اسلام آباد (طارق بٹ ) اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں وفاقی کابینہ میں رد وبدل ، غیر منتخب ٹیکنوکریٹس کی شمولیت اور منتخب سیاستدانوں کو کھڈے لائن لگانے کے عمل کو جان بوج کر خاموشی سے دیکھ رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کابینہ میں رد وبدل کے معاملے پر تحریک انصاف پر کوئی بھی تنقید کرنے سے اجتناب کررہی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) نے اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق اسپیکر سردار ایاز صادق نے دی نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ہم پارلیمنٹ کے فلور پر جس معاملے پر چاہیں گے آواز اٹھائیں گے تاہم اس کے باہر کوئی بات نہیں کریں گے۔تنقید کا اولین پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ کابینہ میں اکھاڑ پیچھاڑ وزیراعظم کا اختیار ہے تاہم انہوں نے یگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کی بطور وزیرداخلہ تعیناتی پر سوالیہ نشان اٹھایا ہے۔ مسلم لیگ کے رہنما ایاز صادق نے کہا کہ ان کی جماعت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے اور وہ حکومت کیلئے کوئی مسئلہ نہیں کھڑا کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا اصولی فیصلہ ہے کہ ہم ایسی کوئی احتجاجی مہم نہیں چلائیں گے کیوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے بلند وبانگ دعوئوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے کارکردگی کا مظاہرہ کرے، ہم حکومت گرانے کیلئے کوئی تحریک نہیں چلائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت پر بارہا یہ الزامات لگائے جاتے رہے کہ ہم نے لوٹ مار کی اور ہم لوگوں کی توقعات کے مطابق ڈیلیور نہ کرسکے ۔ اب پی ٹی آئی کے پاس موقع ہے کہ وہ ڈیلیور کرے اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ یہ لوگ ہمارے ہاتھوں سیاسی شہید بنیں حالاں کہ پی ٹی آئی کے ہاتھوں ہماری حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا سامنا رہا ۔ ہم نے حکومت کیخلاف کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے اور ہمارے احتجاج اور تنقید کا اولین پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے جیسا کہ کسی بھی جمہوریت میں ہوتا ہے ۔ مسلم لیگ (ن ) کے ایک اور رہنما کا کہنا ہے کہ کابینہ میں شامل کئے گئے نئے ارکان ندیم بابر ، کابینہ سے نکالے گئے عامر محمود کیانی اور دیگر پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا احتساب کا وعدہ کہاں گیا ؟ کیا ان لوگوں کیخلاف کیسز نیب کو نہیں بھیجنے چاہئیں؟ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں ایسے عناصر کے احتساب پر سوال اٹھائے گی ۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی کابینہ میں اکھاڑ پیچھاڑ پر کوئی سخت موقف نہیں اپنایا ہے ۔ پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی کابینہ میں رد وبدل کرسکے۔ تاہم انہوں نے وزیرخزانہ اسد عمر کو ہٹائے جانے کے طریقہ کار پر حیرانگی کا اظہار کیا اور بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کی بطور وزیرداخلہ تعیناتی پر سوالیہ نشان اٹھایا جن پر ڈینئل پرل اور بینظیر بھٹو کے قتل کے سنگین الزامات ہیں۔ بلاول کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ استحکام برقرار رکھے۔ جب آپ وزیرخزانہ اور دیگر وزراء کو اچانک ہٹادیتے ہیں تو یہ تضحیک آمیز لگتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تنقید کابینہ میں اکھار پیچھاڑ پر نہیں بلکہ اس طریقہ کار پر ہے جو آپ نے اختیار کیا ہے۔ قبل ازیں انہوں نے اسد عمر کی کابینہ سے بے دخلی پر اطمینان کا اظہار کیا تھاجس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے کالعدم تنظیموں سے روابط ہیں۔ انہوں نے تین دیگر وزراء کی بے دخلی کا بھی مطالبہ کیا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان وزراء کے بھی کالعدم تنظیموں سے روابط ہیں ۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے سابقہ موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت مستعفی نہ ہوئی تو وہ اسلام آباد کو لاک ڈائون کردیں گے، وہ یہ مطالبہ کابینہ میں رد وبدل سے پہلے بھی کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چندمنتخب ٹیکنوکریٹس چلارہے ہیں۔ ملک گزشتہ 8ماہ سے معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ اب حکومت اپنا بجٹ پیش کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کا بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