وسیع البنیاد تیزی سے ابھرتا ہوا روشن خیال، جدید، متحرک اور عالمی طور پر خوشحالی کا پیامبر جانا جانے والا متوسط طبقہ کسی بھی ملک کے لئے نیک شگون سمجھا جاتا ہے تاہم کسی بھی معاشرے میں ایسے طبقے کا تعین اور حتمی تجزیہ جو اس کی اقدار اور آرزوؤں کا محافظ ہو، ایک مشکل عمل ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متوسط طبقہ مقابلتاً اپنے اثر و نفوذ اور اہمیت کے لحاظ سے سماج کا فعال ترین عنصر ہے۔ قابل خرچ آمدنی اور اس سے متعین ہونے والی قوت خرید معاشرتی رجحان کا صرف ایک پہلو ہے۔ مجھ سمیت بہت سے ماہرین عمرانیات کا خیال ہے کہ پاکستان کا متوسط طبقہ کالج اور یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم کا خواہشمند، کشادہ اقدار کے حامل متوازن اور منصف معاشرے کا آرزو مند اور شفاف و جمہوری حکومت کے قیام کے گہرے شعور کا مالک ہے ۔ اس خوش خیالی سے کئی سوال جنم لیتے ہیں مثلاً متوسط طبقہ کسی بھی سماج بالخصوص پاکستانی معاشرے کے تناظر میں اپنے جذبات و مقاصد کا اظہار کیسے کرتا ہے؟ کس طرح ایک الجھے ہوئے گلوبل سماج میں اعلیٰ تعلیم ان کی امنگوں کی مظہر اور مقاصد کا محور و مرکز بنتی ہے؟ عالمی معاشی نظام کے تناظر میں مہارتوں کی حامل اعلیٰ تعلیم پاکستانی متوسط طبقہ کے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے؟ ایسے ہی چند سوالات ہیں جن کا جواب آئندہ سطور میں تلاش کرنے کی سعی کروں گا۔
ایشیاء میں بڑھتے ہوئے متوسط طبقہ کے حوالے سے ADB کے ایک جائزہ کے مطابق پاکستان کا متوسط طبقہ ملکی آبادی کا چالیس فیصد ہو گیا ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا متوسط طبقہ بیس فیصد ہے۔ شماریات کے مطابق 1990ء سے ہمارے متوسط طبقہ کی ترقی 36.5 فیصد ہے جبکہ اس کے مقابل بھارت کی ترقی12.8 فیصد ہے ۔ دورِ حاضر کے معاشروں میں متوسط طبقہ کا عروج صارف معاشرے کے طور پر ہوا ہے۔ اشیائے صرف کی کھپت کے ضمن میں متوسط طبقہ ہمارے سماجی و تہذیبی منظرنامہ کا بڑی تیزی سے حصہ بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کا متوط طبقہ اپنے اطوار، حیات اور جذبات و خواہشات کے لحاظ سے مختلف حصوں میں تقسیم ہے۔ شہری سہولتوں سے آشنا نوجوان نسل متوسط طبقہ کا ایک معتدبہ حصہ ہے ۔ ان کی امنگیں اور ارمان ایک روشن اور ترقی یافتہ مستقبل کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ نوجوان ترقی کے سفر میں معاشرتی اور معاشی مستقبل کا حصہ بننے کے لئے کثیر سرمایہ کے حصول کے خواہشمند بھی ہیں تاہم فی الوقت پاکستانی متوسط طبقہ کو مجموعی طور پر ایک مخدوش اور غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے اسی سے نکلنے کے لئے یہ طبقہ اپنی قوت خرید اور ضروریات زندگی کے درمیان توازن رکھنے کے لئے موزوں روزگار کے حصول کے لئے دیوانہ وار کوشاں ہے۔ ”پاکستان: اگلی نسل“ جیسے جائزوں کے مطابق شہری متوسط طبقہ مستقبل کے بارے میں کشمکش اور الجھن کا شکار ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جہد مسلسل سے ان کا مستقبل ترقی اور خوشحالی کا حامل اور تابناک ہو سکتا ہے تاہم یہ خوف بھی ہے کہ بے ثمر کاوشوں سے نامرادیوں کی منزل ان کی ساری زندگی اکارت جانے کا سبب بھی ہو سکتی ہے۔ فکری دوراہے پر کھڑے اس طبقے کو درحقیقت عصری ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ فوری طور پر انہیں مارکیٹ کی ضرورتوں کے قالب میں ڈھلی پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے جو روزگار کی ضامن ہو۔ اس طبقہ کو تیزی سے ابھرتے ہوئے گلوبل ہائی ٹیک معاشی نظام میں مہارتوں کی حامل ایسی تعلیم درکار ہے جو مقابلے کی ثقافت میں جینے کا ہنر سکھاتی ہو ۔ بلاشبہ مسابقت کے ماحول میں مقابلہ کر کے جینے کے لئے اعلیٰ تعلیم کا اسلحہ ناگزیر ہے۔ فنی مہارتوں پر مبنی اعلیٰ تعلیم کے ذریعے زیادہ آمدنی کا حصول نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں غالب رجحان ہے ۔ امریکہ جیسی ترقی یافتہ ریاست میں بھی مہارت یافتہ اعلیٰ تعلیم کی بابت بدلاؤ پیدا ہوا ہے۔ ایک معروف رپورٹ "Career clusters: Forecasting Demand for High Schools through college jobs - 2008-18" کا مطالعہ واضح کرتا ہے کہ پالیسی ساز اور اہل علم و دانش متفقہ طور پر یہی سوچ رہے ہیں کہ تعلیمی مہارتوں پر مبنی اعلیٰ تعلیم کو فروغ دیا جائے ایسی تحقیقاتی رپورٹوں اور تجزیوں سے یہ بھی نمایاں ہوتا ہے کہ مختلف صنعتی گروہ یا ادارے صرف انہی لوگوں کو اچھی نوکریاں اور زیادہ تنخواہ دینے کے خواہاں ہیں جنہوں نے ہائی اسکول یا ایسوسی ایٹ ڈگری کے ساتھ پیشہ ورانہ ضرورتوں کی حامل مہارتوں میں کماحقہ تربیت حاصل کی ہو اور جو مناسب طور پر مارکیٹ اکانومی کی ضرورتوں سے مماثلت رکھتے ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے پالیسی ساز گلوبل اکانومی کی اس اہم طلب کا بروقت ادراک نہیں کر سکے اور ہم آج تک فرسودہ نظام تعلیم کی دلدل میں دقیانوسی نصاب سے چمٹے ہوئے ہیں جو جدید عہد میں کہیں اور کسی طرح بھی قابل قبول نہیں رہا۔روح عصر سے ہم آہنگ اعلیٰ تعلیم نہ صرف انفرادی ترقی کا باعث ہے بلکہ معاشرے کی اجتماعی ترقی کا پیش خیمہ بھی ہے۔ عمومی معیشت اور کاروبار مہارتوں کے حامل متوسط طبقے کے لئے مقابلے اور مسابقت کے شعبے ہیں جن میں شامل ہو کر وہ ان شعبوں کی ترقی کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح پڑھے لکھے گریجویٹ معاشرتی ارتقاء، سماجی تعمیر و تطہیر میں رضا کارانہ کردار ادا کرتے ہیں۔ کہیں وہ الیکشن میں ووٹ ڈال کر اور کہیں سول سوسائٹی کے روپ میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے ہمہ جہت کردار سے انفرادی و سماجی فوائد کا حسین امتزاج ہی ہے جو اعلیٰ تعلیم کے لئے عوامی حمایت حاصل کرتا ہے۔ عوامی تعاون سے ہی ہمارے ہاں ثانوی تعلیم سے اوپر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔ اکیسویں صدی میں پاکستان کے لئے تجویز کردہ پیشوں کے بارے میں پیشگوئیوں کے مطابق مستقبل قریب میں اعلیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری میں واضح اضافہ ناگزیر ہو جائے گا۔ وژن2030ء کے مطابق 2030ء تک پاکستان میں متوسط طبقہ کے لئے دستیاب موزوں ملازمتوں کے لئے ایسے کارکنوں کی ضرورت ہو گی جو سیکنڈری درجہ کی تعلیم سے آگے کی تعلیمی کار گزاری کے حامل ہوں تاکہ وہ معقول آمدنی کے ساتھ متوسط طبقہ کا درجہ حاصل کر سکیں ۔ پاکستان میں متوسط طبقہ کی نفسیات امید اور رجائیت کے مسلسل احساس سے لبریز ہے اور ماضی کی بازگشت پر کان دھرے بغیر بہتری کی تلاش میں مستقبل کی جانب رواں دواں ہے ۔ مصمم رجائیت پاکستان کے معاشی نظام کے لئے مثبت اور ثمرآور نتائج کی حامل ہے ۔ یہی امید متوسط طبقہ کے لوگوں کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم سے اپنی صلاحیتوں کو سنوار کر اپنے خوابوں کو شرمندہٴ تعبیر کر سکتے ہیں۔ اسی بنا پر اعلیٰ تعلیم اور متوسط طبقہ کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اس مخصوص صورتحال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی درست نہیں ہو گا کہ اعلیٰ تعلیم صرف متوسط طبقے کا ہی استحقاق ہے۔ اعلیٰ تعلیم ہی وہ زینہ ہے جس پر چڑھ کر سماج کے نچلے طبقات اپنی اہلیت کار کو مہارتوں کے ذریعے مارکیٹ اکانومی اور گوبل اکنامک سسٹم سے ہم آہنگ کر کے متوسط طبقے کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں ۔