• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے سرکاری، نیم سرکاری اور خود مختار کہلانے والے اداروں میں آئے روز خسارے کی اطلاعات آتی رہتی ہیں مگر ان کے ذمہ داروں کے تعین اور مواخذے کی بجائےعام صارفین کو اس خسارے کی تلافی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق موجودہ حکومت نے گیس صارفین پر سوئی ناردرن کمپنی کے خسارے کے 25ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ اضافہ نہ کیا گیا تو آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی آر ایل این جی کے نرخ بڑھا دے گی، جس سے سی این جی اور پاور سیکٹر متاثر ہوں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اضافی گیس نرخوں کی ادائیگی کے لئے عام صارف کو اپنی کمر زیادہ کسنا پڑے گی جبکہ نئے اکنامک منیجرز سے توقعات یہ تھیں کہ وہ وسائل پرتصرف رکھنے والے طبقات سےبراہ راست ٹیکسوں کی وصولی کے ذریعے غریبوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کی تدابیر کریں گے۔ گیس کے نرخوں میں اضافے کی نئی تجاویز کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت ایکسپورٹ کی صنعت کو اس اضافی بوجھ سے مستثنیٰ رکھے گی۔ مشکل معاشی حالات سے دوچار قوموں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار ہوتا بھی نہیں کہ گیس، بجلی، تیل وغیرہ کے اضافی اخراجات سے صنعتوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں تاکہ عام آدمی کے لئے مواقع روزگار گھٹنے کی بجائے بڑھیں اوربرآمدات میں اضافے کی صورت میں تجارتی خسارہ کم کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی صورت پیدا ہو۔ ہمارے اکنامک منیجرز کو ایسے راستوں کی تلاش ضرور جاری رکھنا چاہئے جن کے ذریعے عام آدمی پر بڑھتا ہوا افراط زر اور مہنگائی کا بوجھ کم کرنا ممکن ہو۔ گیس اور بجلی سمیت کئی شعبوں میں لوگوں پر نرخوں کا جو بوجھ پہلے سے موجود ہے اسے گھٹانے کے لئے بایو گیس ، کوئلے کی گیس، شمسی توانائی، آبی توانائی سمیت ایندھن کے تمام وسائل بروئے کار لائے جانے چاہئیں اور جہاں جہاں ممکن ہو، بجلی خود پیدا کرنے میں صنعت کاروں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین