• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عرض تمنا … خالد محمود جونوی
پیٹربرا کے مقامی انتخابات میں60کے ایوان میں اس مرتبہ2مئی کو20نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں۔ جن میں مختلف وارڈز سے پاکستانی و کشمیری امیدوار بھی اپنی اپنی قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ پیٹر برا سٹی کونسل میں اس وقت دس پاکستانی کونسلرز کمیونٹی کی نمائندگی کررہے ہیں، توقع ہے کہ نئے انتخابات نتائج کے بعد ان میں مزید اضافہ ہوگا۔ جبکہ انتخابی عمل مکمل ہونے کے فوراً بعد کونسلر گل نواز خان جن کا تعلق کنزرویٹو پارٹی سے ہے، شہر کے آئندہ میئر کا حلف بھی اٹھائیں گے۔ یوں انہیں پیٹربرا کے تیسرے مسلمان میئر کا اعزاز بھی حاصل ہوگا۔ کمیونٹی کے اکثریتی علاقے سینٹرل وارڈ سے کونسلر محمد جمیل اپنی نشست کا دفاع کررہے ہیں، ان کا مقابلہ کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار خضر سلیمان سے ہوگا۔ نارتھ وارڈ سے کونسلر عنصر علی بھی اپنی نشست کا دفاع کررہے ہیں۔ کنزرویٹو پارٹی کے حق نواز خان ان کے مدمقابل ہیں جبکہ کمیونٹی کی تیسری اکثریتی وارڈ میں لیبر پارٹی کی ڈاکٹر شبینہ اسد قیوم اور کنزرویٹو پارٹی کے محمد اکرام کے درمیان کانٹے دار مقابلے کا رجحان چل رہا ہے۔ یارک وارڈ سے لیبر پارٹی کی اقرا یٰسین کا مقابلہ کنزرویٹو پارٹی کے جان پیچ سے ہے۔ وحید فضل ہمپٹن سے جبکہ جنید بھٹی والٹن اگنتھورپ سے بھی امیدوار ہیں۔ یوں تو پاکستانی نژاد امیدوار جتنے بھی مقابلے میں شریک ہیں سب اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کررہے ہیں، مگر ان میں چند ہی امیدوار کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جوں جوں انتخابی عمل کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے، سیاسی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انگریز کمیونٹی کے علاقوں میں یہ سلسلے تو حتمی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی شروع ہوتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں الیکشن کے فوراً بعد دوسرے کی راہیں ہموار کرنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں، انتخابی مہم کے دوران شہر کے طول و عرض میں امیدواروں کا ایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالنے کے عمل کو کمیونٹی نے سخت ناپسند کیا ہے، بلکہ بالخصوص سوشل میڈیا پر اخلاق سے گری ہوئی باتیں اور ذاتیات پر حملے انتہائی افسوسناک ہیں۔ کمیونٹی کے سنجیدہ رہنمائوں کا کہنا تھا کہ اپنی پارٹی کے نظریات اور منشور عوام تک ضرور پہنچائیں، لیکن ایسے اقدامات سے گریز کریں جو کمیونٹی کی بدنامی کا باعث بن رہے ہوں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں انتخابی بے ضابطگیوں کے باعث پولیس اور الیکٹرول بورڈ ساری صورتحال پہ کڑی نظر رکھے ہوئے ہے، ہر انتخابی عمل میں ہماری اکثریتیں وارڈز کے پولنگ اسٹیشن کی جدید ذرائع ٹیکنالوجی کے ساتھ مکمل نگرانی کی جاتی ہے اگر ارباب اختیار اس سلسلے میں دانشمندی کا مظاہرہ کریں تو اس قسم کی افسوسناک صورتحال کا تدارک ممکن ہے، مگر اس کے برعکس پاکستان و کشمیر کی روایتی سیاست کے ہتھکنڈے کسی نہ کسی طرح یہاں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ کنبے، قبیلے اور علاقے کی نسبت سے لے کر اب تو پاک و کشمیر کے سیاستدانوں ہی کے ذریعے مقامی رائے دہندگان کی ہمدردیاں حاصل کی جارہی ہیں ایسے میں پارٹی اور اس کے نظریات ثانوی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں۔ مقامی اتھارٹی میں اگرچہ ٹوری پارٹی کا کنٹرول ہے جو شاید انتخابی نتائج کے بعد نہ رہے مرکزی حکومت کی ناقص کارکردگی بالخصوص بریگزیٹ کے معاملے میں بحران میں مبتلا ہونا جہاں مقامی سطح پر ٹوری پارٹی کے امیدواروں کو لوگوں کو قائل کرنا مشکل ہورہا ہے وہاں لیبر پارٹی کی مقامی ایم پی فیونا انسونیا کو تیز رفتاری کے جرم کے دوران جھوٹ بولنے اور انصاف کی راہ میں روڑے اٹکائے جانے کے باعث جیل کی سزا سنائی تھی وہاں لیبر پارٹی نے ان کی پارٹی کی رکنیت معطل کر رکھی ہے اور یہ بات بھی کسی حد تک لیبر پارٹی کے خلاف جاتی ہے۔ البتہ اس سارے پہلو میں خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس وقت کمیونٹی نے شہر کے مختلف علاقوں میں سیاسی بساط بچھائی۔ ایسے علاقوں میں بھی امیدوار اتارے جہاں اکثریت نہ سہی مگر وہاں کے ووٹر ہمیشہ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں، یہ تجربہ خوب کامیاب رہا جس کے باعث لیبر اور ٹوری پارٹی کے پلیٹ فارم پر دس پاکستانی امیدوار کمیونٹی کی نمائندگی کررہے ہیں۔ المختصر پہلے پہل تو انتخابی میدان میں امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا کرتا تھا شاید کچھ علاقوں میں آج بھی ایسے ہی ہوتا ہو، مقامی سطح پر اپنی کمیونٹی میں صورتحال قدرے مختلف ہے جہاں امیدواروں کی بجائے ان کے حمایتیوں میں مقابلہ ہوتا ہے کہ وہ جس کے ساتھ ہوں وہ کامیاب ہوتا ہے۔
تازہ ترین