• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام کسی بھی سانحہ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ریاست کے سربراہ کی طرف دیکھتے ہیں، جسے انھوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے منتخب کیا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ درحقیقت سانحے اور بحران ہی ایک سربراہ کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کو دنیا کی ایک غیرمعمولی شخصیت سمجھا جاتا ہے، جنھوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے دنیا بھر کے سربراہان کو بتادیا ہے کہ ایک عظیم سربراہِ ریاست میں کیا خصوصیات ہونی چاہئیں۔

عوام کو ایک دوسرے سے جوڑنا

وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن شاید آج کے دور کے کسی بھی سربراہِ ریاست کے مقابلے میں اس بات پر زیادہ یقین رکھتی ہیں کہ ایک حقیقی سربراہ مشکل وقت میں لوگوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے نہیں لا کھڑا کرتا۔ وہ جانتی ہیں کہ دہشت گرد ’عوام کے دشمن‘ ہیں۔ دہشت گردوں کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ وہ کوئی بھی منفی کارروائی کرنے کے بعد میڈیا میں اس کی خوب تشہیر کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے ڈر اورخوف پیدا کرسکیں۔ وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے کرائسٹ چرچ واقعے کے بعد نہ صرف غیر مبہم انداز میں اسے ایک عظیم سانحہ اور قومی نقصان قرار دیا بلکہ اس گھناؤنے جرم میں ملوث دہشت گرد کی وحشیانہ حرکت کو کسی بھی لمحے اور کسی بھی بہانے تشہیر کی اجازت نہیں دی۔ سانحے کے فوری بعد انھوں نے بہت ہی واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ نیوزی لینڈ وہاں رہنے والے ہر شخص کا اپنا ملک ہے، جسے متنوع پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے افراد اور گروہوں نے اپنا ملک بنایا ہے۔ یہ باتیں دراصل ہمیں ایک اور عظیم عالمی رہنما نیلسن منڈیلا کی یاد دِلاتی ہیں، جب انھوں نے کہا تھا، ’’میرے اپنے لوگوں کی آزادی کے لیے میری بھوک ہڑتال، دراصل تمام لوگوں کی آزادی کی علامت بن گئی‘‘۔

جیسنڈا آرڈرن نے کرائسٹ چرچ سانحہ کے بعد پوری دنیا کو پیغام دیا کہ کسی بھی سانحہ کے بعد ’’ہم بمقابلہ آپ‘‘ کی فضا قائم کرنے کے بجائے سب کو ساتھ لے کر اور سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمدردی

کرائسٹ چرچ سانحہ کے بعد جب نیوزی لینڈ کی مسلم کمیونٹی میں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی، جیسنڈا آرڈرن روایتی سربراہِ مملکت کی طرح ردِ عمل دینے کے بجائے اسے ذاتی سانحہ سمجھ کر مشکل وقت میں متاثرہ خاندانوں سے دِلی ہمدردی کا اظہار کرنے ان کے درمیان پہنچ گئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ متاثرہ خاندان اُس وقت کس کرب ناک صورتحال سے گزر رہے تھے، انھیں اپنی مذہبی عبادات جاری رکھنے کے لیے محفوظ مساجد چاہیے تھیں۔ سربراہِ ریاست ہونے کے ناطے، ریاست کے ہر شہری کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہونے کے ناطے ، انھوں نے فوری طور پر کئی اقدامات لیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ نیوزی لینڈ میں دوبارہ کبھی ایسا سانحہ نہ ہو۔

پورے سانحے کے دوران جیسنڈا آرڈرن نے روایتی سربراہانِ مملکت کی طرح بے حسی دکھانے کے بجائے ہمدردی کو اپنایا۔ انھوں نے خود کو متاثرہ خاندانوں سے دور نہیں رکھا۔ وہ ان کے پاس پہنچیں، انھیں گلے لگایا اور ان کے غم اپنے ساتھ بانٹے۔ انھوں نے روایتی سربراہان کی طرح، متاثرہ خاندانوں کو صرف ’’کھوکھلے اور دُعائیہ الفاظ ‘‘ پیش نہیں کیے۔ جیسنڈا نے انھیں پیار، شفقت اور اپنائیت دی۔

واضح حکمتِ عملی

جیسنڈا آرڈرن نے صرف ہمدردی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے متاثرہ خاندانوں کا غم بھی بانٹا۔ صرف یہی نہیں، سربراہِ مملکت ہونے کے ناطے انھیں اس بات کا بھی بخوبی علم تھا کہ اس عظیم سانحہ کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں کئی شکوک و شبہات موجود ہیں۔ ایسے میں سربراہ کے لیے ضروری بن جاتا ہے کہ وہ عوام کو واضح الفاظ میں بتائے کہ دراصل کیا ہورہا ہے۔ جیسنڈا آرڈرن نے اس سانحے کے لیے ’’ماس شوٹنگ‘‘ یا ’’ہَیٹ کرائم‘‘ جیسے الفاظ استعمال نہیں کیے۔ انھوں نے اسے واضح الفاظ میں دہشت گردی اور انسانیت سوز واقعہ قرار دیا۔ یقیناً، ا س سے زخم کم نہیں ہوتا، تاہم اس سے زخم اور اُلجھن میں کچھ کمی ضرور آتی ہے۔ جیسنڈا آرڈرن نے فوری طور پر کئی خطرناک قسم کے ہتھیاروں کے عوامی استعمال اور سیمی آٹومیٹک ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح جیسنڈا آرڈرن نے ایک ہی سانحے کے بعد وہ کام کردِکھایا جو امریکا جیسا ملک اس جیسے کئی واقعات وقوع پذیر ہونے کے بعد بھی نہ کرسکا۔

راسخ عقیدہ

کسی بھی سانحہ کے بعد سربراہِ مملکت کا اس بات پر پختہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ وہ بگڑے ہوئے نظام کو ٹھیک کرسکتا ہے، کیونکہ بہرحال عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ اس سے پہلے امریکا میں ہونے والے اسی طرح کے سانحات میں امریکی عوام کچھ دیر کے لیے غم زدہ ہوتے ہیں، لیکن پھر زندگی اسی طرح رواں دواں ہوجاتی ہے۔ قانون پر عمل کرنے اور ہتھیار رکھنے والے افراد سمجھتے ہیں کہ ان پر بے جا تنقید کی جارہی ہے، جبکہ متاثرہ خاندان انصاف کے حصول کے لیے ناامید ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً، کچھ نہیں ہوتا اور نظام میں بہتری نہیں آتی۔ جیسنڈا آرڈرن نے سانحہ کرائسٹ چرچ کے صرف 72گھنٹوں بعد اپنی کابینہ کو متحرک کیا اور ’’اینٹی گن لاز‘‘ متعارف کرائے۔ یعنی صرف کوشش کرنا کافی نہیں ہوتا، کوشش کے نتائج بھی نظر آنے چاہئیں۔

آگے کی راہ

آج کی دنیا مختلف حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایسی دنیا کو جوڑنے اور آگے لے کر جانے میں سربراہان مملکت کا کردار اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ لوگوں میں ہر طرف خوف اور عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے دنیا کو دِکھایا کہ انسانیت کی اجتماعی بہتری کی سوچ، غور و فکر اور پختہ ارادی کے ذریعے ہی دنیا کو رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین