• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغان سرحد سے حملے کے پیچھے سو فیصد اشرف غنی کی تائید شامل ،حامد میر

کراچی (ٹی وی رپورٹ)پاک افغان سرحد پر باڑ لگاتے ہوئے دہشت گردوں کی فائرنگ سے تین فوجیوں کی شہادت پر جیونیوز کی اسپیشل ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے سنیئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ حملے کے پیچھے سو فیصد اشرف غنی کی تائید شامل ہے،تجزیہ کارشہزاد چوہدری نے کہا کہ آج بھی ہم افغانستان کی خودمختاری اور سالمیت کا لحاظ کرتے ہیں اور قدر کرتے ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہواافغانستان کے راستے سے پاکستان پر جو حملے کیے جارہے ہیں یہ کئی دفعہ رپورٹ نہیں ہوتے لیکن یہ پہلے بہت زیادہ حملے ہوتے تھے اب یہ کم ہوچکے ہیں لیکن یہ حملے ایسے وقت میں کیے جارہے ہیں جب کہ پاکستان کی طرف سے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور صرف ایک دن پہلے امریکہ کی ایک بڑی اہم ڈپلومیٹ ایلس بل اور افغانستان کے امور کے لئے جو امریکہ کے صدر کے خصوصی نمائندے ہیں زلمے خلیل زاد وہ پاکستان آئے ہوئے تھے اُن کی پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں اور انہوں نے جو افغان مفاہمتی عمل ہے اس میں پاکستان کا کردار ہے اس کو خراج تحسین پیش کیا اس کے فوراً بعد جو حملہ ہوا ہے اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی افغان پیس پراسیس میں ایک مرکزی کردار چاہتے ہیں وہ ان کو نہیں مل رہا اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے مختلف دھڑے نا صرف یہ کہ افغان طالبان سابق صدر حامد کرزئی اور اس کے علاوہ جو سابق شمالی اتحاد ہے اس کے اہم لیڈریونس اور بہت سے جو اہم افغان رہنما ہیں وہ اشرف غنی پر عدم اعتماد کر چکے ہیں تو اشرف غنی افغان انٹیلی جنس این ڈی ایس کے ذریعے افغانستان کے راستے سے پاکستان میں مداخلت کر رہے ہیں اور اشرف غنی کی جو پاکستان کی اندرونی معاملات میں مداخلت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے یہاں تک وہ پاکستان کے ذاتی معاملات میں بھی مداخلت کرتے ہیں اور جب پچھلے دنوں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ افغانستان میں پیس پراسیس کو آگے لے جانے کے لئے عبوری حکومت کا ہونا ضروری ہے اس پر اشرف غنی نے بہت اعتراض کیا تھا حالانکہ وہ بات زلمے خلیل زاد اور دیگر افغان گروپ کے درمیان ڈیسکس ہو رہی تھی اور وہ سیکریٹ نہیں ہے عمران خان نے عمومی بات کی تھی اس کو انہوں نے بہت بڑا ایشو بنانے کی کوشش کی پھر انہوں نے اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا وہاں پر بھی انہوں نے جو افغان سفیر ہیں اقوام متحدہ میں انہوں نے بھی ایک لیٹر وہاں پر دیا یہ جو حملہ ہوا ہے ۔افغان سائیڈ سے پاکستان کی سرزمین پر اس میں کسی کو کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ اس حملے کے پیچھے سو فیصد اشرف غنی کی تائید شامل ہے اور وہ تمام لوگ جو افغانستان اور پاکستان کے اندر اس پورے خطے میں وہ تمام لوگ جو اشرف غنی کی پراکسی کا کردار ادا کر رہے ہیں اس میں صرف وہ لوگ نہیں ہیں جن کے ہاتھ میں بندوق ہے بلکہ بہت سے وہ لوگ بھی ہیں جن کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے اور وہ امن کے نام نہاد علمبردار بنے ہوئے ہیں پاکستانی عوام کو چاہیے یہ جو سازشی عناصر ہیں اس کو پہچانیں یہ جو بدھ کو حملہ ہوا ہے میں سمجھتا ہوں حکومت پاکستان کو براہ راست اشرف غنی کی مذمت کرنی چاہیے کیوں کہ اس حملے کے پیچھے اشرف غنی کا ہاتھ ہے ۔یہ دباؤ غیر ضروری ہے اس لئے یہ جو پاک افغان بارڈر پر ایک باڑ لگائی جارہی ہے اس کا مقصد دہشت گردی کو روکنا ہے کراس بارڈر دہشت گردی کو روکنا ہے یہاں پر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کچھ جو افغانستان کے اندر بلکہ مغرب میں بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ایک طرف پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں مداخلت کرتا ہے جب پاکستان یہ کہتا ہے آپ مداخلت کا الزام لگا رہے ہیں تو ہم اپنا بارڈر سیل کردیتے ہیں اور اس کو انٹرنیشنل بارڈر کی حیثیت دیتے ہیں اور اس پر باڑ لگا دیتے ہیں تاکہ کراس بارڈر دہشت گردی روکی جا سکے اس پر پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی قبول نہیں ہے یہ ان کا عجیب تضاد ہے۔

تازہ ترین