• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’عزیر بلوچ کہیں بھی ہو، اسے پولیس کے سامنے پیش کریں ‘‘

سندھ ہائی کورٹ میں عزیر بلوچ کے گینگ کے ہاتھوں 4 شہریوں کی گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران محکمہ داخلہ اور پولیس نے پیش رفت رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔

سندھ ہائی کورٹ نے چار شہریوں کی گمشدگی سے متعلق درخواست پر صوبائی محکمہ داخلہ اور پولیس کی پیش رفت رپورٹ مسترد کر دی۔

عدالتِ عالیہ نے سیکریٹری داخلہ سندھ کو ذاتی حیثیت میں 30 مئی کو طلب کر لیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ ہمیں مجبور نہ کریں، عزیر بلوچ کہیں بھی ہو، اسے پولیس کے سامنے پیش کریں۔

ایس ایس پی انوسٹی گیشن نے بتایا کہ عزیر بلوچ کی حوالگی کے لیے وزراتِ دفاع کو خط لکھ دیا ہے،جس نے خط کا جواب ہی نہیں دیا۔

عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں مجبور مت کریں۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نعمت اللہ نے استفسار کیا کہ عزیر بلوچ ایک کیس میں مطلوب ہے تو پولیس اس کا بیان بھی نہیں لے سکتی؟

پولیس کے نمائندے نے عدالت میں کہا کہ لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ نے چاروں افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا، عزیر بلوچ کا اعترافی بیان اور جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں پیش کی جا چکی ہے۔

عدالت میں پیش کی گئی پولیس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عزیر بلوچ نے حوالدار امین، غازی خان، شیر افضل اور شیراز کو اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا تھا۔

پولیس رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے 2011ء میں محمد امین سے بدلہ لینے کے لیے اسے اغوا کے بعد قتل کیا، قتل کے بعد مقتولین کی لاشیں تیزاب میں پھینکی گئیں۔

پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چاروں شہریوں کو قتل کرنے والے ملزمان بھی مارے جا چکے ہیں۔

درخواست کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ چاروں افراد کے اغواء میں ملوث لیاری گینگ وار کے ملزم شاہد بکک اور ذاکر ڈاڈا جیل میں ہیں،پولیس ان ملزمان سے تحقیقات نہیں کرتی۔

درخواست گزار کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ پولیس درخواست گزاروں کو کبھی قبرستانوں میں لے جاتی ہے، کبھی کہیں اور لے جاتی ہے۔

تازہ ترین