• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلو اچھا ہوا میاں صاحب ’’نظریاتی‘‘ ہوتے ہوتے رہ گئے اور لگتا ہے چھوٹے بھائی کے بیانیہ کو ہی مناسب جانا ورنہ جی ٹی روڈ کے بعد تو یہ لگ رہا تھا کہ انقلاب اب آنے کو ہے۔ ہم نے سمجھایا کہ یہ واپسی کا سفر ہے مگر انہوں نے ایک کوشش ضرور کی۔ نااہلی کے بعد سزا اور اب نظریں نظرثاتی کی اپیل پر! دیکھیں بات کہاں جاکر رکتی ہے۔

بات ہورہی تھی ’’نظریاتی‘‘ ہونے کی۔ ہمارے بعض دوست بہت خوش تھے جب میاں صاحب نے نعرہ لگایا کہ ’’اب میں نظریاتی ہوگیا ہوں۔‘‘ مجھے یہ سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ میاں صاحب کے کیمپ سے چوہدری نثار باہر اور پرویز رشید اندر آگئے ہیں۔ شاید میاں صاحب یا مسلم لیگ (ن) کے دوستوں کو پتا نہ ہو مگر 80ء کی دہائی میں بائیں بازو کے دوستوں میں یہ بحث چل پڑی کہ جاگیردارانہ سیاست کے مقابلے میں سرمایہ دار کی حمایت صنعتی انقلاب کی جانب قدم ہے اور کچھ دوستوں نے شریف برادران کی حمایت کا فیصلہ کیا جن میں کچھ دانشور بھی شامل تھے۔ کئی پی پی پی کے لوگ خاص کر پنجاب میں مسلم لیگ میں چلے گئے۔ یقین جانیں میاں صاحب کو 2016ء تک اس بحث کا پتا نہیں تھا۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ جب بھی حکومت جاتی تو انہیں انقلاب کی یاد آتی۔

مجھے یاد ہے 12؍اکتوبر 1999ء میں جب انہیں حراست میں لیا گیا تو وزیراعظم ہائوس میں ان کے اور کچھ دیگر رہنمائوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا اور پھر جب انہیں اسلام آباد سے کراچی منتقل کیا جارہا تھا، ہائی جیکنگ کیس کیلئے! مجھے کراچی ایئرپورٹ کا وہ منظر بھی یاد ہے جب جنرل مشرف کا جہاز اترا اور وہ بھی جب میاں صاحب کو لایا گیا ، اس دن بھی میں عدالت میں ہی تھا اپنے درجنوں صحافی دوستوں کے ساتھ! جب جناب جسٹس (ر) رحمت حسین جعفری نے فیصلہ سناتے وقت تمام کو بری کردیا ماسوائے میاں صاحب کے جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

شاید بات ’’ڈیل‘‘ تک نہ جاتی اگر وفاق ان کی سزا عمر قید سے پھانسی کی نہ کرتا۔ اب میاں صاحب منصور یا بھٹو تو نہیں ہیں اور اس وقت تو نظریاتی کا بخار بھی نہیں تھا۔ بہرحال کچھ عرصے لانڈھی جیل میں رہنا پڑا جہاں ان کو دوسرے قیدیوں سے الگ رکھا گیا۔ سنا ہے ایک بیرک سے گانے کی آوازیں ضرور آتی تھیں۔ پھر انہوں نے دس سال تک سیاست نہ کرنے اور پورے خاندان کے ساتھ سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا اور وہ بھی ایک راضی نامے کے تحت جس سے نہ صرف ان کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی مگر وہ لوگ جو سمجھ رہے تھے کہ شاید اس بار وہ کھڑے رہیں گے، وہ مایوس ہوئے۔اپریل 2016ء میں پانامہ لیکس سامنے آئیں تو وہ وزیراعظم تھے۔پوری پارلیمنٹ آپ کے پیچھے کھڑی ہو اور آپ خود سب سے پیچھے جاکر کھڑے ہوجائیں یا دوسرا راستہ لے لیں تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔

میاں صاحب ’’نظریاتی‘‘ ہوجاتے اگر وہ بچوں کے نام آنے پر اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دیتے اور بات پارلیمنٹ پرچھوڑ دیتے۔ بات سنگین سے سنگین ہوتی چلی گئی اور میاں صاحب دلدل میں پھنستے چلے گئے۔ 25؍جولائی 2017ء کو اعلیٰ عدلیہ نے انہیں نااہل قرار دے دیا اور فیصلہ بھی اتنا سخت کہ پارٹی مشکل میں آگئی۔ اس وقت انہوں نے نظریاتی ہونے کا اعلان کیا جب آپ انتخابی سیاست سے ہی بے دخل ہوگئے تو اخلاقی، قانونی اور سیاسی جواز کمزور پڑ جاتا ہے۔جی ٹی روڈ کا سفر شروع ہوا تو ایسا لگا کہ میاں صاحب اب دوبارہ وزیراعظم بن کر ہی جاتی امراء جائیں گے۔ اب پارلیمنٹ تو کیا ان کی اپنی جماعت بھی پوری طرح ان کے پیچھے آ کر نہ کھڑی ہوئی۔ وہ ایک بڑا بیانیہ بناتے بناتے رہ گئے پھر

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

اب میاں صاحب کی زندگی کا سب سے اہم سیاسی مرحلہ ہے۔ وہ نااہل بھی ہیں اور سزا یافتہ بھی اور سب کی نظریں سپریم کورٹ میں دائر نظرثانی اپیل پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر فیصلہ برقرار رہتا ہے تو مسلم لیگ کی سیاست میں ’’شہباز بیانیہ‘‘ مضبوط ہوگا۔ اگر سزا ختم اور بحالی ہوجاتی ہے تو ان کیلئے نظر آتی سیاست میں ’’نظریاتی‘‘ ہونے کا امکان برقرار رہے گا۔انہوں نے 34؍سالوں میں سیاست کا عروج بھی دیکھا ہے اور زوال بھی! اچھا وقت بھی دیکھا ہے اور برا وقت بھی! ایوان اقتدار میں بھی رہے، سلاخوں کے پیچھے بھی! تین بار اقتدار انہیں منتقل ہوا اور اتنی ہی بار بے دخلی بھی! لیکن سبق بہرحال شریف فیملی نے نہیں سیکھا ورنہ 1988ء کی غلطی 1990ء میں نہ کرتے۔ 1997ء کی غلطی 1999ء میں نہ دہراتے۔ پاکستان کی سیاست میں سب کچھ ممکن مگر شاید ’’نظریاتی سیاست‘‘ کی واپسی کے امکانات نہیں کیونکہ اب نہ اس طرح کے لیڈر موجود ہیں نہ ہی کارکن اور اب تو وہ جماعتیں بھی اس سے تائب ہوگئی ہیں جو کبھی اپنے آپ کو ’’نظریاتی‘‘ کہتی یا سمجھتی تھیں۔

اس ملک میں واحد مضبوط نظریہ صرف اور صرف ’’نظریہ ضرورت‘‘ ہے جو نہ کبھی ختم ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ نظریاتی لوگ غدار ٹھہرائے جاتے ہیں۔

اب تو میرا انتہائی عاجزانہ مشورہ ہے اور وہ بھی مفت… میاں صاحب! اپنی یادداشتیں لکھیں۔ آپ اکثر کہتے تھے کہ میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ خاموشی سے کچھ لکھ ڈالیں، ایک یا دو کتابیں!

تازہ ترین