا، لیکن دونوں ممالک یہ ہتھیار استعمال نہیں کرتے، کیوں کہ یہ ایک طویل جنگ لڑنے کی استعداد ہی نہیں رکھتے۔ اس وقت مودی بھارت میں ہندو توا یا ہندوئوں کی برتری کا پرچار کر رہے ہیں اور مغرب بھی ان کی حمایت کر رہا ہے، کیوں کہ بھارت سے اس کے معاشی مفادات وابستہ ہیں، جب کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت اس مسئلے کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں اسے حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ درحقیقت، جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، بلکہ فتح حاصل کرنے والا بھی حقیقت میں شکست خوردہ ہی ہوتا ہے۔ پاک، بھارت تنازع میں بنیادی کردار بیرونی عناصر ادا کرتے ہیں۔ اس وقت امریکا، بھارت کی حمایت کر رہا ہے، کیوں کہ اس نے اپنے 200ایف16طیارے فروخت کرنے ہیں۔ اگرچہ بھارت، پاکستان پرحملہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، لیکن مغرب اسے داد دے رہا ہے۔ پھر مودی نے یہ کہہ کر اپنی کمزوری تسلیم کر لی کہ اگر ہمارے پاس رافیل طیارے ہوتے، تو حالات مختلف ہوتے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس وقت چین اس خطے کی سب سے بڑی بحری طاقت ہے اور بھارت اس سے یہ اعزاز چھیننا چاہتا ہے۔ البتہ چین مستقبل میں بحری طاقت میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ مجھے یہ ڈر ہے کہ پاکستان سی پیک سے ہونے والا سارا فائدہ دفاع پر نہ صرف کر دے۔
جنگ:کیا پاکستان اور بھارت کے حکم ران یہ نہیں سوچتے کہ وہ اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع پر خرچ کر دیتے ہیں، حالاں کہ دونوں ممالک میں غربت انتہا کو چھو رہی ہے اور انہیں انسانی ترقی کے لیے اپنے وسائل خرچ کرنے چاہئیں؟
سردار اشرف خان :بھارت میں 70کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور 40کروڑ فٹ پاتھ پر سوتے ہیں، لیکن بھارتی حکومت غربت کے خاتمے کے بہ جائے 200ایف 16طیارے خرید رہی ہے۔ اگر ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ ہونے والی مجموعی رقم کا 20فیصد سماجی تحفظ پر خرچ کیا جائے، تو پوری دنیا کو تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ دراصل، پاکستان اور بھارت کی حکومتی اشرافیہ کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں۔
جنگ :حالیہ پاک، بھارت کشیدگی سے مودی کو عام انتخابات میں کتنا فائدہ ہو گا اور کیا اس سے مسئلہ کشمیر اجاگر ہوا؟
مصطفیٰ کمال قاضی :مودی نے گزشتہ انتخابات میں غریب عوام کی حالتِ زار بہتر کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن غربت ختم ہونے کے بہ جائے امیر مزید امیر ہو گئے۔ لہٰذا، بھارتی عوام میں پائی جانے والی بے چینی کو کم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دی گئی۔ بھارتی عوام میں پاکستان سے نفرت اور ہندو توا کے ڈاکٹرائن کو بڑھاوا دیا گیا۔ مودی نے اپنی پانچ برس کی ناکامی کا ازالہ پاکستان سے نفرت پھیلا کر کیا۔ پھر بھارتی میڈیا نے بھی اپنے عوام کو گمراہ کیا۔ مثال کے طور پر یہاں درخت گرے اور بھارتی میڈیا نے 300آدمی مارنے کا دعویٰ کیا اور جب اپوزیشن سمیت دیگر طبقات نے ثبوت مانگے، تو انہیں غدار قرار دے دیا گیا۔ بھارت میں ہتھیاروں کی خریداری ایک بہت بڑا کاروبار ہے اور اس میں مودی کے دوست بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر فرانسیسی رافیل طیاروں کی خریداری کا ٹھیکہ مشہور کاروباری شخصیت، سریش امبانی کو دیا گیا۔ بھارتی اخبارات کے مطابق رافیل طیاروں کی خریداری کے لیے فرانس کے ساتھ کانگریس اور بی جے پی کی جانب سے کیے جانے والے مذاکرات میں خاصا فرق پایا جاتا ہے۔ بہ ظاہر تو یہ مذاکرات وزارتِ دفاع کی سطح پر جاری تھے، لیکن اس کے علاوہ بھارت کا پرائم منسٹر آفس بھی اس میں شامل تھا۔ اس پر بھارتی محکمۂ دفاع نے پرائم منسٹر آفس کو خط لکھ کر بتایا کہ آپ کی مداخلت کی وجہ سے قومی مفادات پر ضرب پر پڑ رہی ہے۔ یہ خفیہ دستاویزات بھارتی سپریم کورٹ میں حال ہی میں پیش کی گئی ہیں اور یہ ایک بڑا اسکینڈل بن چکا ہے۔ یعنی بھارت کی دفاعی صنعت اور بڑی کاروباری شخصیات کے درمیان ایک رابطہ سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت کا دفاعی بجٹ 50ارب ڈالرز سالانہ ہے۔ اگرچہ اس وقت دنیا اپنے معاشی مفادات کے سبب بھارت کی حمایت کر رہی ہے، لیکن اس سے مستقبل میں بھارت کو سیاسی طور پر نقصان ہو گا۔ مودی کے رافیل طیاروں کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں بھارت اپنے دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ کرے گا۔ تاہم، اس موقع پر ہمیں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور بھارت سے مسابقت کی کوشش میں اپنا دفاعی بجٹ نہیں بڑھانا چاہیے۔ ہمیں اپنی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی کو مستحکم کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے صبر کا مظاہرہ کیا، تو پانچ برس بعد پتہ چلے گا کہ ہتھیاروں کی خریداری کے نتیجے میں بھارتی معیشت اور عوام کو نقصان پہنچا، جب کہ پاکستان نے ترقی کی۔
جنگ :کیا پاک، بھارت کشیدگی سے مسئلہ کشمیر اجاگر ہوا؟
مصطفیٰ کمال قاضی :اس وقت ساری دنیا ہی مسئلہ کشمیر کی حساسیت سے واقف ہو چکی ہے، کیوں کہ اگر چین کو بھی ملا لیا جائے، تو اس معاملے میں دنیا کی تین جوہری طاقتیں شامل ہیں۔ حالیہ کشیدگی کے بعد پوری دنیا چوکنا ہو گئی ہے اور اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑتی ہے، تو اس سے دنیا کے دوسرے خطے بھی متاثر ہوں گے۔
جنگ :کیا پاکستان کے خلاف محاذ آرائی سے مودی کو عام انتخابات میں فائدہ پہنچے گا؟
مصطفیٰ کمال قاضی: جی ہاں، کیوں کہ اگر اس سے فائدہ نہ ہوتا، تو مودی یہ قدم ہی نہ اٹھاتے۔ یاد رہے کہ مودی ایک شاطر سیاست دان ہیں اور ویسے بھی بھارتی سیاست دان کافی زیرک ہوتے ہیں۔ وہ عوام کے جذبات بھڑکانا جانتے ہیں۔
جنگ :اس نفرت کے دھندے کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے؟
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو: تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر اسی وقت ہی حملہ آور ہوتی ہے کہ جب وہ یہ سمجھتی ہے کہ وہ اسے شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسے ہم کبھی تہذیبوں کا تصادم کہتے ہیں، تو کبھی مذاہب کا تصادم۔ مثال کے طور پر 1991ء کی امریکا، عراق جنگ کو اس وقت کے امریکی صدر، بش سینئر نے صلیبی جنگ کا نام دیا تھا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ میں یہاں علامہ اقبال کے ایک شعر کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ ؎ تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے/ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت ہمیں انڈین اسٹیٹ بینک سے 55کروڑ روپے اور اس کے علاوہ دفاعی سازو سامان میں حصہ ملنا تھا۔ اس موقع پر ولبھ بھائی پٹیل نے کہا کہ پاکستان کو اس حصہ نہ دو۔ یہ خود روتے پیٹتے ہمارے پاس آئے گا۔ علاوہ ازیں، ولبھ بھائی پٹیل ہی کی وجہ سے بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔بھارت کے مخاصمانہ رویے کی وجہ سے پاکستان نے امریکا سے مدد طلب کی۔ 1950ء میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان، لیاقت علی خان امریکا گئے اور 1955ء میں پاکستان کو امداد کی پہلی قسط ملی۔ اس موقع پر امریکا نے بھارت کو خط لکھ کر مطلع کیا کہ ہم پاکستان کو فلاں فلاں ہتھیار دے رہے ہیں، لیکن یہ بھارت کے خلاف نہیں، بلکہ کمیونزم کے خلاف استعمال ہوں گے۔اس کے بعد ہم نے سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اختیار کی۔ نہرو واقعی ایک سیکولر سیاست دان تھے، لیکن جب 1962ء میں بھارت کو چین سے شکست ہوئی، تو پھر بھارت میں سخت گیر سیاست دان سامنے آ گئے اور انہوں نے بھارتی فوج کو بڑے پیمانے پر ہتھیاروں سے مسلّح کرنا شروع کر دیا۔ اب جہاں تک فائدہ اٹھانے والے کی بات ہے، تو ہتھیاروں کی دوڑ سے اسلحے کی صنعت اور امریکا کو براہ راست فائدہ پہنچ رہا ہے، جب کہ سفارتی سطح پر امریکا اور چین فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ امریکا اور چین ایک دوسرے کے حریف ہیں، لیکن یہ ایک دوسرے کے خلاف براہِ راست جنگ نہیں کرنا چاہتے۔ امریکا، چین کے خلاف بھارت کو تیار کر رہا ہے، لیکن جب ہم بھارت کے جنگی عزائم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، تو امریکا میں موجود بعض طبقات یہ کہتے ہیں کہ بھارت کو اتنا طاقت ور نہ بنائو کہ یہ ہمیں آنکھیں دکھانے لگے اور پھر پاکستان کی حمایت کی جاتی ہے۔ بلاکس کی اس تقسیم سے عالمی طاقتوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور ہم کسی اور کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ مثلاً ،ہم نے امریکا کی خاطر افغان جنگ لڑی۔ 1965ء کی جنگ کے بعد ہم پر پابندیاں عاید کی گئیں اور 1979ء میں ایک مرتبہ پھر امریکا کو ہم یاد آ گئے۔ البتہ افغان جنگ سے ضیاء الحق کو یہ فائدہ پہنچا کہ ان کا اقتدار طویل ہو گیا اور امریکا نے ہمارے ایٹمی پروگرام سے چشم پوشی اختیار کر لی۔ تاہم، نقصان یہ ہوا کہ 40لاکھ افغان مہاجرین ہمارے ملک میں آ گئے اور تب سے اب تک افغانستان عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ میں ایک اور مثال یہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ 11مئی 1998ء کو بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کیے اور 28مئی کو ہم نے اس کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کیے۔ 11مئی کے بعد سے بھارتی سیاست دان پاکستان کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی کر رہے تھے ۔ وہ اس زعم میں مبتلا ہو گئے تھے کہ اب پاکستان، بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا، لیکن جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے، تو بھارتی سیاست دانوں کا رویہ بالکل نرم پڑ گیا۔ اگرچہ اس وقت بھارت میں بے حد غربت ہے، لیکن اس کی معیشت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ بھارت میں نچلی ذات کے ہندوئوں کو تو اس بات پر آمادہ کر لیا گیا ہے کہ اس جنم میں ذلت و پستی ہی ان کا مقدر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی قسم کی مزاحمت نہیں کرتے۔
جنگ :بھارت کا دفاعی بجٹ بڑھ رہا ہے، تو کیا پاکستان بھی اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرے گا؟
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو :پاکستان نے اپنا دفاعی بجٹ کم سے کم سطح پر رکھنا ہے۔ تاہم، میں یہاں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مستقبل میں پاک، بھارت جنگ ہوئی، تو فضائیہ اور بحریہ ہی فیصلہ کن کردار کی حامل ہوں گی۔ اب جنگوں میں آرمی کا کردار ختم ہو گیا اور یہ دونوں افواج سب سے مہنگی افواج ہیں۔
جنگ :پاکستان اور بھارت گزشتہ 70برس سے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ بھارت میں کبھی بھی فوجی حکومت قائم نہیں ہوئی؟
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو :اس کا سبب دونوں ممالک کی ثقافت کا فرق ہے۔ مسلمان ہمیشہ ہی جنگجو اور آمریت پسند رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو بیش تر اسلامی ممالک میں آمریت ملے گی اور اگر کہیں جمہوریت ہے بھی، تو وہ کنٹرولڈ ہے۔ پھر ہمارے ملک میں کبھی جمہوریت مستحکم ہی نہیں ہوئی۔ ایوب خان نے ایبڈو نافذ کر کے جمہوری کلچر کو ختم کر دیا۔ تاہم، فوجی نظامِ حکومت اچھا نہیں ہے۔ یحییٰ خان نے ملک کے دو ٹکڑے کر دیے، تو ضیاء الحق نے اپنے برانڈ کا اسلام نافذ کر کے معاشرے کو تقسیم کر دیا۔ پرویز مشرف نے روشن خیالی کا درس دیا اور جاتے جاتے این آر او کر گئے۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ کون چور ہے اور کون چور نہیں ہے۔ اسی طرح ہمارے سیاست دانوں میں بھی خوئے سلطانی پائی جاتی ہے۔ میں سول بالادستی کا حامی ہوں اور میرا ماننا ہے کہ 1947ء سے 1958ء تک ہمارے ملک میں بہترین جمہوریت تھی، چہ جائیکہ ہم نے کئی وزرائے اعظم تبدیل کیے۔ ہمارے منتخب وزرائے اعظم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تحصیلدار بھی اپنی مرضی کا تعینات کرتے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت تبدیل ہونے کے بعد کافی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے۔
جنگ :کیا پاک بھارت کشیدگی کے بعد جے ایف تھنڈر 17، ایف 16، مگ 21اور رافیل طیاروں کی قیمتوں پر بھی اثرات مرتب ہوئے؟
سردار اشرف خان :بھارتی طیارہ مار گرائے جانے کے اگلے روز ہی شنگھائی اسٹاک ایکسچینج میں جے ایف تھنڈر 17بنانے والی چینی کمپنی کے شیئرز میں 10فیصد اضافہ ہو گیا، جو سب سے اونچی حد ہے اور اگر یہ حد نہ ہوتی، تو یہ اضافہ 10فیصد سے بھی زیادہ ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ایف16اور رافیل طیاروں کی مانگ اور قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بھی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ چین کے تعاون سے ہمیں فائدہ پہنچا ہے۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی افرادی قوت سب سے بہتر تسلیم کی جاتی ہے، چاہے وہ کوئی بھی شعبہ ہو۔ تاہم، ہمیں اپنی معیشت اور داخلی حالات کو مستحکم کرنا ہو گا۔
جنگ :عموماً کہا جاتا ہے کہ سفارتی محاذ پر ہمیشہ بھارت، پاکستان پر بازی لے جاتا ہے۔ کیا یہ درست ہے اور اگر ایسا ہے، تو اس کی کیا وجہ ہے؟
مصطفیٰ کمال قاضی :اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے دونوں ممالک کے جغرافیے اور طرزِ سیاست پر نظر ڈالنا ہو گی۔ بھارت کا رقبہ پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور پھر بھارت میں سیاسی استحکام بھی ہے۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کا دفترِ خارجہ پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور خود مختار ہے اور ہمارے مقابلے میں ان کے وسائل بھی کافی زیادہ ہیں۔ نیز، بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیز تقریباً وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہوتی ہیں، جب کہ ہمارا مزاج قدرے مختلف ہے۔ کسی بھی ملک کی وزارتِ خارجہ اس کی پہلی دفاعی لائن ہوتی ہے، لیکن جب ملک میں فوجی حکومت ہوتی ہے، تو پہلی اور دوسری دفاعی لائن میں فرق بہت کم ہو جاتا ہے۔ پھر سفارت کاری کے مختلف آلات ہوتے ہیں اور آپ صرف زبانی جمع خرچ نہیں کر سکتے۔ پھر ہماری وزارتِ خارجہ کے وسائل بھی کم ہیں۔ سفارت کاری کے آلات میں معیشت، ثقافتی تعاون، انٹیلی جنس ایجنسیز اور میڈیا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام چیزیں بھارت کے دفترِ خارجہ کے پاس ہیں، لیکن پاکستان کا دفترِ خارجہ ان سے عاری ہے۔
جنگ :اس کا سبب کیا ہے؟
