• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسمان شفّاف اور سمندر پُرسکون ہے۔ سورج کی سُنہری کرنوں کا عکس پڑنے سے تا حدِ نظر پھیلا پانی جِھلملا رہا ہے۔وِیک اینڈ نہ ہونے کے سبب میلوں طویل ساحل پر ہُو کا عالم ہے، بجز اس مقام کے ، جہاں سیّد محمد احسان، غلام مصطفیٰ اور انور صحافیوں کی ایک ٹولی کو ریسکیو کے طریقۂ کاراورلائف گارڈز کی تربیت کے بارے میں تفصیلات فراہم کر رہے ہیں۔ ان کے ارد گرد ریسکیو ٹیوبز، ریسکیو بورڈز، لائف جیکٹس، موٹر بوٹس ، پیٹرول وہیکلز یاگَشتی گاڑیاں اور فرسٹ ایڈ کِٹس موجود ہیں۔یک لخت 38سالہ غلام مصطفیٰ کی عقابی نگاہیں سمندر میں ہاتھ لہراتے شخص پر پڑتی ہیں اور وہ پوری قوّت سے کہتا ہے، ’’رن‘‘۔ اپنے کنسلٹنٹ کی آواز سُنتے ہی کَسرتی بدن کا مالک، 19سالہ راجو، جو لائف جیکٹ پہنے ہوئے ہے، ریسکیو بورڈ اُٹھا کر برق رفتاری سے پانی کی جانب بھاگتا ہے۔چند ساعتوں بعد غلام مصطفیٰ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ پکارتا ہے،’’سوئیم‘‘۔ لائف گارڈ تیرتے ہوئے اس شخص کو ریسکیو بورڈ پر لِٹاتا ہے، تو غلام مصطفیٰ زور سے چِلاّتا ہے، ’’رن‘‘۔ راجو ساحل کی جانب تیزی سے دوڑتا ہے اور خُشکی پہ پہنچ کر اُس شخص کے منہ پر منہ رکھ کر اسے آکسیجن فراہم کرنا اور اس کی چھاتی دبانا شروع کر دیتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد پہلے سے دُگنے فاصلے پر ایک اور شخص ہاتھ لہراتا دکھائی دیتا ہے ۔ اسے ریسکیو کرنے کے لیے ایک موٹر بوٹ سمندر کی جانب روانہ ہوتی ہے ۔وہ راجو کی طرح 3منٹ سے بھی کم وقت میں اسے ساحل پر لے آتی ہےاور ابتدائی طبّی امداد کی فراہمی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ کراچی کے مشہور تفریحی مقام، سینڈز پِٹ کا منظر ہے، جہاں پالس (پاکستان اکوئیٹک لائف سیونگ) نامی لائف گارڈز اور ڈُوبنے سے بچائو کی خدمات فراہم کرنے والی ایک غیر منافع بخش نجی تنظیم کی ریسکیو ٹیم جان بچانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا مظاہرہ کررہی تھی۔ یہ دو نمونے دکھانے کے بعدریسکیو ٹیم کے 38سالہ کنسلٹنٹ اور ٹرینر، غلام مصطفیٰ ہماری طرف متوجّہ ہوئے اور کہا کہ ’’جب ہم ڈیوٹی پر ہوں، تو صرف اشاروں کی زبان میں بات کرتے ہیں، کیوں کہ ایک لمحے کی تاخیر بھی کسی کی جان لے سکتی ہے۔ ہم ساحلی دیہات کے مکینوں کی زندگی سمندر سے جُڑی ہوئی ہے۔ لہریں ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ ہم ماہی گیری بھی کرتے ہیں اور جانوں کی حفاظت بھی۔ ہمارا کام صرف لاشیں نکالنا نہیں، بلکہ بیش قیمت جانیں بچانا ہے اور اس کے لیےمحض سمندر میں نہانے پر پابندی لگانا ہی کافی نہیں۔‘‘ غلام مصطفیٰ نے اپنی بات مکمل کی، تو 45سالہ پیٹرول کیپٹن، انور بولے کہ ’’ساحلوں پر آنے والے شہری سمندر کو چیلنج دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ سمندر ان کی جان کا دشمن بھی بن سکتا ہے۔ سیر کے لیے آنے والے99فی صد شہریوں کو یہ غلط گمان ہوتا ہے کہ انہیں تیرنا آتا ہے۔ اگر انہیں سمندر میں تیراکی سے منع کیا جائے، تو وہ لائف گارڈز سے لڑ پڑتے ہیں اور پھر ڈُوب جاتے ہیں۔ جب کہ بیش تر افراد خود کو نیوی کا اہل کار بتاتے ہیں اور بعض اوقات تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے آدھا شہر پاک بحریہ میں ہے۔نیوی کے کیڈٹس کو تیراکی آتی ہے، لیکن وہ بھی گہرے سمندر میں تیراکی نہیں کر سکتے۔‘‘

