سندھ کا خطہ صدیوں سےقبائلی جنگ و جدل کا میدان بنا ہوا ہے ، خاص کر اس کے نصف درجن اضلاع مختلف قبائل کی دیرینہ دشمنیوں کی وجہ سے زیادہ متاثر ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران مختلف برادریوںکے درمیان ڈیڑھ ہزار سے زیادہ خونی تصادم ہوئے جن میںہزاروں افرادمارے جاچکے ہیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تعداد ان بے گناہ لوگوں کی تھی جن کا کسی بھی قسم کےتنازع سے کوئی واسطہ نہیں تھا، لیکن وہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان تنازعات کا زیادہ ترسبب چھوٹے چھوٹے معامات بنتے ہیں، جن میںزمین کی حقِ ملکیت، بھینس، گائے یا ٹریکٹر کی چوری ، کارو کاری، پانی کی تقسیم،بغیر اجازت زمین سے گزرنے اور لڑکے اور لڑکی کی مرضی سے شادی سے شروع ہوتے ہیں اور بعد میں بڑھ کر ازلی دشمنیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔سندھ میں کئی درجن سے زائد قبائل اور برادریاں رہائش پذیر ہیں، جن کے سرداروں میں سے بیشترصوبائی اور قومی اسمبلیوں یا سینیٹ کے ارکان ہیںجن میں سے کچھ حکومت کا حصہ بھی ہیں۔ ان تنازعات میں جہاں معصوم لوگوں کی ہلاکتیں ہوتی ہیں، وہیں متحارب قبائل کے افراد کے کاروبار اور بچوں کی تعلیم بھی سخت متاثر ہورہی ہے۔کئی تنازعات کا جرگوں کے ذریعے تصفیہ بھی ہوا ہے جن میں بعض قبائل پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے گئےتھے، مگرجرگے میں ہونے والے فیصلے بھی پائیدار ثابت نہیں ہوئے ۔ قبائلی تنازعات کی وجہ سے کئی علاقے مخالف قبائل کے لیے نوگو ایریا بنے ہوئے ہیں جب عوام کی بڑی تعداد مخدوش علاقوں سے نقل مکانی کرکے دیگر شہروں میں منتقل ہوچکی ہے۔
اگست 2017میںسکھر کے کچے کے علاقے میں ائرپورٹ وائربیس کے قریب کچے کے علاقےسانگی پنھوارمیں رہائش پذیرمہر وگھمر قبائل کے درمیان تصادم میں 6 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اس حساس علاقے میں خطرناک ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ اس تشویش کن صورت حال کی وجہ سے پورے علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا۔کاروبار متاثرہوا، دکانیں بند،ہوگئیں، طلبہ وطالبات اسکول نہیں جاسکے جب کہ مریضوں کو اسپتال تک پہنچانے میں مشکلات درپیش رہیں۔
سندھ میں اس جنگ و جدل کے خاتمے، انسانی جانوں کوقبائلی تنازعات کی بھینٹ چڑھنے سے بچانے اور خطے میں امن و آشتی کی بحالی کے لیے مختلف ادوار میں پولیس کی جانب سے اقدامات کیے جاتے رہے جو دورررس ثابت نہیں ہوسکے۔
حال ہی میں سندھ پولیس کے سربراہ ڈاکٹر کلیم امام نے قبائل کے درمیان دیرینہ دشمنیاں ختم کرانے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے قبائلی تنازعات کو افہام و تفہیم سے حل کرانے اور خون ریزی میں ملوث عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کے لئے افسران کو سخت احکامات جاری کیے ہیں۔آئی جی کی ہدایات کے بعد ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن بھی قبائلی تنازعات کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لئے متحرک ہوگئے۔ افسران بالا کے احکامات پر کشمور پولیس نے 30سال سے جاری خونی تنازع کا تصفیہ کرادیا اور پولیس کی کاوشوں کے سبب فریقین باہمی رضامندی سے صلح کرکے شیر و شکر ہوگئے ہیں۔