مصطفیٰ کمال قاضی : اس کی وجہ اختیارات کا نہ ہونا ہے۔ میں یہاں ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جب سابق صدر، پرویز مشرف نے مجھے روس میں سفیر تعینات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو میں نے ان سے خصوصی اختیارات مانگے، جو انہوں نے مجھے دے دیے۔ پھر پاکستان سے مختلف وفود روس گئے، جس کے نتیجے میں روس کی پاکستان سے متعلق پالیسی میں کافی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ اگرچہ جے ایف تھنڈر 17چین اور پاکستان کی مشترکہ کاوش ہے، لیکن بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ اس کا انجن روسی ساختہ ہے۔ یعنی اس سلسلے میں روس نے بھی ہم سے تعاون کیا۔ جب 15کروڑ ڈالرز کی لاگت سے جے ایف تھنڈر 17طیارہ تیار ہو گیا، تو روس نے چین سے کہا کہ ہم پاکستان کو انجن نہیں دے سکتے، کیوں کہ ہمارے بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدے ہیں۔ اگر ہمیں یہ طیارہ انجن کے بغیر ملتا، تو یہ ہمارے لیے بیکار تھا۔ لہٰذا، روس سے انجن حاصل کرنا میرے لیے ایک اہم ٹاسک تھا۔ چوں کہ اس وقت ہمارے روس کے ساتھ روابط نسبتاً بہتر ہو چکے تھے، لہٰذا میں این او سی لینے میں کامیاب ہو گیا۔ اس پر بھارتی پارلیمنٹ میں خاصا شور شرابہ بھی ہوا کہ روس نے پاکستان کو انجن کو کیوں دیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر بھارتی سفارت کاروں کی طرح پاکستانی سفارت کاروں کو بھی خود مختاری دی جائے، تو وہ اپنا مؤقف منوا سکتے ہیں۔
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو :پاکستان کا دفترِ خارجہ انڈین فارن آفس کے مقابلے میں زیادہ اہلیت و قابلیت رکھتا ہے۔ اگر آپ بھارتی ٹی وی چینلز دیکھیں، تو صحافی ہی بھارتی خارجہ پالیسی کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں، جب کہ دفترِ خارجہ کے اہلکار صرف کتابی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ کتابی کیڑے ہیں اور انہیں معروضی حقائق کا کماحقہ علم نہیں ہوتا۔اس کے برعکس ہمارے دفترِ خارجہ سے تعلق رکھنے والے افراد بڑے دبنگ انداز میں تمام سوالات کا جواب دیتے ہیں اور اپنا دفاع کرتے ہیں۔ اسی طرح 1965ء کی جنگ کے دوران اس وقت کے وزیر خارجہ، ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بڑی عمدہ سفارت کاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ لہٰذا، یہ تاثر غلط ہے کہ ہمارے دفترِ خارجہ میں اہلیت نہیں، بلکہ ہمارے فارن آفس میں کئی لائق فائق افراد موجود ہیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمایندگی کرنے والے ملیحہ لودھی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ تاہم، دفترِ خارجہ میں موجود افراد کی صلاحیتوں کو بہتر انداز سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
محمد اسحٰق:کیا بھارت دوبارہ کوئی مہم جوئی کر سکتا ہے؟
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو :اس بات کا خدشہ موجود ہے۔ تاہم، تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ بھارت نے پلواما حملے کو جواز بناتے ہوئے پاکستان پر حملے میں پہل کی۔ دراصل، گزشتہ چند برسوں سے بھارت خود کو ناقابلِ تسخیر اور ناقابلِ شکست اور پاکستان کو غیر مستحکم تصور کرنے لگا تھا۔ جس روز پاکستان نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے، اس روز مجموعی طور پر چار بھارتی طیارے تباہ ہوئے تھے، جن میں سے دو بھارتی فضائیہ کی اپنی غلطی سے گرے ۔ درحقیقت، پاکستان کا میڈیا کمزور ہے اور یہ اپنے ملک کا موقف مؤثر انداز میں پیش نہیں کر پا رہا۔ میرا 35برس کا ایئر فورس کا تجربہ ہے اور میرا ماننا ہے کہ اس وقت بھارتی فضائیہ جتنی کمزور ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ گزشتہ چند برسوں میں اس نے اپنے 450طیاروں کو ریٹائر کیا۔ ان میں مگ سیریز کے مختلف جہاز شامل ہیں اور اب بھارت رافیل طیارے خریدے گا۔ لہٰذا، پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارتی جہازوں کے ہم پلہ طیارے خریدے۔ ہماری فضائیہ جتنی مضبوط ہو گی، بھارت اتنا زیادہ خوفزدہ ہو گا۔
سردار اشرف خان :بھارتی جارحیت کا ایک سبب تو یہ ہے کہ وہاں چند ہفتوں بعد انتخابات ہونے والے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی ممالک اس لیے بھارت کی حمایت کر رہے ہیں کہ وہ افغان مسئلے کے حل اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان پر دبائو بڑھانا چاہتے ہیں اور مستقبل میں پاکستان پر دبائو مزید بڑھ سکتا ہے۔ اب پاکستان کو عسکریت پسند تنظیموں کا صفایا کرنا ہو گا، کیوں کہ ان کی وجہ سے ہم دنیا بھر میں بد نام ہو رہے ہیں۔
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو :پاکستان کو بیرونی دبائو کے بہ جائے اپنے مفادات کے پیشِ نظر کارروائی کرنی چاہیے۔
مصطفیٰ کمال قاضی :حالیہ لڑائی سے بھارت کو نہ صرف عسکری میدان میں نقصان ہوا، بلکہ سفارتی محاذ پر بھی اس کے مفادات پر ضرب پڑی، کیوں کہ اس واقعے کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر ’’ہاٹ ایشو‘‘ بن گیا، جو پاک، بھارت کشیدگی کا بنیادی سبب ہے۔ اب دنیا کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ اگر کشمیر جیسا دیرینہ مسئلہ حل نہ کیا گیا، تو تین جوہری طاقتوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ لہٰذا، اب بھارت کے پالیسی سازوں نے معاشی طور پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یعنی پاکستان کو اپنا دفاعی بجٹ بڑھانے پر مجبور کیا جائے اور ملک میں تخریبی کارروائیوں کو بڑھاوا دیا جائے۔ یعنی براہِ راست جنگ سے گریز کیا جائے۔
سردار اشرف خان :یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی بامقصد پالیسی ہے؟
مصطفیٰ کمال قاضی :پاکستان کا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصوابِ رائے کروایا جائے ۔البتہ اس کے علاوہ بھی اقدامات کیے گئے۔مثال کے طور پر شملہ معاہدہ ہوا اور سابق صدر، پرویز مشرف کے دور میں بیک ڈور چینل ڈپلومیسی کے ذریعے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان لائن آف کنٹرول ختم کر کے دونوں اطراف کے شہریوں کی آزادانہ آمدو رفت کا منصوبہ بنایا گیا۔ البتہ پاکستان اپنے بنیادی مؤقف پر قائم ہے۔
جنگ :کیا مستقبل قریب میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی تصادم ہو سکتا ہے؟
مصطفیٰ کمال قاضی :مجھے ایسا نہیں لگتا۔ البتہ ہمیں نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور انداز سے عمل درآمد کرنا چاہیے، تاکہ بیرونی طاقتیں ہمارا استحصال نہ کر سکیں۔ یہ مغرب کی دوغلی پالیسی ہے۔ وہ خودشام میں اپنے مفادات کے لیے غیر ملکی جنگجوئوں کو استعمال کر رہا ہے۔
کومل :ڈاکٹر عابد رائو نے کہا کہ اب جنگوں میں فضائیہ اور بحریہ کا کردار فیصلہ کن ہو گا۔ انہوں نے پاک فضائیہ کی استعداد کے بارے میں تو بتایا، لیکن پاک نیوی کی اہلیت پر روشنی نہیں ڈالی؟
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو :ایئر فورس ہر دور میں اگلے 15سے 20برس کی حکمتِ عملی بناتی ہے۔ بھارت نے رافیل طیارے کا انتخاب کیا ہے، تو ہم بھی اسی کے ہم پلہ جہاز منتخب کر چکے ہیں۔ پاکستان نے ایسے ہتھیار بھی تیار کر لیے ہیں کہ جو پاکستانی حدود سے ایک سو کلو میٹر کے فاصلے پر موجود اپنے ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنا سکتے ہیں۔ بھارت میں قوتِ فیصلہ کی کمی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے 18برس میں رافیل طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، ہم فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے، چاہے اس کے نتائج جو بھی نکلیں۔ اگر پاک نیوی کی بات کی جائے، تو بدقسمتی سے اسے 1958ء سے نظر انداز کیا گیا اور اسے بھرپور وسائل بھی فراہم نہیں کیے جاتے، حالاں کہ اس کی ذمے داریاں بہت زیادہ ہیں۔
سردار اشرف خان :اگر پاکستان کی معیشت کو مدِ نظر رکھا جائے، تو ہم ایک بہت بڑا دفاعی بجٹ برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم پر قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے اور بیرونی امداد نہیں مل رہی۔ تاہم، خوش قسمتی سے چین نے سی پیک کی صورت پاکستان کے ساتھ تعاون شروع کر دیا ہے اور یہ ہماری بحریہ کو بھی مضبوط کر رہا ہے۔ سی پیک کی وجہ سے اس خطے میں نیوی کا کردار بڑھ گیا ہے اور بھارت اور امریکا بھی اس لیے خائف ہیں کہ سی پیک کی نتیجے میں چین کی بحریہ سمندری راستوں پر اپنا کنٹرول حاصل کر رہی ہے، مگر ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی صورت میں چین ہماری مدد نہیں کرے گا۔ پھر ایک طبقے کا یہ بھی ماننا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہو رہی، بلکہ دونوں اطراف کے حکم ران اپنے اپنے عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ آج دونوں ممالک کا سوشل سیکٹر تباہ حال ہے۔ تعلیم و صحت کی سہولتیں نا پید ہیں۔ سڑکیں نہیں ہیں۔ ہمیں سب سے زیادہ تعلیم پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
کلثوم :میرا پہلا سوال یہ ہے کہ تیسری عالمی جنگ میں بری فوج یا آرمی کا کردار کیوں نہیں ہو گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ بھارت کو صرف کشمیر کی زمین سے دلچسپی ہے، کشمیریوں سے نہیں، تو کیا پاکستان کو بھی کشمیری عوام سے کوئی سروکار نہیں؟
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو :فضائیہ کی اہمیت کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ دور سے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ پھر اس کے ہتھیار توپ خانے اور ٹینکوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔اسی طرح ایئر فورس کا ایک پائلٹ ہوتا ہے، جب کہ آرمی کی ایک بٹالین 250سپاہیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اعتبار سے ایئرفورس کو آرمی پر برتری حاصل ہے۔ تاہم، جوہری ہتھیاروں نے نیوی کی اہمیت میں اضافہ کر دیا ہے اور آب دوز تو دشمن کے کسی بھی علاقے میں داخل ہوسکتی ہے۔ یعنی نیوی، ایئرفورس سے بھی زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب آرمی غیر متعلق ہو کر رہ گئی ہے۔ 1991ء میں امریکی ایئر فورس نے تین سے چار روز میں عراق کا سارا انفرااسٹرکچر تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا اور اس کے بعد آرمی کو صفائی اور اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے عراق بھیجا گیا۔ سیاچن میں 1984ء سے جنگ جاری ہے، لیکن کسی کو نہیں معلوم۔ مگر جونہی اس جنگ میں ایئر فورس شامل ہو گی، تو پوری دنیا کو پتہ چل جائے گا۔
سردار اشرف خان :مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی دلچسپی صرف بیان بازی کی حد تک ہے۔ حالیہ برسوں میں وہاں جو بغاوت شروع ہوئی ہے، اس سے پاکستان بھی اتنا ہی خوفزدہ ہے، جتنا کہ بھارت، کیوں کہ پاکستان کو یہ خدشہ ہے کہ اگر مقبوضہ کشمیر آزاد ہو گیا، تو کیا وہ آزاد کشمیر کو اپنے پاس رکھ پائے گا۔
