• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد رضوان

آصف ، احسن اور راحیل تینوں گہر ے دوست تھے۔ ان کے گھر بھی محلےمیں ایک ساتھ تھے اور وہ ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے ۔ ایک ساتھ وین میں اسکول جاتے۔ شام کو ٹیوشن بھی ایک ہی جگہ ساتھ جاتے تھے ۔ ان کے گھر والوں میں بھی کافی دوستی تھی۔ اتوار کے دن تینوں کے والدین نے پکنک پر جانے کا پروگرام بنایا۔ سارے بچے بہت خوش تھے،مگر احسن نے محسوس کیا کہ راحیل گم صم ہے۔ اسکول میں بریک میں جب بھی کینٹین آتے تو وہ بہت بولا کرتا تھا، جبکہ آج وہ کچھ پریشان اور خاموش تھا۔ وہ اپنی آئس کریم بھی نہیں کھا رہا تھا، جب کہ احسن اور آصف آئس کریم ختم کرچکے تھے۔

’’کیا بات ہےراحیل ، تم کوئی بات نہیں کررہے اور نہ ہی آئس کریم کھا رہے ہو۔ کوئی مسئلہ ہے تو ہمیں بتائو‘‘۔ احسن بولا۔ ’’ہاں پلیز ہمیں بتائو ہم تمہاری مدد کریں گے۔‘‘ آصف بولا۔

’’دراصل کل میرا پکنک پر جانے کا موڈ نہیں ہے میں نہیں جائوں گا۔‘‘ راحیل نے اداسی سے بولا۔ آصف اوراحسن ا اُسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ کوئی بڑا مسئلہ ہے، ورنہ وہ تو پکنک پربہت مزے کرتا ہے ، جب بھی کہیں جانے کا پروگرام بنتا تھا تو وہ سب سے آگے آگے رہتا تھا۔آصف نے نہ جانے کی وجہ پوچھی تو وہ ٹال مٹول سے کام لینے لگا۔ بالاخر جب انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو اس نے کہا، ’’میں اپنا جیب خرچ جمع کررہا ہوں، مجھے ان پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘

’’لیکن کس چیز کے لئےضرورت ہے ، تمہیں کیا خریدنا ہے‘‘،احسن نے پوچھا۔ ’’نہیں دوستوں، اپنے لئے کچھ نہیں خریدنا‘‘۔راحیل نے کہا۔

’’ پھر کس کے لئے‘‘ آصف اور احسن نے ایک ساتھ کہا۔

’’ہمارے گھر سے باسکٹ اٹھانے کے لئے جو لڑکا آتا ہے ، مجھے اسے دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ پھٹے ہوئے گندے میلے کپڑے پہنے ہوتا ہے اور تم لوگوں کو معلوم وے اس کے پاس پہننے کے لئے جوتے بھی نہیں ہیں۔‘‘راحیل کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’تو ہم اس کے لئے کیا کرسکتے ہیں، اور تم اتنا پریشان کیوں ہورہے ہو ، وہ تو کچرا اٹھاتا ہے، تمہارے امی، بابا اسے اس کام کے پیسے دیتے ہیں۔‘‘ احسن نے غصے سے کہا اور آصف نے بھی اس کی تائید کی۔ راحیل کو اپنے دوستوں کی باتیں سن کر بہت دکھ ہوا۔ اس کے پاس تو کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں ہوتا، ایک دن میں نے خود دیکھا اس نے کچرے کی ٹوکری سے گلا سڑا ہوا سیب نکال کر کھایا ۔راحیل بولا۔

’’تو تم اس کے لئے پکنک پر نہیں جارہے ہو؟‘‘ آصف بولا

میں پہلے بھی بتا چکا ہوں میں اپنی جیب خرچی جمع کررہا ہوں۔ وہ لڑکا پڑھنا چاہتا ہے خدا تعالیٰ نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے، کیا ہم اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتے؟ میں چاہتا ہوں تم دونوں بھی میرا ساتھ دو۔ ہم اس کے لئے کتابیں ، بستہ اور جوتے لیں گے۔ کتنا اچھا لگے گا جب اس کے ہاتھوں میں کتاب ہوگی۔راحیل نے بڑے جوش سے کہا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کی باتوں سےآصف اور احسن مان جائیں گے لیکن یہ اس کی خام خیال تھی۔آصف بولا ۔ ’’میں نے پہلے ہی فیصلہ کرلیا ہے کہ بابا نے جو پیسے مجھے پکنک پہ خرچ کرنے کے لئے دیئے ہیں، میں ان سے جھولا جھولوں گا۔

’’ہاں میں بھی ، میں تو گولگپے کھائوں گا، چاٹ، برگر۔ احسن کھانے کا بہت شوقین تھا، جہاں جاتا سیر ہو کر کھاتا ۔پکنک پہ جاکراسے کیا کھانا ہے اس نے پہلے سے ہی سوچ رکھا تھا۔

’’تم دونوں کتنے خودغرض ہو مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم اسی طرح کی باتیں کروگے ، وہ بھی تو ہماری طرح کا ایک بچہ ہے اس کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ بھی پڑھے لکھے، کچھ کر دکھائے لیکن وہ غریب ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔ ہمارے پاس اگر پیسے ہیں تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے۔ میں نے اپنے ٹیوٹر سے بھی بات کرلی ہے، انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ساتھ اس لڑکے کو بھی پڑھا دیا کریں گے اور فیس بھی نہیں لیں گے۔ تم لوگ میری مدد نہیں کرتے تو نہ کرو، میں جارہا ہوں۔‘‘ راحیل نے جاتے ہوئے کہا و احسن اورآصف نے اسے آواز دی ’’راحیل رکو،ہم تمہارے ساتھ ہیں‘۔‘ دونوں نے راحیل کو گلے سے لگا کر کہا تھی۔ بریک ختم ہوگئی تھی ۔ گھنٹی بجی تو وہ تینوں ہمیشہ کی طرح ایک ساتھ ہنستے بولتے جماعت میں چلے گئے۔

تازہ ترین