وادی مہران جو کہ صوفیائے کرام اوراولیاء اللہ کی سرزمین ہے، جنہوں نے اپنی تعلیمات میں یہاں کے باسیوں کو آمن و آشتی، بھائی چارے، مذہبی ہم آہنگی کا درس دیا مگر بعض شرپسند و مفادپرست عناصر نے یہاں قبائلی و خاندانی تنازعات کو فروغ دیا اور اسے ہوا دے کرخطے کا سب سے سنگین مسئلہ بنادیا ہے۔ موجود دورمیں قبائلی تنازعات کی جڑیں اس قدر گہری ہوچکی ہیں کہ سالہا سال اور نسل در نسل چلنے والے تنازعات قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے باوجود ختم نہیں ہورہے ہیں۔ خاص طور پر سکھر، لاڑکانہ رینج کے مختلف اضلاع گھوٹکی، خیرپور، کشمور، شکارپور ان تنازعات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، جہاں مختلف قبائل اور برادریوں کے درمیان برسوں سےجاری تنازعات و تصادم میں متعدد قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ سندھ میں قبائلی تنازعات کی اصل وجہ ان علاقوں کی پسماندگی اور جہالت ہے۔
لیکن اب سندھ میں بھڑکنے والی قبائلی تنازعات کی آگ کو سردکرنے کے لئے سندھ پولیس نے نئی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ متحارب قبائل کے معززین کو جنگ و جدل اور یرینہ دشمنیوں کے نقصانات ذہن نشین کراکے، فریقین کو باہمی رضا مندی سے صلح کے بعد شیر و شکر کرانے اور قبائلی جھگڑوں میں ملوث عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کے لئے پولیس افسران کو ٹاسک دیا گیا۔ ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن ڈاکٹر جمیل احمد کی جانب سے بھی قبائلی تنازعات کے خاتمے پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے، اے آئی جی نے سکھر ریجن کے 8 اضلاع خاص طور پر کشمور، خیرپور، گھوٹکی، شکارپور،اور ان تمام ضلاع جہاںقبائلی تنازعات زیادہ ہیں، کے پولیس افسران کو ہدایات دی ہیں کہ قبائلی تنازعات کو ختم کرانے میں پولیس اپنا کردار ادا کریں، جو لوگ ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، کسی بھی علاقے میں قبائلی تنازعات کی وجہ سے معمولات زندگی متاثر نہیں ہونی چاہئیں۔
ایڈیشنل آئی جی کی کوششوں کے بعد سکھر ریجن کے ضلع کشمور پولیس کی جانب سے قبائلی تنازعات کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی کشمور سید اسد رضا شاہ نے جنگ کو بتایا کہ ضلع کشمور میں بجارانی، تیغانی، چاچڑ، جاگیرانی، شر کوش، ڈومکی سمیت 6سے 8قبائل کے درمیان خونی تنازعات چل رہے ہیں، آئی جی سندھ کی جانب سے ملنے والے احکامات پر ہم نے کوششیں شروع کردی ہیں اور ڈومکی قبائل کی دو برادریوں کے درمیان 30سال سے جاری پرانے تنازع کو حل بھی کرادیا گیا ہے۔اس تنازع میں دونوں فریقین کے 25سے زائد افراد موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ پولیس حکام نے قبائلی عمائدین کو اپنے دفتر میں طلب کرکے انہیں قبائلی تنازعات کے نقصانات کے حوالے سے آگاہ کیا اور انہیں ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل اور صلح کرنے کی ترغیب دلائی، جس پر فریقین نے باہمی رضامندی سےصلح کرکے تنازع کے خاتمے کا اعلان کیا اور آپس میں شیر و شکر ہوگئے۔
