ہر سال 15؍مارچ کو صارفین کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے لائحہ عمل پر غور خوض کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صارفین کو ابھی تک اپنے حقوق کا علم نہیں ہوسکاہے۔میرپورخاص ڈویژن سمیت سندھ بھر میں صارفین کے ساتھ ظلم و زیادتیوں، منافع خوروں کی جانب سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے جب کہ کنزیومر ایکٹ پر آج تک عمل درآمد نہیں کیا جاسکا ۔ کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں ’’صارفین کے حقوق ‘‘ سے متعلق نام نہاد تنظیمیں موجودہیں لیکن وہ عوام کی بہبود کے لیے کام کرنے کی بجائے تاجر اور کاروباری حضرات کےمفاد میں کام کرتی ہیں جس کےعوض خطیر رقوم و دیگر فوائد حاصل کرتی ہیں۔کنزیومر ایسوسی ایشنز عوام میں شعور اجاگر کرنے کی بجائے، صارفین کےحقوق کے نام پر اپنے مفادات کے حصول میں مصروف رہتی ہیں اور ان کے عہدیدار سینٹرلی ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں جہازی سائز کی میزوں کے پیچھے بڑی سی ،ریوالونگ چیئرز پر بیٹھے مینوفیکچررز اور فیکٹری مالکان کے تحفظ کی منصوبہ بندی کرتے رہتےہیں۔
روزمرہ استعمال کی اشیاء کی گرانی اور ان میں پائے جانے والے نقائص کی صورت حال پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو عام صارف انتہائی مظلوم دکھائی دیتا ہے۔ اسے’’بین الاقوامی کنریومر رائٹس ایکٹ ‘‘کے تحت حاصل ہونے والے حقوق کا آج تک علم نہیں ہوسکا ہے، اس کے لیے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ صارفین کو مکمل طورسےدکانداروںاورکاروباری حضرات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ،کوئی ادارہ ایسا نہیں جو صارفین کے ساتھ لوٹ مار کرنے والوںکا محاسبہ کرے۔
ہر ملک میں قومی و مذہبی تہواروں کے موقع پر اشیائے خورو نوش و صرف کی قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے، لیکن ہمارے ملک میںرمضان المبارک ، عیدین اور اقلیتوں کے تہوار کے موقع پر تاجر طبقے کو عوام کی کھال کھینچنے کا مکمل اختیاردیا جاتا ہے جب کہ موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے بعد ہی سے عوام کو لاحق پریشانیوں کی طرف سے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے جب کہ ایک جانب سرکاری طور سے مہنگائی میں اضافہ کیا جارہا ہے جب کہ دوسری جانب چیک ینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے دکاندار حضرات ازخود اشیائے صرف و خورونوش کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ااس سلسلے میں نہ تو کوئی قانون سازی کی جاتی ہے اور نہ ہی ضابطہ اخلاق مرتب کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے دکاندار حضرات سال بھر کی کمائی رمضان جیسے مقدس اسلامی مہینے اور تہواروں کے ایام کے چند روز کے دوران کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غریب عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے کے بجائے نہ صرف روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں ہوش ربا حد تک بڑھا دی جاتی ہیں بلکہ ان کی ذخیرہ اندوزی کرکےمہنگے نرخوں پر فروخت کیا جاتا ہے جس کی وجہ سےمعمولی تنخواہ دار طبقہ اپنے بچوں کو عید سمیت دیگر تہواروں کی خوشیاں فراہم کرنے سے قاصر رہتا ہے، جو ایک بڑا قومی المیہ ہے۔ تہواروں کے علاوہ عام دنوں میں بھی مہنگائی کا یہی عالم رہتا ہے ۔ اس ملک میں صرف تاجر طبقے اور مینوفیکچرر حضرات کو نوازا جاتا ہے جب کہ صارفین کابری طرح سے استحصال کیا جاتاہے۔
ملک کے دیگر شہروں کی طرح میرپورخاص ضلع کے شہری ودیہی قصبات، شدید ترین مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں۔ ڈیری مصنوعات دودھ،دہی، سبزی، پھل سمیت تمام خوردنی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اشیائے خورونوش و صرف کی قیمتوں کی روک تھام کے لیے پرائس کنٹرول اتھارتی یا حکومتی رٹ کہیں بھی نظر نہیں آتی۔
