• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گذشتہ کچھ عرصے سے کرکٹ کے سنسنی خیز مقابلے دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ پہلے دبئی میں پاکستان سپر لیگ کا انعقاد ہوا ۔ 4 فروری سے 23 فروری 2016 تک مسلسل 20 دن ’’ فل انٹرٹینمنٹ ‘‘ ملا ۔ اس کے بعد بنگلہ دیش میں ایشیا کپ ٹی 20 کے مقابلے شروع ہوئے ، جو 24 فروری سے 6 مارچ تک مسلسل 12 دن لوگوں کو تفریح فراہم کرتے رہے ۔ اب 8 مارچ سے بھارت میں ٹی 20 ورلڈ کپ کا انعقاد ہو رہا ہے ، جو 3 اپریل تک نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو محظوظ کرتا رہے گا ۔ کرکٹ میں پاکستان کے لوگوں کی غیر معمولی دلچسپی ہے ۔ ٹی 20 میچز میں سنسنی بھی زیادہ ہے اور تفریح بھی زیادہ ہے ۔ جب اس طرح کے میچز ہوتے ہیں تو لوگوں کی توجہ دیگر معاملات خصوصاً سیاست سے ہٹ جاتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان کے عوام سیاست میں بھی بہت گہری دلچسپی رکھتے ہیں لیکن اس مرتبہ مذکورہ بالا کرکٹ ٹورنامنٹس کے انعقاد کے دوران پاکستان میں ایسے سیاسی واقعات رونما ہوئے کہ لوگ کرکٹ کے سنسنی خیز لمحات کے دوران بھی اسپورٹس چینلز سے نیوز چینلز پر کلک کر جاتے تھے ۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بھی انتہائی سنسنی خیز واقعات رونما ہو رہے تھے اور کرکٹ کی کمنٹری کی طرح لوگ ان واقعات پر تبصرے بھی سننا چاہتے تھے ۔ اسی عرصے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف سے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کے اعلان کو قبل ازوقت قرار دے دیا ۔ بعد میں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے قائد الطاف حسین کی جانب سے فوج سے معافی مانگ لی ۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین قومی احتساب بیورو ( نیب ) کی کارروائیوں پر چیخ پڑے ۔ اچانک یہ خبر بھی ملی کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی ہے ۔ ممتاز قادری کا تایخی جنازہ ہوا پھر ایم کیو ایم کے منحرف رہنما سید مصطفی کمال اور انیس قائم خانی منظر عام پر آگئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ ان کا ضمیر جاگ گیا ہے ۔ ایم کیو ایم کے دیگر رہنما بھی پارٹی چھوڑ کر ان کے پاس آ رہے ہیں ۔ ان سیاسی واقعات کا کیا نتیجہ نکلے گا ، اس حوالے سے لوگ ایک سنسنی خیز کرکٹ میچ کے نتیجے سے زیادہ بے قرار ہیں ۔ اس پر ممتاز امریکی موسیقار ، نغمہ نگار اور اداکار فرینک زپا ( Frank Zappa ) کا ایک مشہور قول یاد آ رہا ہے کہ ’’ سیاست انڈسٹری کی ایک انٹرٹینمنٹ برانچ ہے ۔ ‘‘ یہ قول اس قدر مقبول ہوا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اس طرح کی سیاسی صورت حال پیدا ہوتی ہے ، اس قول کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ جب کوئی بات کسی ایک فرد سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد تک پہنچتی ہے تو وہ کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے ۔ یہی فرینک زپا کے ’’ قول زریں ‘‘ کے ساتھ ہوا ۔ بعد میں یہ قول تبدیل شدہ الفاظ کے ساتھ زیادہ مقبول ہو گیا کہ ’’ سیاست ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا انٹرٹینمنٹ ڈویژن ہے ۔ ‘‘ جب فرینک زپا کو یہ معلوم ہوا کہ ان کی بات میں تحریف ہو گئی ہے تو انہوں نے ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کی تصحیح کی اور کہا کہ میں نے صرف یہ بات کی تھی کہ ’’ سیاست انڈسٹری کی ایک انٹرٹینمنٹ برانچ ہے ۔ ‘‘ اس وضاحت کے باوجود فرینک زپا کے تحریف شدہ قول کو ہی ان سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ ان کا 1993 ء میں انتقال ہو چکا تھا ۔ اب وہ دوبارہ وضاحت کرنے نہیں آئیں گے ۔ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو ۔ آنجہانی فرینک زپا کا تعلق انٹرٹینمنٹ کے شعبہ سے تھا لیکن وہ سیاست سے بھی وابستہ رہے ۔ انہوں نے تاریخ ، فلسفہ اور انسانی نفسیات کا بہت گہرا مطالعہ کیا ۔ انہوں نے پیچیدہ فلسفیانہ اور نفسیاتی مسائل کو اپنی نغمہ نگاری اور موسیقی کے ذریعہ انٹرٹینمنٹ یعنی تفریح میں تبدیل کیا اور لوگوں کو محظوظ کیا ۔ سیاست میں وہ گئے تو انہیں انکشاف ہوا کہ سیاست انڈسٹری کی ایک انٹرٹینمنٹ برانچ ہے ۔ انڈسٹری یعنی صنعت سامراجی نظام معیشت کا منبع ہے ۔ غالباً اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے فرینک زپا نے صنعت کو ایسی طاقت قرار دیا ہو گا ، جو نہ صرف سیاست کو کنٹرول کرتی ہے بلکہ اسے اپنی تفریح کا ذریعہ بھی سمجھتی ہے ۔ ویسے بھی جمہوریت کو جدید سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت تصور کیا جاتا ہے ۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں چونکہ انڈسٹری نہیں ہوتی ہے اور وہاں سب سے بڑی طاقت فوج ہوتی ہے ۔ اسی لیے تیسری دنیا کے ممالک میں جمہوریت کی بجائے فوجی آمریت ہوتی ہے ۔ تیسری دنیا کے ممالک کے لوگوں نے فرینک زپا کے اس مقبول اور زریں قول میں شاید اس لیے تحریف اور تبدیلی کی ہو گی تاکہ اس قول کا ان پر بھی اطلاق ہو سکے ۔ فرینک زپا کی روح سے معافی مانگتے ہوئے پاکستان کے حالات کے مطابق اس قول کی تھوڑی سی مزید تحریف ضروری ہے کہ ’’ سیاست اسٹیبلشمنٹ کی انٹرٹینمنٹ برانچ ہے ۔ ‘‘
انٹرٹینمنٹ یا تفریح ایک ایسی سرگرمی ہے ، جس پر کسی ایک فرد یا افراد کی توجہ حاصل کی جائے اور اسے یا انہیں محظوظ کیا جائے ۔ بادشاہ ، حکمران اور طاقتور لوگ ہمیشہ اپنی تفریح کا اہتمام کرتے ہیں اور کبھی کبھی وہ عوام الناس کے لیے بھی تفریح کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور اس میں ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں ۔ اس مرتبہ سیاست میں عوام کے لیے بھی سنسنی اور انٹرٹینمنٹ ہے ۔ کرکٹ کی طرح سیاسی واقعات کے نتائج فوری نہیں آتے ہیں ۔ لوگ اندازے لگاتے رہتے ہیں کہ ان سیاسی واقعات کا کیا نتیجہ نکلے گا اور یہ بات بھی دلچسپی اور تفریح کا سبب ہے ۔ کرکٹ میں وہ لوگ زیادہ انٹرٹینمنٹ حاصل کرتے ہیں ، جنہیں کرکٹ کے ریکارڈز معلوم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح سیاسی واقعات کی سنسنی اور ممکنہ نتائج کے بارے میں قیاس آرائیوں سے محظوظ ہونا ہے تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں کے ٹریک ریکارڈز سے لازمی طور پر آگاہ ہونا چاہئے ۔ ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ پاکستان میں انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کو پہلے بھی ایک منصوبہ بندی کے تحت مضبوط کیا گیا اور اب بھی ایسا ہی ہو گا ۔ جمہوری قوتوں کو مزید کمزور کیا جائے گا کیونکہ جمہوری قوتوں نے حقیقی کھیل پر توجہ نہیں دی اور میچ اوراسپاٹ فکسنگ سمیت پیسہ کمانے کا ہر ذریعہ استعمال کیا ۔ کراچی کے حالات مزید خراب ہوں گے ۔ ملک میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہو گا اور سندھ سے شروع ہونے والا سیاسی عدم استحکام مرکز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا ۔ مذکورہ بالا سیاسی واقعات میں لوگ کرکٹ کی طرح الجھ گئے ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاست طاقتور حلقوں کا تفریح ( انٹرٹینمنٹ) کا ایک شعبہ ہے ۔
تازہ ترین