ساحل کی سیر، اہلِ کراچی کے لیے سَستی تفریح کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ عموماً ایک شہری چند سو روپے خرچ کر کے یہاں بہ آسانی پکنک منا سکتا ہے، لیکن بعض اوقات خوشی و مسرّت کے یہ لمحات، الم ناک واقعات اور گھر، ماتم کدوں میں بدل جاتے ہیں۔ لہٰذا، قیمتی جانوں کے زیاں سے بچنے کے لیے انتظامیہ بالخصوص جون، جولائی کے مہینے میں سمندر میں نہانے پر پابندی عاید کردیتی ہے، مگر شہری پھر بھی باز نہیں آتے۔ سمندر میں ڈُوبنے کے واقعات کی وجوہ اور سدِباب کے بارے میں جاننے سے پہلے اس بات کاعلم ہونا بھی بے حد ضروری ہے کہ کراچی کی ساحلی پٹّی خاصی طویل ہے۔64کلو میٹر طویل یہ پٹّی کیٹی بندر سے شروع ہو کر مبارک ویلیج پر ختم ہوتی ہے اوراس میں پیراڈائز پوائنٹ، ہاکس بے، سینڈز پِٹ، فرینچ بیِچ، رشین بِیچ، سنہرا بِیچ، مبارک ویلیج اور سی ویو جیسے مقامات قابلِ ذکر ہیں۔ ان ساحلی مقامات پر تقریباً سال بَھر ہی شہریوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے اور ڈُوبنے کے واقعات بھی رُونما ہوتے رہتے ہیں۔ دیگر کئی عوامل کے علاوہ ان ساحلوں کا غیر ترقّی یافتہ جغرافیہ انہیں خطرناک بناتا ہے۔جغرافیائی خصوصیات اور شہریوں کے غیر محتاط رویّے کے سبب کراچی کے تمام ساحلوں ہی پر ایسے لائف گارڈز کی تعیّناتی اشد ضروری ہے کہ جو نہ صرف مشّاق تیراک ہوں، بلکہ سمندر میں پوشیدہ خطرات سے بھی کماحقہ واقفیت رکھتے ہوں۔ یہاں پاک بحریہ کے جاں بازوں کے علاوہ مختلف سرکاری و نجی اداروں اور فلاحی تنظیموںکے سیکڑوں لائف سیونگ گارڈز اورغوطہ خور خدمات انجام دے رہے ہیں، جن میں بلدیہ عظمیٰ کراچی، پورٹ قاسم اتھارٹی، فش ہاربر( لانڈھی)، ابراہیم حیدری، ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن، کراچی فشری، کراچی پورٹ ٹرسٹ، کنٹونمنٹ بورڈ( منوڑا)، کینپ، ایدھی فائونڈیشن، چِھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن اورپالس ریسکیو شامل ہیں۔ ساحلوں پر بچائو کے لیے خدمات انجام دینے والے افراد کا کہنا ہے کہ ان لائف گارڈز کو سمندر کے رویّوں کا پتا لگانے کا اہل ہونا چاہیے، جن میں مدّوجزر، پانی کے مختلف دھارے اور ساحل کی سطحیں شامل ہیں۔ تاہم، اس تشویش ناک صورتِ حال کے باوجود حکومت مناسب تعداد میں لائف گارڈز بَھرتی کرنے اور انہیں تربیت فراہم کرنے میں عدم دِل چسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ شہری انتظامیہ کی جانب سے بھرتی کیے جانے والے لائف گارڈز کی حالتِ زار اور ڈُوبنے کے واقعات کے بارے میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت ہاکس بے پرقائم ایمرجینسی ریسپانس سینٹر کے اسٹیشن آفیسر، معراج خان کا کہنا ہے کہ ’’کراچی کے مختلف ساحلی مقامات کے علاوہ دریا، ڈیم، نہروں، ندی نالوں اور واٹر ٹینکس سمیت دیگر مقامات پر ڈُوبنے کے نتیجے میں سال بَھر میں کم و بیش 4درجن افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایمرجینسی ریسپانس سینٹر ، ہاکس بے16کلومیٹر طویل ساحل پر 2000ء سے فعال ہے۔ اس عرصے میں ہمارے لائف گارڈز نے لاتعداد افراد کو ڈُوبنے سے بچایا اور اَن گنت لاشیں نکالیں۔ اس وقت فنڈز کی کمی اور مقرّرہ تعداد میں نفری نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمارے لائف گارڈز کی تعداد گھٹ کر 40رہ گئی ہے ۔ ہماری اوّلین کوشش ہوتی ہے کہ شہریوں کو ڈُوبنے نہ دیا جائے اور اگر کوئی خدانخواستہ ڈُوب جائے، تو اسے زندہ سلامت نکالا جائے۔ نیز، قریب موجود نہ ہونے کی وجہ سے اگر لائف گارڈ کسی فرد کو نہ بچا سکے، تو کم از کم اس کی لاش ضرور نکال لی جائے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ’’ ہم وقتاً فوقتاً لائف گارڈز کی نئی بھرتیوں، جدید تربیت اور جدید ترین آلات کی فراہمی کے حوالے سے انتظامیہ کو مطلع کرتے رہتے ہیں، کیوں کہ یہ ایک مشکل کام ہے اور اس کے لیے بے پناہ مہارت، طاقت اور فٹ نیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت ہمیں لائف جیکٹس، ریسکیو ٹیوبز، ریسکیو لائنز،ریسکیو بورڈز،وِنگ بوائز، ویورنر، جیٹ اسکائز اور ڈِیپ سی بوٹس کے علاوہ زیرِ آب جانے کے لیے غوطہ خوری کے آلات اور باڈی فائنڈرز کی ضرورت ہے۔ ہمارے زیادہ تر لائف گارڈز ماہی گیر ہیں اور ان میں سے بھی بیش تر اس کام کے لیے عُمر رسیدہ ہو چُکے ہیں ۔ ان میں اتنی طاقت، ہمّت نہیں کہ یہ رِ پ کرنٹس ( پانی کے بہائو کی مخالف سمت میں بہنے والی طاقت وَر لہروں) سے کسی کو نکال سکیں۔ پھر ان کی تنخواہیں بھی بہت کم ہیں اور ان کے پاس ریسکیو آلات بھی موجود نہیں۔ لائف گارڈز کی وردی بھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، کیوں کہ اگر کسی لائف گارڈ نے یہ نہ پہن رکھی ہو، تو ساحل پر آنے والے افراد اس کی آواز پر کان ہی نہیں دھرتے، مگراس کے باوجود انہیں 2004ء کے بعد وردیاں فراہم نہیں کی گئیں۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ ساحلوں پر واچ ٹاورز موجود نہیں۔ عیدین سمیت دیگر تعطیلات کے دوران ہزاروں شہری ساحلوں کا رُخ کرتے ہیں اور مناسب تعداد میں واچ ٹاورز کی موجودگی کے بغیر گارڈز ان سب پر نظر نہیں رکھ سکتے ۔ اسی طرح انہیں ڈوبنے والے افراد تک پہنچنے کے لیے دُور تک بھاگنا پڑتا ہے اور اس عرصے میں قیمتی وقت ضایع ہو جاتا ہے۔ ہمارے پاس نقل و حرکت کے لیے بِیچ بائیکس اور گاڑیاں نہیں ہیں ،تو پیدل ہی گشت کرنا پڑتا ہے، پھر پورے ساحل پر نظر رکھنے کے لیے ہمیں پیٹرولنگ آلات کی ضرورت ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ انتظامیہ ہماری اس حالتِ زار کا نوٹس لیتے ہوئے اسے بہتر کرنے کی کوشش کرے گی۔ ‘‘

پالس ریسکیو نے اپنی خدمات کا آغاز جولائی 2004ء میں کیا۔ بین الاقوامی طور پرتسلیم شُدہ اس غیر سرکاری تنظیم کے قیام کا مقصد کراچی کے ساحلوں پر لائف گارڈز کی مفت سہولت فراہم کرنا ہے۔لائف گارڈ ایڈمنسٹریٹر، سیّد محمد احسان نے اس کے قیا م کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ’’ پالس ریسکیو کے بانی وصدر،رضا صمد بچپن ہی سے ساحل پر آتے تھے۔وہ اکثر ساحلی دیہات کے مکینوں سے شہریوں کے سمندر میں ڈُوبنے کے واقعات سُنتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ماہی گیروں کے مسائل سے بھی آگاہ تھے، جو ہر سال کم و بیش6ماہ تک مچھلی کے شکار پر پابندی عاید ہونے کی وجہ سے بے روزگار رہتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ سیر کے لیے آنے والے چند افراد کو ڈُوبتے دیکھا، تو اپنی جان خطرے میں ڈال کر انہیں بچایا۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے ایک لائف سیونگ فائونڈیشن بنانے کا تہیہ کیا اور اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت دیگر ممالک میں قائم لائف سیونگ آرگنائزیشنز سے رابطہ کیا، توکچھ عرصے بعد نیوزی لینڈ کی ایک آرگنائزیشن،سرف لائف سیونگ نیوزی لینڈ نے پاکستان آنے کی خواہش ظاہر کی۔ مذکورہ تنظیم کے چند سرکردہ افراد نے کراچی کے ساحلوں کا دورہ کرنے کے چند ماہ بعد 2004ء میں اپنے 10رضاکاروں پر مشتمل ایک ٹیم بھیجی،تو ہم نے ساحلی دیہات میں مقیم ایک سو سے زاید نوجوانوں کو لائف گارڈ کی تربیت دلوانے کا فیصلہ کیا ، لیکن ہمارے اعلان پر تقریباً 500افراد جمع ہو گئے، جو روزگار کی تلاش میں تھے۔ ہم نے اُن میں سے 175نوجوانوں کو منتخب کیا اورانہیں دو ہفتے تک لائف گارڈ کی تربیت فراہم کی۔ جولائی 2004ء میں ہم نے باقاعدہ تقریبِ اسناد منعقد کی، جس میں اُس وقت کے ناظمِ کراچی، نعمت اللہ خان نے لائف گارڈز میں انٹرنیشنل لائف سیونگ فیڈریشن نامی عالمی تنظیم کے سرٹیفکیٹس تقسیم کیے۔ اتفاق سے اس تقریب کے دو روز بعد سینڈز پِٹ پر ایک ہی خاندان کے 14افراد ڈُوب گئے۔ اس واقعے کے فوراً بعد نعمت اللہ خان نے ہمیں طلب کیا اور سرزنش کرتے ہوئے پوچھا کہ’’ اتنے لائف گارڈز کی موجودگی میں یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟‘‘ ہم نے جواب دیا کہ ’’اُن میں سے کوئی گھر پہ ہے، تو کوئی اپنے کام پر۔‘‘ اس پر انہوں نے سوال کیا کہ’’وہ ساحل پر کیوں موجود نہیں ہوتے؟‘‘ تو ہم نے بتایا کہ ’’وہ آمدنی حاصل کرنے کے لیے مختلف کام کرتے ہیں اور جب تک ہمیں اسپانسرز نہیں ملتے، ہم انہیں اُجرت ادا نہیں کر سکتے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’’ آپ ساحل پر لائف گارڈز کھڑے کریں۔‘‘ ہم نے فنڈ طلب کیا، تو ناظمِ کراچی نے جواب دیا کہ ’’ فنڈز کے علاوہ کوئی اور مطالبہ ہے، تو کریں۔‘‘ ہم نے ان سے کہا کہ’’ دُنیا بَھر میں لائف سیونگ آرگنائزیشنز اسپانسرشپ پر چلتی ہیں۔ ہم اپنے لائف گارڈ زکی ٹی شرٹس ، ساحل پر نصب سائن بورڈز اور جھنڈوں پر اپنے اسپانسرز کے لوگوز لگائیں گے، جس سے اُن کی تشہیر ہوگی اور اس کے بدلے وہ ہمیں فنڈز فراہم کریں گے۔‘‘ نعمت اللہ خان نے ہمارے کہنے پر شہری حکومت کی طرف سے شہر میں قائم مختلف ملٹی نیشنل کمپنیز کو اسپانسرشپ کے لیے خط لکھ دیے۔ تاہم، اسپانسرز ملنے سے پہلے تقریباً 9ماہ تک ہمارے 175تربیت یافتہ لائف گارڈز ہفتے اور اتوار کے روز رضا کارانہ طور پر ساحل پر خدمات انجام دیتے رہے، کیوں کہ سینڈزپِٹ صرف ویک اینڈ بیِچ ہے۔ نیوزی لینڈ سے آنے والی ٹیم ہمارے لیے اپنی پُرانی وردیاں، ایک سرفنگ بورڈ اور ایک عدد پرُانی کشتی بھی لے کر آئی تھی۔ ہم نے اسی ساز و سامان اور پُرانی وردیوں پر اپنی فائونڈیشن کا نام چسپاں کر کے پیٹرولنگ کا آغاز کیا۔ بعد ازاں، ہمیں مختلف نجی اداروں سے اسپانسر شپ مل گئی اور انہوں نے ہمیں فنڈز کے ساتھ سامان بھی فراہم کیا۔ ایک ادارے نے ہمیں 10عدد بوٹس فراہم کیں، تو ہمارے پاس انہیں رکھنے کے لیے جگہ نہیں تھی، لیکن پھر ایک صاحب نے ہمیں ایک ہَٹ دلا دیا، جہاں اب ہمارا دفتر قائم ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اُس روز 14افراد کے ڈوبنے کا واقعہ پیش نہ آتا اور نعمت اللہ خان اس معاملے میں دِل چسپی نہ لیتے، تو یہ سلسلہ ٹریننگ سے آگے نہ بڑھتا۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’’ہماری فائونڈیشن کو ساحل کے قریب بین الاقوامی معیار کے مطابق حفاظتی اور ڈُوبنے سے بچائو کے اقدامات کرنے والی پاکستان کی واحد ریسکیو تنظیم کا اعزاز حاصل ہے۔ جانیں بچانے کے علاوہ ہمارے لائف گارڈز ساحل پر دن بَھر گشت بھی کرتے ہیں۔ ہم ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرتے ہیں۔ نیز، شہریوں کی حفاظت کے لیے آگہی مُہم چلاتے ہیں ۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’’ یہ ریسکیو آرگنائزیشن بین الاقوامی طور پر سند یافتہ ہے۔ یہ آئی ایل ایس (انٹرنیشنل لائف سیونگ فیڈریشن) اور برطانیہ کی آر ایل ایس ایس (رائل لائف سیونگ سوسائٹی) کی رُکن اور ایس ایل ایس این زیڈ (سرف لائف سیونگ نیوزی لینڈ) سے وابستہ ہے۔ نیز، ہمارے پیٹرول کیپٹن اور کنسلٹنٹ سمیت دیگر ارکان نے بھی بیرونِ مُلک سے لائف سیونگ کی باقاعدہ تربیت حاصل کی ہے۔‘‘ تنظیم کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، اپنے آغاز سے لے کر اب تک یہ کراچی کے مختلف ساحلوں پر کم و بیش 5ہزار افراد کو ڈُوبنے سے بچا چُکی ہے۔ گزشتہ 15برس میں اس نے لگ بھگ 70لاکھ حفاظتی اقدامات کیے اور تقریباً 6ہزار شہریوں کو ابتدائی طبّی امداد فراہم کی۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ 2004ء سے اب تک اس نے ڈُوبنے کا تناسب صفر برقرار رکھا ہوا ہے، جو اس کی اعلیٰ لائف سیونگ خدمات کا مظہر ہے۔ لائف گارڈز کی تعداد اور تعیّناتی سے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں ایڈمنسٹریٹر نے بتایا کہ ’’ہم سینڈز پِٹ سے مبارک ویلیج تک پھیلے تقریباً 20کلو میٹر طویل ساحل پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ ہمارے روسٹر پر کم و بیش 200لائف گارڈز ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں، لیکن انہیں ضرورت کے مطابق تعیّنات کیا جاتا ہے۔ ان تمام کا تعلق مختلف ساحلی دیہات سے ہے۔جون سے ستمبر تک کے عرصے میں مون سون کے دوران جب سمندر کی لہریں بلند ہوتی ہیں اور اسکولز کی تعطیلات کی وجہ سے ساحلوں پر عوام کا رش ہوتا ہے، تو اُس وقت 150سے زاید لائف گارڈز پیٹرولنگ میں مصروف ہوتے ہیں، جب کہ وِیک اینڈ کے علاوہ عام دنوں میں 30سے زیادہ لائف گارڈز گَشت کرتے ہیں ۔ہر ایک کلومیٹر کے دائرے میں 2لائف گارڈز موجود ہوتے ہیں۔ تاہم، جمعے سے اتوار تک لائف گارڈز کی تعداد بڑھا کر ایک کلومیٹر کے دائرے میں 6تک کردی جاتی ہے۔ ہم نے لائف گارڈز کی درجہ بندیاں کر رکھی ہیں۔ کُل وقتی لائف گارڈز اور جُز وقتی لائف گارڈز۔ کُل وقتی فریش لائف گارڈز کی ماہانہ تن خواہ 15ہزار، تجربہ کار لائف گارڈز کی 25ہزار اور پیٹرول کیپٹن اور ٹرینرز کی تن خواہ 35سے 40ہزار روپے تک ہے۔ جُز وقتی لائف گارڈز کو ہم 8سے 15ہزار روپے ادا کرتے ہیں اور وہ صرف وِیک اینڈز ہی پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ چُوں کہ یہ لائف گارڈز عموماً ماہی گیر ہوتے ہیں ، جن کی پہلی ترجیح مچھلی کا شکار ہے، تو یہ شکار پر پابندی کے دِنوں ہی میں بے روزگار ہونے کے سبب اِدھر کا رُخ کرتے ہیں اور انہی دنوں ہمیں بھی لائف گارڈز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ جب سمندر پُر سکون ہو جاتا ہے، تو یہ شکار پر چلے جاتے ہیں اور ہم بھی انہیں نہیں روکتے۔‘‘ ہمارے ایک سوال کے جواب میں احسان نے بتایا کہ’’ 2014ء میں ہم نے کراچی کے تمام ساحلوں کا سروے کیا، تو پتا چلا کہ ہر سال 50سے 70لاکھ شہری ساحلوں کا رُخ کرتے ہیں اور ان میں سے بھی 80فی صد افراد جون تا ستمبر آتے ہیں۔‘‘اس بارے میں مبارک ویلیج سے تعلق رکھنے والے ٹیم کے رُکن اور کنسلٹنٹ /ٹرینر، غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ’’ ہمارے تمام لائف گارڈز نوجوان ہیں ۔ یہ 30برس کی عُمر کے بعد اپنی اس ذمّے داری سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ ہر سال انہیں ری فریشر کورسز کروائے جاتے ہیں۔ ان کے لیے ایک باقاعدہ معیار مقرّر ہے اور اس پر پورا اُترنے والے ہی کو بَھرتی کیا جاتا ہے۔ لائف گارڈ کے امیدوار کو ایک مخصوص وقت میں 400میٹر تک بھاگنا اور اتنا ہی تیرنا اور پھر دوڑنا ہوتا ہے۔ اُسے Run, Swim, Runکے اصول پر پورا اُترنا اور خود کو فِٹ رکھنا پڑتا ہے۔ یعنی پیشنٹ (ڈوبنے والا فرد) کو دیکھ کر بھاگنا، تیراکی کرنا اور دوڑتے ہوئے پیشنٹ کو ساحل پر لے کر آنا۔ اس سارے عمل کا دورانیہ 3منٹ ہوتا ہے اور اگر کوئی لائف گارڈ بروقت ڈُوبنے والے فرد تک نہ پہنچ سکے، تو وہ ڈیڈ باڈی ہی واپس لے کر آئے گا، لیکن اگر کوئی تیراک کُھلے سمندر میں پھنس جاتا ہے، تو تادیر سطحِ آب پر رہنے کی صلاحیت کا حامل ہونے کی وجہ سے اسے تاخیر سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ نا ہم وار مقام پر ماہر سے ماہر تیراک کے بھی ہاتھ پائوں جواب دے جاتے ہیں اور وہ صرف پانی پر لیٹ کر یا فلوٹنگ ہی سے خود کو بچا سکتا ہے۔‘‘ لائف گارڈز کو درپیش خطرات کے بارے میں پیٹرول کیپٹن، انورکا کہنا تھا کہ’’ گرچہ لائف گارڈز تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے سمندر میں چھلانگ لگاتے ہیں، لیکن بعض مقامات پر لہریں اس قدر تُند و تیز ہوتی ہیں کہ یہ لائف گارڈ کو سنگلاح چٹانوں پر پٹخ دیتی ہیں، جس سے وہ شدید زخمی ہو جاتے ہیں۔ تاہم، انہیں انسانی جان کی حُرمت اور اپنی ذمّے داریوں کے پیشِ نظر اپنی جان جوکھم میں ڈالنی ہی پڑتی ہے، لیکن اس کے باوجود شہری اُن کے ساتھ اچّھا رویّہ اختیارنہیں کرتے۔‘‘