عوامی حلقے آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی سکھر کی کوششوں کوسراہ رہے ہیں لیکن بعضٗ سیاسی و سماجی تنظیمیں سندھ پولیس کےمذکورہ اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متحارب قبائل کے درمیان اس نوع کے تصفیے، اس سے قبل بھی کرائے جا چکے ہیں،جو دوررس نتائج کے حامل نہیں ہوسکے اور کچھ عرصے بعداپنی افادیت کھو بیٹھے۔سول سوسائٹی کے بعض افرادنے تجویز پیش کی ہے کہ پولیس حکام کے ہر چند ماہ بعد تبادلوں کا سلسلہ ختم ہوناچاہئے اور انہیں طویل مدت تک اپنے فرائض کی انجام دہی کا موقع فراہم کیاجانا چاہئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قیام سے قبل انگریزوں کے دور میں بھی سندھ اور بلوچستان میں قبائلی تنازعات موجود تھے جن کی وجہ سےاکثر خونی تصادم بھی ہوتے تھے۔ان کی روک تھام کے لیے انگریز سرکار نے کچھ سرکش قبائل کو باغی اور شرپسند عناصر قرار دے کر ان کی نقل وحرکت پر کڑی نظر رکھی تھی۔ ان قبائل کوان کی علاقائی حدود تک محدود کردیا تھا۔ ضلعی پولیس کا سربراہ جو ایس پی رینک کا افسر ہوتا تھا، اپنے ضلع کے قبائل کی ہر حرکت پر نہ صرف نظر رکھتا تھا بلکہ ان کو پُرامن رکھنے کے لیے پولیس افسران کو ذمہ داریاں بھی سونپی جاتی تھیں۔ رپورٹ میں تنازعات پر کنٹرول رکھنے کے پولیس اکی مجموعی کارکردگی کے ساتھ مزید اقدامات کا وعدہ بھی کیا جاتا تھا۔ یہ رپورٹ ضلعی مجسٹریٹ کے توسط سے ہر سال مارچ کی پہلی تاریخ کو انگریز سرکار کو بھجوائی جاتی تھی۔تمام پولیس افسران اپنی انتظامی حدود میں قبائلی گروہوں کو پُرامن رکھنے کے لیے بروقت اقدامات کرتےتھے۔ انہوں نے خانہ جنگی کی کیفیت میں مبتلا علاقوںمیںجاسوسوں کا جال بچھایا ہوا تھا۔ انہیںجیسے ہی اپنے مخبروں کے ذریعے،متحارب قبائل کے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بند ہونے کی طلاع ملتی تھی، ویسے ہی پولیس حکام متحارب قبائل کے سرداروں کو بلا کران کی وجہ تنازع معلوم کرکے ، جس قبیلے کے افرادکا قصور ثابت ہوتا تھا، اس پر ہرجانہ عائد کر کے متاثرہ قبیلے سے انصاف کرتے ہوئے فریقین کے درمیان مصالحت کرا دیتے تھے۔ اگر کوئی قبیلہ ہٹ دھرمی دکھاتا اور پولیس حکام کی طلبی پربھی نہ آتا یا راضی نامہ کرنے پر آمادہ نہ ہوتا تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جاتی تھی۔انگریز حکومت کے دور میںضلعی مجسٹریٹ ،ضلع بھر کے انتظام و انصرام کا ذمہ دارہوتا تھا۔ اس کے رعب اور دبدبے سے سرکش سردار بھی گھبراتے تھے اور اپنے باغیانہ روئیے سے بازرہتے تھے۔ اگر کسی علاقے میں قبائلی تصادم کا خطرہ ہوتا تھا تو ضلعی مجسٹریٹ اور پولیس کا ضلعی سربراہ،، کرمنل پروسیجر کوڈ کی شق 107/51 کے تحت پیشگی کارروائی کر کے معاملہ نمٹادیتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اکیسویں صدی کے اوائل تک قبائلی تنازعات ضلعی حکام کے کنٹرول میں رہتے تھے لیکن جب سے پولیس آرڈر 2002ء کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا کردارختم ہوا ہے،اس وقت ے قبائلی اور برادریوں کے تنازعات میں شدّت پیدا ہوئی ہے۔ اب جو ڈی پی اوز اور ڈی آئی جیز آتے ہیں، وہ اپنی تعیناتی کے کچھ عرصے بعد ہی تبادلوں کی وجہ سے قبائلی سرداروں اور بارسوخ افراد کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے ان کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں۔