کراچی (تجزیہ، حیدر نقوی)شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان اچانک اُٹھنے والی اختلافات کی یہ نئی لہر دراصل ملتان میں ہونے والے صوبائی اسمبلی حلقہ 218کے ضمنی انتخاب کے بعد پیدا ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق شاہ محمود قریشی کو ایسے واضح ثبوت ملے ہیں کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے امیدوار کے مقابلے میں پی پی پی کے امیدوار کو خفیہ سپورٹ کررہے تھے اور اس میں اُن کا ساتھ ملتان کے سکندر بوسن دے رہے تھے جن کا یوسف رضا گیلانی کے ساتھ بہت یارانہ ہے۔ اس حلقے کے نتیجے پر شاہ محمود قریشی کی اپنی ساکھ داؤ پر تھی اور آئندہ چند دنوں میں ہونے والے ایک اور صوبائی اسمبلی کے حلقے 217 میں ہونے والے ضمنی انتخاب بہت اہمیت رکھتے ہیں جہاں سے اطلاعات یہ ہی ہیں کہ شاہ محمود خود الیکشن لڑ کر پنجاب اسمبلی میں آئینگے اور وزیر اعلی پنجاب کے لیے ایک مضبوط ترین امیدوار بن کر ابھریں گے یاد رہے کہ عام انتخابات میں شاہ محمود کو اس حلقے سے شکست ہوئی تھی اور نجی حلقوں میں اُس کا بھی انھوں نے ذمہ دار جہانگیر ترین کو قرار دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق شاہ محمود کے خیال میں بطور وزیر خارجہ انھوں نے بہت کچھ سر کرلیا ہے اور اب وہ واپس پنجاب اسمبلی جاکر وہاں وزیر اعلی بننے کی کوشش کریں گے، ویسے بھی پنجاب میں موجودہ وزیر اعلی کارکردگی کے معاملے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں جس سے عمران خان کی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے اور وہاں شاہ محمود جیسا تجربہ کار سیاستدان پی ٹی آئ کے لیے ایک جاندار کردار ادا کرسکتا ہے۔ پی ٹی آئی دراصل اندرونی طور پر ایک نازک صورتحال کا شکار ہے پی ٹی آئی کے بانی اراکین جن میں نعیم الحق پیش پیش ہیں چاہتے ہیں کہ جب ایک طویل جدوجہد کے بعد پی ٹی آئی کو اقتدار مل ہی گیا ہے تو ایسے عناصر کی پارٹی سے چھٹی ہونا چاہیے جو صرف اپنے ذاتی فائدے کے لیے پارٹی کا حصہ بنے، نعیم الحق کے اس موقف کی اسد عمر، شیریں مزاری، عمران اسمعیل، عامر کیانی، علی زیدی، عارف علوی ،شفقت محمود سمیت پارٹی کے سارے بانی اراکین تائید کرتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں نعیم الحق نے بہت شدت سے فواد چوہدری کے موقف کی مخالفت کی اور اب ذرائع کے مطابق اُن کی کوششوں سے وزیر اعظم نے پی ٹی وی کے اختیارات کل کی کابینہ میٹنگ میں اپنے مشیر یوسف بیگ مرزا کے حوالے کردیے ہیں، یوسف بیگ پی ٹی وی میں وزیر کے اختیارات استعمال کریں گے جب کہ فواد چوہدری بطور وزیر صرف حکومتی امور کے ترجمان کے فرائض انجام دیں گے۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کے لیے اوپر ذکر کیے گئے اراکین کا خیال ہے کہ اُن کی قربانیاں اپنی جگہ مگر کیونکہ سپریم کورٹ نے اُن کے خلاف فیصلہ دیا ہے اور اب اگر اُس فیصلے کی پاسداری نہ کی گئی تو پارٹی کے منشور کی خلاف ورزی ہوگی لہٰذا جہانگیر ترین کو پارٹی کے معاملات تک تو ٹھیک ہے مگر حکومتی معاملات سے دور رہنا ہوگا۔ جہانگیر ترین کی حمایت میں ایک وفاقی وزیر بھی اکثر بولتے ہیں مگر بانی اراکین کا ان کے متعلق بھی یہ ہی خیال ہے کہ اُن پر نیب کے کیسز ہیں اور یہ پارٹی کی بنیادی سوچ کے خلاف ہے کہ اگر آپ پر کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں تو آپ حکومت کا حصہ ہوں۔ تاہم جہانگیر ترین کی قربانیاں پارٹی کے لیے لازوال ہیں اور اس کا عمران خان ہمیشہ ببانگ دہل اعتراف کرتے ہیں، کل کی کابینہ میٹنگ کے اختتام کے وقت وزیر اعظم نے جہانگیر ترین کی خدمات کو سراہا اور انھیں پارٹی کا بہت بڑا اثاثہ قرار دیا تاہم اس وقت میٹنگ میں شاہ محمود موجود نہیں تھے۔ شاہ محمود کو جہانگیر ترین پر اس لیے فوقیت مل جاتی ہے کیونکہ شاہ محمود پر کرپشن کے کسی بھی قسم کے چارجز نہیں ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ بہت سارے بانی اراکین اُن کی خاموش حمایت کرتے ہیں۔