ساحل پر ریسکیو ٹیم کو درپیش مشکلات کے بارے میں سیّد محمد احسان نے بتایا کہ’’ ہماری آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ عطیات ہیں۔ تاہم، کاروباری طبقے سے معاونت نہ ملنے کے سبب آمدنی کا حصول ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چُکا ہے۔ آج سے چند برس قبل جب مختلف اداروں نے چرنا ساحل پر اسکوبا ڈائیونگ کاسلسلہ شروع کیا، تو وہ ہم سے لائف گارڈز مستعار لیتے تھے۔ یہ دیکھ کر ہم نے ایڈونچر ٹورز کے ذریعے آمدنی حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پاس تیراک اور کشتیاں پہلے ہی سے موجود تھیں اور تقریباً 4برس قبل واٹر اسپورٹس کے آلات بھی خریدنا شروع کر دیے۔ گرچہ حال ہی میں سندھ حکومت نے ہمیں کچھ فنڈ دیا ہے، لیکن ہماری آمدنی کا اہم ذریعہ یہی ایڈونچر ٹورز ہیں، جن کی مدد سے ہم ریسکیوکی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ شہریوں میں شعور کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ مذہبی اور ثقافتی وجوہ کے باعث بیش تر شہری پورے کپڑوں کے ساتھ پانی میں اُترتے ہیں اور لائف گارڈز کی ہدایات پر کان نہیں دھرتے۔ یہی وجہ ہے کہ بالخصوص مون سون میں ڈُوبنے کے واقعات پیش آتے ہیں۔ پھر اکتوبر سے مارچ تک جاری رہنے والے مچھلی کے شکار کے سیزن میں ہمیں لائف گارڈز کی پوری نفری دست یاب نہیں ہوتی۔ نیز، نمکین پانی کی وجہ سے لائف سیونگ آلات بہت جلد ناکارہ ہو جاتے ہیں اور ان کی مستقل بنیادوں پر اپ گریڈیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، لائف گارڈز کو ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے، جس کے نتیجے میں وقت کی بچت اور ریسکیو ٹیم کی کارکردگی میں اضافہ ہو گا۔اسی طرح ساحلوں پر ہنگامی طبّی امداد کی سہولتوں کی بھی شدید کمی ہے۔ اگر کسی ڈُوبتے ہوئے فرد کو بر وقت سمندر سے نکال بھی لیا جائے، تو اس کی جان بچانے کے لیے عموماً 5منٹ کے اندر اندر اسے آکسیجن فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہاکس بے سے قریب ترین آکسیجن فراہم کرنے کی سہولت سے آراستہ اسپتال بھی 12کلو میٹر دُور ہے۔ اگر بروقت سی پی آر (کارڈیو پلمونری ری سس سائٹیشن)مل جائے، تو کئی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، یہ اتنا اہم عمل ہے کہ اگر کسی فرد کو سی پی آر آتا ہو، تو وہ ہارٹ اٹیک سے متاثرہ فرد کی جان بھی بچا سکتا ہے۔ پھرہم خواتین کو سی پی آر نہیں دے سکتے، جس کی وجہ سےڈُوبنے سے بچنے والی خواتین کی اسپتال جاتے ہوئے راستے ہی میں موت واقع ہو جاتی ہے۔‘‘ ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ ’’کیا خواتین لائف گارڈز کی خدمات حاصل نہیں کی جا سکتیں؟‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’’ایسا ممکن ہے، لیکن ہمارے ہاں خواتین تیراکوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اگر ہم کسی لڑکی کو لائف گارڈ بنا بھی دیں، تو اس کے لیےمیلوں پر محیط ساحل پر کسی خاتون کو سی پی آر دینے کے لیے پہنچنا بہت مشکل ہو گا اور تب تک سی پی آر کی ضرورت ہی ختم ہو چکی ہو گی۔