مصطفیٰ کمال قاضی :جنگوں نے ہمیں یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں صرف تباہی ہوتی ہے اور جیتتا کوئی بھی نہیں۔ عراق جنگ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جان مک کین کی موت پر ٹویٹ کیا کہ وہ ایک گھٹیا آدمی تھا، لیکن اس کے باوجود انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ جان مک کین نے عراق جنگ کی حمایت کی اور اس کے نتیجے میں امریکا کو 6ہزار ارب ڈالرز کا نقصان ہوا، لیکن پھر بھی ہم جنگ نہیں جیت سکے۔ میں عراق میں سفیر رہ چکا ہوں۔ عراقی عوام بہت مہذب ہیں، لیکن انہیں تباہ کر دیا گیا۔ امریکا کی جنگ کے نتیجے میں عراق تباہ ہو گیا، لیکن امریکا کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، کیوں کہ جنگ کے بعد عراق، ایران کے قریب ہو گیا۔ یعنی امریکا 6ہزار ارب ڈالرز خرچ کر کے بھی عراقی حکومت کو اپنا وفادار نہیں بنا سکا، تو اس جنگ کا کیا فائدہ ہوا۔
دیو آنند :کیا اب پاک بحریہ اور پاک نیوی کے دفاعی بجٹ میں بھی اضافہ ہو گا؟
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو :جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے بری فوج کے مقابلے میں بحریہ اور فضائیہ کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن دفاعی بجٹ میں اضافہ یا کمی ایک الگ معاملہ ہے۔
جنگ :حربی ٹیکنالوجی میں دن بہ دن جدت آ رہی ہے، تو روایتی جنگوں کا زمانہ کب ختم ہو گا اور وہ وقت کب آئے گا کہ جب انسانوں کے بغیر ہی جنگیں لڑی جائیں گی؟
ایئر وائس مارشل (ر) ڈاکٹر محمد عابد رائو :اب نہ ہی امریکا اور چین کے درمیان جنگ ہو گی، نہ ہی چین اور بھارت کے درمیان اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی جنگ ہو گی، کیوں کہ اب اگر دونوں ممالک کے درمیان ذرا سی بھی گرما گرمی ہوئی، تو دنیا درمیان میں آ جائے گی، کیوں کہ اسے اس بات کا ڈر ہو گا کہ اگر ان دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان جنگ ہوئی، تو دوسرے ممالک بیٹھے بٹھائے تباہ ہو جائیں گے۔ یہ ہمارے دفاع کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ہوئی، تو دنیا اسے بڑھنے نہیں دے گی۔ البتہ ہم حربی ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بھارت پر برتری حاصل کر سکتے ہیں۔ اب نئی نئی ٹیکنالوجیز آ رہی ہیں اور ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن ہمیں اپنی معیشت پر دبائو نہیں بڑھانا چاہیے۔ امریکا کا ایک پورا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ہے، جس سے اس کی معیشت وابستہ ہے اور اگر وہ دنیا کے کسی خطے میں جنگ نہ کروائے، تو اس کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد سے امریکا کی پوری معیشت ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ہی سے چل رہی ہے اور ان کا سیاسی نظام بھی یہی ملٹری کمپلیکس چلاتا ہے۔ سابق امریکی صدر، آئزن ہاور نے 1958ء میں کہا تھا کہ امریکا کو سب سے زیادہ خطرہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے غلبے سے لاحق ہے۔
جنگ :اس وقت ساری جنگیں اسلامی ممالک ہی میں لڑی جاری ہیں، تو کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلامی دنیا ہی امریکا کی معیشت چلا رہی ہے؟
سردار اشرف خان :جی کچھ ایسا ہی ہے۔بھارت اور اسرائیل کے بعد ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریدار سعودی عرب، ایران اور یو اے ای ہیں۔
مصطفیٰ کمال قاضی :تمام خلیجی ممالک کا مجموعی دفاعی بجٹ کم و بیش 120ارب ڈالرز ہے، جب کہ ان کے مقابلے میں ایران کا دفاعی بجٹ تقریباً10ارب ڈالرز ہے۔ یعنی ان دونوں کا موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔
سردار اشرف خان :لیکن ان ہتھیاروں سے ان ممالک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے 30برس تک افغانستان میں جنگ لڑی، لیکن سب رائیگاں گیا۔ یعنی جنگ ہی اس دنیا میں سب سے بڑا فساد اور سب سے خطرناک عمل ہے اور ہمیں اس کے خلاف عوام میں شعور بیدار کرنا چاہیے۔