• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نغمہ نگار،اسکرپٹ رائٹرمسرور انور کی 23ویں برسی


منفرد ،نغمہ نگار ، اسکرپٹ رائٹر اور مکالمہ نگار مسرور انور کو مداحوں سے بچھڑے تیئس برس بیت گئے۔

یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی جیسے سیکڑوں خوبصورت گیتوں سے پاکستانی فلمی نغموں کو مقبول بنانے والے شاعر اور کہانی کار مسرور انور کو دنیا سے گزرے 23 برس بیت گئے۔

مسرور انور 5 جنوری 1944 کوشملہ میں پیدا ہوئے، 1962 میں ا نہوں نے اپنی پہلی فلم 'بنجارن کے لئے گیت لکھے تاہم انہیں اصل شہرت وحید مراد کی فلم 'ہیرا اور پتھر کے گیتوں سے ملی جس کے بعد مسرور انور، احمد رشدی اور سہیل رعنا کی ایک ٹیم سامنے آئی جس نے متعدد سپر ہٹ گیتوں کو تخلیق کیا۔

1965 کی جنگ کے موقع پر مسرور انور کے ولولہ انگیز گیتوں نے پوری قوم کا خون گرما دیا، مہدی حسن کی آواز میں اپنی جاں نذر کروں جیسا گیت تخلیق ہوا تو سوہنی دھرتی جیسے ملی نغمے کو کون بھول سکتا ہے۔

مسرور انور کی زندگی میں 1966 میں ریلیز ہونے والی فلم 'ارمان کو بہت اہمیت حاصل ہے جس کا ہر گیت سپر ہٹ ثابت ہوا، جن میں اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم یا کوکو کورینہ جیسے گیتوں کو کون بھول سکتا ہے۔

اس ٹیم نے 'دوراہا کے گیت ہاں اسی موڑ پر مشہور ہوا تو فلم 'احسان کے گیت ایک نئے موڑ پر لے آئے ہیں حالات مجھے نے بھی شہرت کی نئی بلندیوں کو چھوا۔مسرور انور اور نثار بزمی کی جوڑی بھی بہت مقبول ہوئی۔

مثال کے طور پر فلم 'لاکھوں میں ایک کا گیت چلو اچھا ہوا تم بھول گئے، فلم صاعقہ کا اک ستم اور میری جاں ابھی ہے، فلم عندلیب کا کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے، فلم انجمن کا گیت اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔

تاہم فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد وہ آہستہ آہستہ پیچھے منظر سے غائب ہونے لگے تاہم کئی فلموں میں انھوں نے اپنے فن کا جادو جگایا، جن میں فلم مشکل کا گیت دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ بہت ہٹ ہوا۔

دوستوں میں قہقہے اور مسکراہٹیں بانٹنے والے منفرد شاعر،نغمہ نگار، سکرپٹ رائٹر مکالمہ نگار مسرور انور یکم اپریل 1996 کو مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال کرگئے۔

تازہ ترین