• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی معیشت کو سنگین خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے 26ستمبر 2008ء کو کئے گئے ایک تباہ کن سودے اور گزشتہ برسوں میں بیرونی ڈکٹیشن لیتے چلے جانے کے نتیجے میں وطن عزیز کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں نادہندگی کا خطرہ درپیش ہے۔پاکستانی معیشت کسی بھی بڑے بیرونی یا داخلی جھٹکے کو سنبھالنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اس بات کے شواہد نظر آرہے ہیں کہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت معیشت کوتباہ کرنے، ملک کوغیرمستحکم کرنے، عوام میں مایوسی و بددلی انتہا تک پہنچانے اور قوم کو ملک کے مستقبل سے مایوس کرنے کی کوششیں اچانک تیز کردی گئی ہیں۔ اگرسپریم کورٹ کے 16دسمبر 2009ء کے فیصلے کے بعد گزشتہ تین برسوں میں این آر او سیٹ اپ برقرار نہ رہنے دیا جاتا تو صورتحال اتنی سنگین نہ ہوتی۔ گزشتہ دو ہفتوں میں امریکہ نے پاکستان پر ڈرون حملے تیز کردیئے ہیں، بھارت نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں کی ہیں، بھارتی فضائیہ کے سربراہ نے پاکستان کے خلاف ”دوسرے آپشنز“ کی بات کی ہے جبکہ بھارتی آرمی کے سربراہ نے دھمکی دی ہے کہ وہ افواج پاکستان کو اپنی پسند کی جگہ اور وقت پر جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ یہی نہیں، ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں اور خودکش حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے، بلوچستان کے حالات میں اچانک ابتری آئی ہے اور ملک میں احتجاج کلچر اور لانگ مارچ کلچر اچانک زور پکڑ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں اس بحرانی کیفیت کے وقت کا تعین استعماری طاقتوں نے کیا ہے اور یہ طاقتیں اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے تعاون سے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ حکمرانوں، سیاست دانوں اور تمام محب وطن پاکستانیوں کو ان نکات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
پاکستان کی معیشت انتہائی کمزور بنیاد پر قائم ہے، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر گزشتہ چند برسوں میں بیرونی ملکوں سے پاکستان آنے والی ترسیلات میں زبردست اضافہ نہ ہوا ہوتا تو پہلے ہی ملکی معیشت تباہ ہوچکی ہوتی۔ نائن الیون کے بعد سے دسمبر 2012ء تک ملک میں79/ارب ڈالرکی ترسیلات آئیں لیکن کرپشن، ٹیکس کی چوری اور خراب حکمرانی کی وجہ سے ترسیلات کے اس زبردست حجم کے باوجود پاکستان کے بیرونی قرضوں و ذمہ داریوں کے حجم میں 29/ارب ڈالر کا اضافہ ہوا حالانکہ اس مدت میں کئی ارب ڈالرکا زرمبادلہ قیمتی قومی اثاثے اونے پونے فروخت کرکے حاصل کیا گیا اور امریکہ نے اتحادی امدادی فنڈ کی مد میں پاکستان کو تقریباً 10.5/ارب ڈالر دیئے۔ اس حقیقت سے بہرحال انکار ممکن نہیں جیسا کہ ہم انہی کالموں میں بھی گزشتہ کئی برسوں سے تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ ان ترسیلات کا ایک حصہ ٹیکس چوری اور ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ دینے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ طریقہٴ واردات یہ ہوتا ہے کہ ان اقسام کی ناجائز رقوم ہنڈی کے ذریعے پاکستان سے باہر منتقل کرکے ان کو بینکاری نظام کے ذریعے سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات کے نام پر پاکستان واپس منگوالیا جاتا ہے۔ اس طرح کالا دھن سفید ہوجاتا ہے کیونکہ پاکستان میں یہ پالیسی اپنائی گئی ہے کہ ان ترسیلات کے ضمن میں کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔ یہ ایک مالیاتی این آر او ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی سے اسٹیٹ بینک کا یہ اختیار متاثر نہیں ہوتا کہ وہ مشکوک معاملات میں اس امرکی تحقیق کرے کیا وہ ترسیلات ہی ہیں، کالے دھن کو سفید کرنے کا ذریعہ نہیں۔ اسٹیٹ بینک نے اس ضمن میں برس ہا برس سے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔
ایف بی آر کے چیئرمین نے 28دسمبر 2012ء کو سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ ملک میں ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے ایک مستقل قانونی راستہ یہ موجود ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق III(4) کے تحت پاکستان آنے والی ترسیلات کے ضمن میں کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ شق ختم کردی جائے اور ٹیکسوں کا منصفانہ نظام وضع کرلیا جائے تو پاکستان کے ٹیکس اور جی ڈی پی کے تناسب کو18فیصد تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس وقت یہ تناسب تقریباً 9.5فیصد ہے یعنی ٹیکسوں کی وصولی کا حجم دگنا ہوجائے گا۔ ہم اس ضمن میں عرض کریں گے کہ اول، قوم اور ملکی معیشت ان ترسیلات کی بھاری قیمت ادا کررہی ہے۔ دوم، جولائی2008ء سے دسمبر 2012ء کے ساڑھے چار برسوں میں48.2/ارب ڈالر کے تاریخی حجم کی ترسیلات پاکستان آئیں لیکن ان رقوم کا دانشمندانہ استعمال کرنے کے بجائے خراب حکمرانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جاری حسابات کے خسارے کو پورا کرنے کے لئے استعمال کرنے سے اس مدت میں معیشت کی اوسط سالانہ شرح نمو صرف 3فیصد سالانہ رہی جوکہ پاکستان کی تاریخ میں اتنی ہی مدت میں حاصل ہونے والی سب سے کم شرح نمو ہے۔ سوم، پاکستانی معیشت قرضوں اور ترسیلات کے دم پرچل رہی ہے اور چہارم، بیرونی ملکوں سے آنے والی ترسیلات پر بڑھتا ہوا اور بے تحاشہ انحصارآگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اگر صرف دوملکوں کی پالیسی میں تبدیلی، استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں یا خود وطن عزیز میں انٹربینک اور کھلی منڈی میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کے نرخوں کے فرق میں بڑا اضافہ ہوجاتا ہے تو ترسیلات کا حجم تیزی سے گر سکتا ہے جوکہ تباہ کن ہوگا۔
ہم نے9دسمبر2008ء کو انہی کالموں میں کہا تھا کہ تقریباً چار برس بعد پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں کی بروقت ادائیگی اپنے وسائل سے نہیں کرپائے گا۔ حکومت نے اس مدت میں زرمبادلہ کے ذخائرکو بڑھانے کی ہلکی سی بھی کوشش نہیں کی بلکہ گزشتہ 18مہینوں میں ذخائر کوگرنے دیا تاکہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں دوبارہ پھنسوایا جاسکے۔ یہ وقت اب قریب آرہا ہے اور پاکستان میں صورتحال گمبھیر کی جارہی ہے۔رینٹل پاورکیس میں سپریم کورٹ کے 15جنوری کے فیصلے سے ملک میں ہیجانی کیفیت بڑھ گئی ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ انتہائی اہم ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد انتخابات سے پہلے چند ماہ کے لئے صدر زرداری ایسا وزیراعظم کیوں نہیں لائے جو سنگین الزامات کی زد میں نہ ہو۔ اگر احتجاج کلچر اور اداروں کا ٹکراؤ ہوتا رہا اور بحرانی کیفیت برقرار رہی تو خدشہ ہے کہ ملک سے سرمائے کے فرارکا عمل تیزہوگا، روپے کی قدرگرے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر بھاپ کی طرح اڑ جائیں گے۔ اس صورتحال میں ملک کی سلامتی، بقا، یکجہتی اور معیشت کو درپیش خطرات دوچند ہوجائیں گے۔
تازہ ترین