سندھ اسمبلی نے فروری 2015میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے متفقہ طور سے ایک بل منظور کیا تھا ،جسے ’’سندھ کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2014 ‘‘یا تحفظ صارفین ایکٹ کانام دیا گیاتھاجس کے تحت صارفین کی شکایات کے ازالے کیلئے صوبہ بھر میں صارفین عدالتوں کا قیام عمل میں آنا تھا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ صارفین کےتحفظ کا قانون سب سے پہلےمحترمہ بے نظیر بھٹوشہیدنے1995میں بہ حیثیت وزیر اعظم، وفاقی سطح پر متعارف کروایا تھا ،لیکن اس وقت اس پر بیوروکریسی کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایاگیا تھاکہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کےمعاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ جس کے باعث حکومت نے اسے اسلام آباد اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں نافذ کردیا اور تمام صوبوں کو اس کا مسودہ بھیج دیا گیاتھا۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ صرف پنجاب ایسا صوبہ ہے جہاں صارفین کے تحفظ کا قانون موجود ہے۔ اس کے برعکس بلوچستان میں قانون تو موجود ہے تاہم اس پر بالکل بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ صوبہ خیبرپختون خوامیں اب تک صرف دس اضلاع میں اس کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے جن میں سے صرف چھ اضلاع میں اس پر عمل درآمد شروع ہو سکا ہے۔سب سے زیادہ دگرگوں صورتِ حال سندھ میں ہے جہاں اب تک اس سلسلے میں تین مرتبہ آرڈی ننسز کا اجراء ہوا مگر اسے قانون نہیں بنایا گیا اور یوں تینوں مرتبہ یہ ازخود اپنی اہمیت کھو بیٹھا۔
صارف کے حقوق دراصل آٹھ بنیادی نکات کا مجموعہ ہیں، جس میں اطمینان، حفاظت، انتخاب، معلومات، صحت مند ماحول اور شکایت کی صورت میں شنوائی اور ازالے کا حق شامل ہے۔لیکن ہمارے ملک میںعام صارف اپنے حقوق سے عمومی طور پرلاعلم ہے۔ روزانہ خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرنے والے کروڑوں صارفین کا قدم قدم پر استحصال ہوتا ہے لیکن صارفین کےحقوق سے متعلق شعور نہ ہونے کی وجہ سے وہ خاموشی کے ساتھ ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ ملک میں صارفین کے تحفظ کے لیے کنٹریکٹ ایکٹ، سیلز اینڈ گڈز ایکٹ سمیت دیگر قوانین موجود تو ہیں لیکن بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظران میں ایک طرف ترمیم کی اشد ضرورت ہے تو دوسری جانب عمل درآمد کی۔پاکستان کے آئین کے تحت صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنا صوبائی حکومتوںکی ذمہ داری ہے۔ 2015میں بل کی منظوری کے بعد اس نے باقاعدہ ایکٹ کی صورت اختیار کرلی ہے، لیکن اس ایکٹ کا حکومتی سطح پر اطلاق کرنے کے لیے کوئی بھی پیش رفت نہیں کی گئی اور کنزیومر کورٹس کا قیام عرصے تک تعطل کا شکار رہا۔انتہائی تگ و دو کے بعد 29میں سے صرف تین اضلاع میں کنزیومر کورٹس کا قیام عمل میں آیا لیکن رواں سال عالمی کنزیومر ڈے کے موقع پر صوبائی حکومت کے اعلان کےبعد13جنوری 2019کوچیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ، مسٹر جسٹس احمد علی ایم شیخ نے صوبے کےتمام اضلاع میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کیلئے عدالتیں قائم کرکے،(کنزیومر پروٹیکشن کورٹس) کیلئے سول ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹ تعینات کر دیئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ صارفین کی اپنے حقوق سے عدم آگہی کے باعث ان عدالتوں میں اب تک ایک مقدمہ بھی پیش نہیں ہوا ہے ۔ سندھ حکومت ، این جی اوز اور صارفین کے حقوق کی تنظیموں کو اس جانب بھی اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہئے اورصارفین میں اپنے حقوق کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ سے پروگرام نشر کرنا چاہئیں ، انہیں کنزیومر ایکٹ کے بارے میں آگہی فراہم کرنا چاہئے، ورنہ ان عدالتوں کا قیام بے سود ثابت ہو گا اور، صارفین منافع خوروں کے ہاتھوں بدستور استحصال کا شکاررہیں گے۔