اسلام آباد (نمائندہ جنگ) گھوٹکی کی دو بہنوں کے مذہب تبدیل کرنے کے معاملے پرسیکرٹری داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق لڑکیاں بالغ ہیں جن کی عمریں 19 اور 18 سال ہیں۔ بظاہر یہ زبردستی مذہب تبدیل کرانے کا کیس نہیں لگتا۔ عدالت عالیہ اسلام آباد کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ بات سامنے آ چکی کہ لڑکیاں بالغ ہیں اور مرضی سے مذہب تبدیل کیا ، اس لئے ان کو شوہروں کیساتھ جانے کی اجازت دے رہے ہیں،سندھ اس عدالت کے دائرہ اختیارمیں نہیں آتا،اقلیتوں کے حقوق کاتحفظ نظرآناچاہئے۔ فاضل چیف جسٹس نے انکوائری کمیشن سے 14 مئی تک رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ہندو مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہونے کے بعد پسند کی شادی کرنے والی دو بہنوں کو تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی سماعت کی۔ اس موقع پر سیکرٹری داخلہ ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ عدالتی احکامات کے مطابق لڑکیوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ عدالت نے ہمیں کمیشن اراکین کو اکٹھا کرنے کا بھی کہا تھا۔کمیشن کے دو اراکین ملک میں نہیں تھے باقی سب سے رابطہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اور آئی اے رحمن دونوں لڑکوں سے مل کر ان کی رائے جانیں گے جبکہ شیریں مزاری سمیت کمیشن کے دیگر اراکین لڑکیوں سے ملاقات کریں گے۔ بظاہر یہ زبردستی مذہب تبدیلی کا کیس نہیں لگتا۔