• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ناز و انداز و ادا اور ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی....

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: علینہ شاہ

ملبوسات: بنجارا کرافٹس

آرایش: ماہ روز بیوٹی پارلر

عکّاسی: عالیہ نثار

لے آؤٹ: نوید رشید

اوٹاوہ یونی ورسٹی، امریکا کی ایک نئی تحقیق کے مطابق، افواہیں پھیلانا لڑکیوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اور 15 سال سے کم عُمر قریباً 52 فی صد لڑکیاں اپنے ملبوسات، ایکسیسریز، شخصیت یا دیگرباتوں، چیزوں سےمتعلق افواہیں پھیلاتی رہتی ہیں، جب کہ لڑکوں میں یہ شرح صرف 20 فی صد پائی گئی۔ اب اللہ جانے یہ تحقیق صرف مغرب ہی تک محدود ہے یا ہمارے یہاں بھی صورتِ حال کچھ ایسی ہی ہے۔ ویسے ایک بات ہے، افواہوں کے حوالے سےلڑکیوں کازیادہ فوکس اگر اُن کےکپڑوں، جوتوں یا دیگر لوازمات ہی پر رہتا ہے، تو اس میں کچھ عمل دخل اُن کی فطری جبلّت کا بھی ہے کہ اُن کی ایک اچھا لگنے، نظر آنے اور سراہے جانے کی خواہش اُن سے کچھ بھی کروا سکتی ہے۔ لڑکوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ ہفتے کے چھے روز ایک ہی جینز کے ساتھ شرٹس بدل بدل کر باآسانی گزارہ کرلیتے ہیں۔ سالوں ہیئراسٹائل تبدیل نہ ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جوتوں کی تو کوئی ٹینشن ہی نہیں۔ شوز کی ایک بلیک، ایک برائون جوڑی کے ساتھ پوری زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ میلے کچیلے کپڑے، رَف اینڈ ٹف حلیہ لیے پھرتے رہیں، اسٹائل ہے۔ 20منٹ میں20رشتے داروں کے لیے شاپنگ کرلیں گے۔ کوئی دوست کسی فنکشن میں مدعو کرنا بھول جائے، اُس کی معذرت قبول کر کے اگلے لمحے بھول بھال جائیں گے۔ کسی تقریب میں کوئی بالکل اپنے جیسا لباس پہنے نظر آگیا، دیکھ کے بے اختیار ہنس دیں گے، گلے لگا کے دوست بنالیں گے۔ لیڈیز پرفیوم لگا لیا، شیمپو کے بجائے کنڈیشنر سے نہا کے شور مچاتے رہے ’’ارے!اس کا جھاگ کیوں نہیں بن رہا‘‘ مگر کوئی پروا نہیں۔

اور یہ معاملات اگر لڑکیوں کے ساتھ پیش آئیں، تو طرزِعمل کیا ہوگا۔ اگر تو ملازمت پیشہ ہیں، تو ہفتے کے چھے روز کے ملبوسات کی تیاری اتوار ہی کے روز کرلی جائے گی۔ ہر روز کے لیے الگ الگ رنگ و انداز کا پہناوا، میچنگ جوتے، پرس، جیولری اور لپ اسٹک شیڈز بھی۔ ہیئر اسٹائل تو ہر دوسرے تیسرے روز تبدیل ہوگا ہی، ہیئر کٹ بھی ماہ دو ماہ بعد بدل جائے گا۔ جوتوں کی ایک وسیع رینج۔ کسی پہناوے کے ساتھ ہیل اچھی لگتی ہے، تو کسی کے ساتھ فلیٹ جوتے اور بعض ملبوسات کے ساتھ تو کولہاپوری یاکھسّوں کےسوا کچھ پہناہی نہیں جا سکتا۔ شرٹ، دوپٹے پر کوئی ہلکا سا داغ دھبا بھی لگ گیا، تو پہناواہی ری جیکٹ۔ گھنٹہ بھر تو صرف سوچنے میں لگادیں کہ کس رشتے دار کے لیے کون ساتحفہ موزوں رہےگا۔ کوئی سہیلی کسی چھوٹی موٹی تقریب میں بھی مدعو کرنا بھول گئی، تو بس سمجھیں،اُس کی شامت آگئی،لاکھ معذرتوں کےباوجودگویاہمیشہ کےلیےقطع تعلقی۔کسی تقریب میں کوئی اپنے جیسا لباس پہنے دکھائی دے گئی، تو بس نہیں چلتا کہ یا تو اُسے کسی طرح سب کی نگاہوں سے اوجھل کردیں یا خود کہیں جا چُھپیں۔ پوری تقریب میں جلی بُھنی رہیں گی، کاٹ کھانے کو دوڑتی پھریں گی۔ ہزاروں خوشبوئوں میں سے اپنی مَن پسند خوشبو ایک سیکنڈ میں پہچان لیں گی۔ اِک سُرخ رنگ کی لپ اسٹک کے بیسیوں شیڈز کو الگ الگ شناخت کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

اب اگر لڑکیاں اپنی اس دیرینہ، فطری کم زوری یعنی بنائو سنگھار کے حوالے سے کچھ اوٹ پٹانگ، غلط سلط، جھوٹی سچّی باتیں پھیلا بھی دیں کہ فلاں ڈریس میں نے فلاں ڈیزائنر سے تیار کروایا ہے۔ فلاں لباس کی قیمت مارکیٹ میں اِتنی اور آن لائن اتنی ہے یا فلاں نے پارٹی میں بالکل آئوٹ ڈیٹڈ فیشن کا لباس پہنا۔ بیڈ ہیلز، میٹ لپ اسٹکس، ڈارک شیڈز تو فیشن میں بالکل اِن نہیں رہے۔ فلاں برانڈ تو مارکیٹ سے کب کا غائب ہوگیا۔ رِم لیس فریمز، رائونڈ شیپ یا کیٹ آئی گلاسز کا قصّہ تو بڑا پرانا ہوا۔ بالوں میں ہائی لائٹس، اسٹریکس بھلا اب کون ڈلواتا ہے۔ ساڑی کے ساتھ جُوڑے، سوئس رول کا کامبی نیشن کچھ خاص جچتا نہیں۔ جینز، کُرتی کیژول ہی نہیں، نارمل پارٹیز میں بھی چلتی ہے وغیرہ وغیرہ، تو بھلا کیا عجب ہے۔ لڑکیوں کے تو سولہ سنگھار،اور اُن سولہ سنگھاروں سے متعلقہ سولہ ہزار مسئلے مسائل، باتیں، حکایتیں۔ لڑکوں کا کیا، جینز یا نائٹ ٹرائوزرز ہی کے ساتھ کسی بھی رنگ، انداز کی ٹی شرٹ چڑھائی، پیروں میں سلیپرزڈالے اورچل بھئی چل۔ اُن کی فیشن/اسٹائل سے متعلق باتیں ہی کتنی ہوتی ہیں کہ اُن میں سے افواہیں بھی سَر اٹھاتی پھریں۔

قصّہ مختصر، ہماری آج کی بزم لڑکیوں بالیوں کے لیے کچھ بہت خاص، بے حد خُوب صُورت ہینڈ میڈ ایپلک، تھریڈ ورک اور بلاک پرنٹس سے مرصّع حسین و دل آویز کُرتیوں سےسجی ہے۔ ذرا دیکھیے، بلڈ ریڈ رنگ میں ایپلک ورک ہے، تو بلاک پرنٹنگ بھی۔ گہرے فیروزی (ٹرکوائز) رنگ میں اورنج کی ہم آمیزی کے ساتھ نفیس و دل کش سا انداز ہے، تو سفید زمین پر آسمانی رنگ گتھواں بلاک پرنٹنگ کی ندرت کے بھی کیا ہی کہنے۔ اور پِیچ رنگ کُرتی پر فیروزی پینٹکس نےتو کُرتی کا حُسن جیسے سہ آتشہ کردیا ہے۔

ایسے سدا بہار رنگ و انداز سے سج دھج کر کسی سَکھی سہیلی سے ملیں گی، کسی ہلکی پھلکی تقریب میں شرکت کریں گی، تو کانوں میں ضرور کہیں نہ کہیں سےیہ آواز پڑے گی ؎ ’’لفظوں کی تصویر بناتی دل میں قید ہوئی.....ایک سَمے وہ اچھی لڑکی دل میں قید ہوئی.....کورے کاغذپر کھینچی تھی میں نے اِک تصویر.....جنگل جنگل اُڑتی تتلی دل میں قید ہوئی.....کون سا تارا اُس کا گھر ہے، سوچ رہا تھا مَیں.....رات پری آنگن میں اُتری، دل میں قید ہوئی‘‘۔ اور ہاں، ان پہناووں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ ’’سدا بہار‘‘ ہیں، فیشن میں ہمیشہ ہی اِن رہتے ہیں، تو ان سے متعلق کوئی بھی افواہ پھیلانا آسان نہیں ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین