• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

(1)بلڈ ٹیسٹ کے لئے اپنا خون نکلوانے یاکسی شدید ضرورت مند مریض کو خون کا عطیہ دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔فقہی اصول یہ ہے کہ’’اَلْفِطْرُمِمَّادَخَلَ وَلَیْسَ مِمَّا خَرَجَ‘‘ (بدن میں کوئی چیز داخل ہونے سے روزہ ٹوٹتا ہے ،خارج ہونے سے نہیں ٹوٹتا)۔

حدیث پاک میں ہے :’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فصد (یعنی حِجَامہ) لگوائی اورآپ مُحرم تھے اور آپ نے فصد لگوائی اور آپ روزہ دور تھے ، (بخاری : 1938)‘‘۔

(2)کان میں دوا یا تیل ٹپکانے یا دانستہ پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(3)ہماری تحقیق کے مطابق آنکھ میں دواڈالنے یا کسی بھی قسم کا انجکشن لگانے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے ،بعض علماء کے نزدیک اِس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ جس مسئلے کے بارے میں قرآن وحدیث میں صریح حکم نہ ہو ،وہ مسئلہ اجتہادی کہلاتاہے ،اس میں لوگوں کو جس عالم پر اعتماد ہو ،اُس کے فتوے پر عمل کریں ۔ اجتہادی مسائل میں فقہاء کا اختلاف ایساہی ہے ،جس طرح ہمارے اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا ماخَذ آئین ،قانون اور مُسلَّمہ عدالتی نظائر ہوتے ہیں ،لیکن بعض اوقات اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے فیصلے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ اجتہادی مسائل میں فقہاء کے اختلاف کی صورت بھی یہی ہے ۔شام کے مشہور حنفی فقیہ ڈاکٹر وھبہ الزحیلی لکھتے ہیں: ’’انجکشن پٹھوں میں جلد کے اندرلگانا ہو یا رگوں میں لگانا ہو،بہتر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں نہ لگائے اور افطار کے وقت تک انتظار کرے ،اگر رگوںمیں خون لگائے گا ، توروزہ فاسد ہوجائے گا ،(فقہ الاسلامی وادِلّتہ،جلد3،ص: 1412)‘‘۔مفتی وقارالدین ؒ لکھتے ہیں: ’’روزے کی حالت میں انجکشن لگوانا ’’مختلف فیہ‘‘ یعنی اس میں اختلاف ہے ۔ہماری رائے کے مطابق ،اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔لہٰذاروزے دار کو انجکشن لگوانے سے بچنا چاہئے۔انجکشن دن میں لگوانا ضروری نہیں،رات میں بھی لگوایا جاسکتا ہے،اس لئے رات میں لگوائیں،(وقارالفتاویٰ ،جلد2،ص:429)‘‘۔

(4)روزے کی حالت میں قَے آنے کی فقہائے کرام نے24ممکنہ صورتیں بیان کی ہیں،ان میں سے صرف دو صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتاہے :(الف) بے اختیار منہ بھر کر قَےآئے اور اُس میں سے کچھ مواد واپس نگل لے ۔(ب) طبعی مجبوری کے تحت جان بوجھ کر قَے کرے ،جسے عربی میں ’’اِسْتِقَاء‘‘کہتے ہیں، اگر ایسی قَے منہ بھرآجائے ،تو خواہ واپس حلق میں کچھ بھی نہ نگلے ،روزہ ٹوٹ جائے گا۔(ج) باقی صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس کو روزے کی حالت میں قَے آئی،اُس پر کوئی قضا نہیں اور اگر اُس نے جان بوجھ کر قَے کی تو اُسے چاہئے کہ قضا کرے ، (ترمذی:720)‘‘۔

(5)نیت دل کے ارادے کا نام ہے ،زبانی نیت ضروری نہیں ہے ،مستحب ہے ۔لہٰذا اگر رات ہی سے نیت کرنا چاہے ،تو کرسکتاہے ،اِس صورت میں ان الفاظ کے ساتھ نیت کرے :’’ میں اللہ تعالیٰ کے لئے کل کے روزے کی نیت کرتاہوں ‘‘اور صبح صادق یعنی سَحری کے وقت یا سَحری کے بعد کرنا چاہے ،تو ان الفاظ کے ساتھ نیت کرے :’’ میں اللہ تعالیٰ کے لئے آج کے روزے کی نیت کرتاہوں ‘‘۔

(6)سَحری سے پہلے غسل جنابت واجب ہوچکاہو اور سَحر ختم ہونے سے پہلے نہ کرسکاہو یا دن میں روزے کے دوران نیند کی حالت میں جنبی ہوجائے ،تو روزہ فاسد نہیں ہوتا اور نہ ہی اِس سے اجر میں کمی واقع ہوتی ہے ۔البتہ غُسلِ واجب کو اتنی دیر تک مؤخر کرنا کہ ایک فرض نماز کا وقت گزرجائے ،مکروہ تحریمی ہے،کیونکہ اِس سے نماز قضا ہوجائے گی ۔

(7)وضو کے دوران مسواک کرنا عام دنوں میں بھی سنّت ہے اور رمضان المبارک کے دوران روزے کی حالت میں بھی سنّت ہے،خواہ عصر کے وقت یا عصر کے بعد بھی کرے ۔روزے کی حالت میں برش کے ساتھ یاکسی بھی پاؤڈر کے ذریعے دانتوں کو صاف کرنا احتیاط کے خلاف ہے اور کراہت کا سبب ہے ،لیکن ایسا کرنے سے اگر ذرّات حلق میں نہ جائیں ،تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

(8)غیبت کرنا ،جھوٹ بولنا ،چغلی کھانا ،دوسروں پر بہتان تراشی کرنا اور اُن کی عیب جوئی کرنا ،دوسروں کو ایذا پہنچانا ،بےہودہ یا جنسی تَلذّذ کی باتیں کرنا عام حالت میں بھی منع ہیں اور روزے کی حالت میں ان کی ممانعت وحُرمت اورزیادہ ہوجاتی ہے ۔اِن باتوں سے فقہی اعتبارسے توروزہ فاسد ہونے کا حکم نہیںلگایاجاتا ،لیکن روزہ مکروہ ہوجاتاہے اور روزے دار روزے کے اجر کامل سے محروم ہوجاتاہے ۔

(…جاری ہے…)

تازہ ترین