‘‘ایک اہم مسئلے کی جانب توجہّ دلاتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ’’ساحلوں پر موجود ہجوم میں شاذ و نادر ہی کوئی ایسا فرد ہوتا ہے کہ جو سی پی آر دینے میں مہارت رکھتا ہو۔ نیز، ساحلوں پر واقع ہَٹس میں فرسٹ ایڈ کِٹس بھی موجود نہیں ہوتیں۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ساحل پر آنے والے افراد ہَٹ کرائے پر لیتے ہوئے مالکان سے ابتدائی طبّی امداد کی سہولتوں کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے، جو ان سے کرائے کی عوض بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔‘‘کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار معراج خان نے بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ ڈُوبنے سے بچائے جانے والے زیادہ ترافراد ایسے ہوتے ہیں، جو اسپتال جاتے ہوئے راستے میں دَم توڑ جاتے ہیں۔ گرچہ ایمرجینسی ریسپانس سینٹر میں پیرا میڈیکل اسٹاف موجود ہے، لیکن یہ صرف وِیک اینڈز پر محدود وقت ہی کے لیے دست یاب ہوتا ہے۔‘‘

ایدھی فائونڈیشن کی میرین اینڈ ریسکیو سروس سے وابستہ 10لائف سیونگ گارڈز سال بَھر ہاکس بے اور سی یو پر موجود ہوتے ہیں ۔ ساحل پر رش کے دنوں میں ایدھی فائونڈیشن مختلف مقامات پر میڈیکل کیمپ لگا کر طبّی سہولتیں فراہم کرتی ہے اوراس کی ایمبولینسزبھی موجود ہوتی ہیں۔ اس بارے میں سروس کے انچارج، محمد اورنگ زیب نے بتایا کہ ’’ہمارے تمام لائف سیونگ گارڈز مقامی طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ تیرنے اور ڈُوبنے سے بچانے کے علاوہ یہ سی پی آر دینے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے پاس پیٹرولنگ اور ریسکیو کے تمام ضروری آلات موجود ہیں، جن میں لائف جیکٹس، ریسکیو ٹیوبز اور 15عدد ریسکیو بوٹس شامل ہیں۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ رش کے دِنوں میں بعض افراد رضا کارانہ طور پر بھی لائف گارڈ کے طور پر کام کرتے ہیں، جب کہ ایدھی فائونڈیشن اپنے گارڈز کو 15سے 20ہزار روپے ماہانہ معاوضہ دیتی ہے اور سمندر میں ڈُوبنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر مزید نوجوانوں کو لائف سیونگ کی تربیت فراہم کرنے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ سمندر کے علاوہ یہ لائف گارڈز تالابوں، کنوئوں اور واٹر ٹینکس سمیت دیگر مقامات پر ڈوبنے والے افراد کو بھی نکالتے ہیں۔‘‘ 

رِ پ کرنٹ اور ڈُوبنے کے واقعات

ہمیں اکثر سمندر میں متعدد افراد کی ایک ساتھ ڈُوبنے کی خبریں موصول ہوتی ہیں ۔ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ کوئی فرد تنہا ڈُوبا ہو۔ اس کی وجہ ہے کہ ساحل پر موجودافراد کسی کو غرقِ آب ہوتا نہیں دیکھ سکتے اور چاہے انہیں تیراکی آتی ہو یا نہ آتی ہو، وہ ڈُوبتے شخص کی جان بچانے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگا دیتے ہیںاورنتیجتاًخود بھی ڈُوب جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ سمندر میں جس جگہ شہری ڈُوبتے ہیں، وہاں سے ماہر تیراک کا نکلنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔اس مقام پر رِپ کرنٹس یا پانی کے بہائو کی مخالف سمت میں بہنے والی طاقت وَر لہریں موجود ہوتی ہیں،جو پانی میں اُترنے والے فرد کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔اسے عُرفِ عام میں’’خراب پانی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک لائف سیونگ ادارے میں پیٹرول کیپٹن کا کردار خاصا اہم ہوتا ہے۔ یہ لائف گارڈز کو زیادہ حسّاس مقامات پر تعیّنات اور ریسکیو آپریشن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پالس ریسکیوکے پیٹرول کیپٹن،انورنے ملائیشیا سے بھی لائف سیونگ کی تربیت حاصل کی ہے ۔ یہ ساحل کے آس پاس واقع دیہات سے تعلق رکھنے والے بروہی اور بلوچی زبان بولنے والے نوجوانوں کو اُن کی مادری زبان میں لائف سیونگ کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ڈُوبنے کے بیش تر واقعات جون، جولائی کے مہینے میں رُونما ہوتے ہیں۔ ساحل پر آنے والے اکثر خاندان کسی بھی خُشک مقام کو محفوظ سمجھ کر وہاں ٹھکانا بنا لیتے ہیں اور بزرگوں، بچّوں کو سامان کی رکھوالی کی ذمّے داری سونپ کر خود پانی میں چلے جاتے ہیں۔ یہ بہ ظاہر محفوظ مقام ہوتا ہے، لیکن یہاں رِپ کرنٹس موجود ہوتی ہیں۔ یہ غیر محسوس انداز سے آگے بڑھتی ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سب کچھ اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔ اس حوالے سے مَیں آپ کو ایک آنکھوں دیکھا واقعہ سُنانا چاہتا ہوں۔ہوا کچھ یوں کہ کچھ عرصہ قبل ایک فیملی سینڈز پِٹ کے ساحل پر آئی اور ایک بوڑھی خاتون اور 5بچّوں کو سامان کی رکھوالی کے لیے خُشک مقام پر بِٹھا کر خود پانی میں اُتر گئی۔ بد قسمتی سے اُس مقام کے قریب رِپ کرنٹس موجود تھیں۔ ہمارے ایک لائف گارڈ کی نظر خاتون اور بچّوں پر پڑی، تو اس نے عُمر رسیدہ خاتون کو متنبہّ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کچھ ہی دیر بعد پانی آ جائے گا، لہٰذا وہ یہاں سے اُٹھ جائیں، لیکن انہوں نے اُس کی بات ماننے کی بہ جائے اُسے تھپڑ دے مارا۔ دراصل، شہری یہ سمجھتے ہیں کہ شاید لائف گارڈز انہیں تنگ کرنے کے لیے اس جگہ سے ہٹا رہے ہیں اور وہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ بہر کیف، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانچوں بچّے پانی میں بہہ گئے اور اُن میں سے تین ہی کو زندہ نکالا جا سکا۔ لائف گارڈز کو رِپ کرنٹس کا علم ہوتا ہے، لیکن شہری خود کو اس مقام پر محفوظ سمجھتے ہیں اور پھر وہاں پھنسے افراد کو صرف لائف گارڈ ہی باہر نکال سکتا ہے۔ ‘‘

کراچی کے ساحل خطرناک کیوں …؟؟

کراچی کے ساحلوں کی خصوصیات پر بات کرتے ہوئے ہاکس بے پر کے ایم سی کے تحت قائم، ایمرجینسی ریسپانس سینٹر کے اسٹیشن آفیسر، معراج خان کا کہنا تھاکہ ’’دُنیا کے دیگر ساحلوں کے برعکس ہمارے ساحلوں کی سطح ہم وار نہیں اور نہ ہی خطرات کم کرنے کے لیے ان میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے۔ لہروں کی حرکت کم، سطح ہم وار اور زیرِزمین چٹانوں کا صفایا کر کے ساحلوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے ۔ یاد رہے کہ ان تبدیلیوں کے بغیر بحیرۂ عرب کی ساحلی پٹّی سیر کے لیے آنے والے افراد کے لیے مہمان نواز نہیں بن سکتی۔ یہاں پانی کا زور توڑنے والی مونگے کی چٹانیں نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے دھارے بہت طاقت وَر ہوتے ہیں۔‘ ‘اس حوالے سے سیّد محمد احسان نے بتایا کہ ’’ ہاکس بے کا ساحل اپنی ذخیرہ ہونے والی لہروں کی وجہ سے بہت زیادہ خطرناک ہے۔ یہ تُندو تیز لہریں پانی کی کم تر سطح پر پیدا ہوتی ہیں اور پوری طاقت کے ساتھ کم گہرے پانی سے ٹکراتی ہیں۔ پانی کی کم سطح ان ذخیرہ ہونے والی لہروں کو اپنے اندر چُھپا لیتی ہے، جس کی وجہ سے سمندر بہ ظاہر ساکت نظر آتا ہے۔‘‘ سینڈز پِٹ سمیت دیگر ساحلوں کے بارے میں بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’ ہاکس بے کی طرح دیگر ساحلوں میں بھی مختلف خطرات پوشیدہ ہیں۔ مثال کے طور سینڈز پِٹ کا ساحل نا ہم وار اور چار فٹ تک پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اسی طرح سُنہرا بِیچ کی سطح پھسلواں ہے، جس کی وجہ سے ساحل پر آنے والے افراد کے توازن کھونے اور سمندر میں ڈُوبنے کا خطرہ ہوتا ہے۔‘‘  

تازہ ترین