مختار احمد کھٹی ، ٹنڈو غلام علی
چند سالوں قبل تک ضلع بدین کو امن و امان کے حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل تھی اور اسے محبت و پیار کا گہوارا سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس علاقے میں بھی بے چینی اور بے سکونی نے ڈیرے ڈالنا شروع کردیئے ہیں۔ اس صورت حال کو بدین سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں کی امن عامہ کی صورت حال اور شہری مسائل سے عدم دل چسپی کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے۔
رواں سال مارچ میں اغواء کی متعدد وارداتیں بھی ہوئی ہیں۔بدین کے محلہ پیر عالیٰ شاہ کوٹ سے مبینہ طور پر دو بچیاں اغوا کرلی گئیں۔والدین کی اطلاع پر پولیس نے دو افراد کو گرفتار کر لیا لیکن مذکورہ بچیاں تاحال بازیاب نہ کرائی جاسکیں۔ محلہ داروں کا اغوء کے اس کیس کی بابت کہنا ہے کہ مذکورہ لڑکیاں اپنے والدین کی لاعلمی میں گھروں سے گئی ہیں۔اسی ماہ ضلع بدین کے ہی گاؤں جام پتافی سے 14 سالہ ہندو لڑکی مالا کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا ۔لڑکی کے والد نے الزام عائد کیا ہے کہ17 مارچ کو عمر کوٹ کے علاقے پتھورو کے رہائشی غلام حیدر تھہیم نے اس کی بیٹی مالا کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے اسلحے کے زور پر اغوا کیا ہے، تاہم پولیس کااس بارے میں کہنا تھا کہ کہ لڑکی نے17مارچ کو اسلام قبول کر کے سانگھڑ کی عدالت میں غلام حیدر تھہیم سے شادی کرلی ہے اور دونوں کا نکاح نامہ اور عدالتی بیان بھی سامنے آچکا ہے۔26 مارچ کو مقدمہ درج کرایا گیا اس لیے اب مالا کو بازیاب کرکے بیان کےلیے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
بدین میں ان دنوں منشیات کاکاروبار بھی عروج پر ہے۔ تاہم موجودہ ایس ایس پی بدین، حسن سردار نیازی کی جانب سے ضلع بھر میں منشیات کے اڈوں کےخلاف جاری آپریشن کے باعث منشیات فروشوں نے وہاں سے راہ فرار اختیار کی ۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہمنشیات کا کاروبار اب بھی جاری ہے۔ ڈرگز مافیا کے چند بااثر افرادانڈر گراؤنڈ ہوگئے ہیں اوراپنے سہولت کاروں کی مدد سے اس نیٹ ورک کی نگرانی کررہے ہیں۔باخبر ذرائع کے مطابق ، ایس ایس پی کے احکامات پر کیے جانے والے آپریشنز سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے، اس کی بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ منشیات فروشوں کو اپنے خلاف ہونے والے پولیس کارروائیوں کی اطلاعات پیشگی مل جاتی ہیں جس کے بعد وہ منشیات کے تھیلوں سمیت زیر زمین چلے جاتے ہیں۔دوسری جانب عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پولیس منشیات کے بڑے تاجروں کی جگہ عام دکانداروں پر ہلہ بول کر کارکردگی دکھانے میں مشغول ہے ۔
ملک کے دیگر شہروں کی طرح ضلع بدین میں بھی بھوک اور افلاس کا شکار لوگوں میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گاوٗں سومار چانڈیو میں پیش آیا جہاں 3 بچوں کے باپ لوجی بجانو نے بچوںکی بھوک مٹانے میں ناکمی پرگھر کی چھت میں پھندہ لگا کر مبینہ طور سے خودکشی کرلی۔اس کے بھائی اجے کی اطلاع پر پولیس نےنعش تحویل میں لے کر پوسٹمارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردی۔
چند روز قبل پیاس سے بے حال عوام نے شہر کا پہیہ جام کردیا۔ نمائندہ جنگ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ، پانی کی قلت اور چوری کے خاتمے کے لئے آبپاشی ماہر، ادریس راجپوت کی سربراہی میں کمیٹی کے پہلے اجلاس کے موقع پر دس ماہ سے جاری نہری پانی کی قلت اور پانی چوری کے خلاف ضلع بچاؤ کمیٹی اور کاشتکاروں کی اپیل پر ضلع بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔ اس موقع پر احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیئے گئے۔
ہڑتال کے باعث بدین تلہار ٹنڈوباگو گولارچی پنگریو کڑیو گھنور، سیرانی، کڈھن اور دیگر شہروں اور قصبوں میں کاروباری مراکز بند رہے۔ آبادگاروں اور شہریوں کی جانب سے اس موقع پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور دھرنا دے کر روڈ بلاک اور احتجاج بھی کیا گیا جس کے باعث سڑکوں سے ٹریفک غائب رہی جبکہ تھرپارکر، کراچی، حیدرآباد کے روٹس پر چلنے والی مسافر گاڑیوں کی عدم دستیابی کے باعث مسافروں کو پریشانی کا سامنا دوسری جانب پانی کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاجی مہم کا سلسلہ گزشتہ تین ماہ سے جاری ہےلیکن صوبائی حکومت کی جانب سے پانی کی قلت اور چوری کے خاتمے کے لیے آبپاشی ماہر ادریس راجپوت کی سربراہی میں کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ ضلع بدین کی انسانی آبادی سمیت چرند، پرند کا انحصار نہری پانی پر ہ ے لیکن عوامی نمائندوں، این جی اوز اور سرکاری حکام نے اس مسئلے پر چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔۔