تجمل حسین خان، حیدرآباد
آئی جی سندھ سید کلیم امام کی جانب سے سندھ پولیس کو انتظامی طورپر 3ریجن کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر /لاڑکانہ میں تقسیم کئے جانے کے بعد حیدرآباد ریجن میں اعلیٰ افسران کے درمیان اختیارات کی جنگ چھڑ گئی ہے ۔ریجنل پولیس آفیسر کی جانب سے حیدرآباد سمیت دیگراضلاع میں اسپیشل ٹیموں کے ذریعے مین پوری وگٹکے‘ منشیات کے اڈوں پرچھاپوں ‘ دوسری جانب ایس ایچ اوز ‘ مختلف اضلاع کے دفاتر اورمحکموں کے افسران اور تھانوں میں تعینات ہیڈمحرر اور منشیوں تک کے آئے روزتبادلوں اورمعطلی کےریجنل پولیس آفس سے احکامات سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن گئے ہیں۔ ضلع حیدرآباد سمیت دیگراضلاع کے افسران اس صورت حال سے سخت پریشان ہیں ۔پولیس افسران کاکہناہے کہ اضلاع میں کمانڈنگ آفیسر ایس ایس پی ہوتاہے ‘بالا سطح کے افسران براہ راست نچلی سطح کے افسران کے تبادلے یا معطلی نہیں کرسکتے ۔شکایات کی صورت میں معطلی یاچارج شیٹ ‘ شوکاز نوٹس کی سفارش کرسکتے ہیں جس پر عمل کرنا ایس ایس پیز کا کام ہے۔ براہ راست اقدام قانون کے خلاف ہے۔ پولیس افسران کی معطلی بعدازاں بحالی دیگراضلاع میں تبادلے پر احکامات واپس لینے‘ آر پی او آفس سے چھاپوں میں بدنام زمانہ اہل کاروں کے استعمال پر سوشل میڈیا پر یومیہ ردعمل اور بحث کاسلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب اضلاع کے اعلیٰ افسران جن میں ایس ایس پیز‘ ایس پیز ودیگرافسران اس پورے معاملے پر غیررسمی گفتگو میں تو شکوہ کرتے نظرآتے ہیں لیکن کھل کر سامنے آنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔
آر پی او کے حیدرآباد سمیت دیگراضلاع کے حوالے سے احکامات اور سوشل میڈیاپر اختیارات کی جنگ پرجاری بحث کے تناظر میں ایک انٹرویو میں ایڈیشنل آئی جی حیدرآباد (آر پی او) ڈاکٹر غلام سرور جمالی کاکہناہے کہ ڈی آئی جیز اورایس ایس پیز کے اختیارات ان کے پاس ہیں ‘ میرے پاس ڈی آئی جی کے نہیں بلکہ آئی جی سندھ کے اختیارات ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جو آفیسر کام نہیں کرے گا اور اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہوگی وہ ہماری ٹیم میں نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر غلام سرور جمالی نے اس تاثر کو غلط قراردیا کہ وہ ڈی آئی جی یا ایس ایس پیز کے اختیارات استعمال کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پولیس رولز اور پولیس ایکٹ میں ڈی آئی جیز اورایس ایس پیز کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہ انہیں استعمال کررہے ہیں ۔ ایڈیشنل آئی جی حیدرآباد نے کہا کہ اگر کسی ڈی آئی جی کے کام میں مداخلت کرنا پڑی تو اس کے لئے مشاورت کراؤں گا۔ایڈیشنل آئی جی سندھ حیدرآباد ریجن اور آر پی او کی حیثیت سے میرا کام سپروائزنگ کرناہے لیکن آرٹیکل 551اور 550میں آر پی سی مجھے اختیار دیتا ہے جہاں ضرورت محسوس ہو ،چھاپوں کا حکم دوں حالانکہ یہ کام ایس ایس پی ‘متعلقہ ڈی ایس پیز اورایس ایچ اوز کا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں ریجن کے تینوں ڈویژنوں کا ایس ایچ او ہوں جبکہ آئی جی سندھ پورے صوبے کے ایس ایچ او ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے گفتگو میں اطمینان بخش کارکردگی کامظاہرہ نہ کرنے والے ایس ایس پیز کے خلاف کارروائی کابھی عندیہ دیا ۔ ایک سوال پر کہا کہ حیدرآباد ‘میرپورخاص اور نواب شاہ ریجن میں ایسے ایس ایس پیز بھی تعینات ہیں جو پولیس کی بدنامی کاباعث بن رہے ہیں ۔اس پر ایڈیشنل آئی جی حیدرآباد ریجن ڈاکٹر غلام سرور جمالی نے کہا کہ وہ افسران کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کررہے ہیں اگر محسوس ہوا کہ کوئی ٹھیک کام نہیں کررہاہے تو وہ ہماری ٹیم میں شامل نہیں ہوگا۔ تھانوں میں ایس ایچ اوز کی تعیناتی اورکارکردگی کے حوالے سے اے آئی جی حیدرآباد ریجن نے کہا کہ ایس ایچ اوز کو 6ماہ سے ایک سال تک کام کرنے کاموقع دیاجائے ۔اگر وہ کام نہ کریں تو کسی دوسرے اچھے آفیسر کو لایا جائے۔
واضح رہے کہ آر پی او حیدرآباد کے انڈر حیدرآباد ڈویژن کے 9‘ میرپورخاص کے 3 اور نواب شاہ کے 2اضلاع ہیں۔ آر پی او حیدرآباد کے احکامات پر گزشتہ دنوں حیدرآباد اور دادو بعدازاں ٹنڈومحمدخان‘ ٹنڈو الہ یار اورعمرکوٹ کے موٹروہیکل ٹرانسپورٹ افسران ایم ٹی اوز کو معطل کرکے ڈی آئی جی حیدرآباد‘میرپورخاص اورنوابشاہ کو انکوائریوں کے احکامات دیئے تھے جبکہ شکایات ‘ناقص کارکردگی پر ایس ایچ او اے سیکشن حیدرآباد عمران رشید‘ ایس ایچ او بی سیکشن مبارک لاشاری اور ایس ایچ او مارکیٹ منیر عباسی کے دیگر اضلاع تبادلے کئے تھے۔ اسی طرح ضلع حیدرآباد اوردیگراضلاع کے متعددپولیس اہلکاروں،جن میں اے ایس آئی بھی شامل تھے دیگر اضلاع تبادلے کئے تھے اورپولیس رولز کے برخلاف تعینات ہیڈ محرر اور منشیوں کو عہدوں سے ہٹانے کے احکامات دیئے تھے۔ اس کے علاوہ اے آئی جی کی ہدایات پر اسپیشل ٹیموں نے حیدرآباد ‘ ٹنڈو الہ یار ودیگر اضلاع میںمضرصحت مین پوری‘ شراب اورمنشیات کے خلاف کارروائیاں کی تھیں جس کے دوران بھاری مقدار میں مضر صحت مین پوری کاخام مال اورشراب کی بوتلیں برآمدکی گئی تھیں۔
اے آئی جی حیدرآباد ریجن کے اقدامات پر حیدرآباد سمیت دیگر اضلاع کے پولیس افسران میں بے چینی اوراضطراب کی صورتحال ہے ۔نجی ملاقاتوں میں پولیس افسران اے آئی جی کی اضلاع کے امور میں مداخلت پرتو گفتگو کرتے نظرآتے ہیں تاہم کھل کر اس حوالے سے اپنا موقف میڈیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔پولیس افسران کا کہناہے کہ ایس ایچ اوز کے تبادلے تقرریاں‘ اے ایس آئی سےلے کر ہیڈکانسٹیبل اورکانسٹیبل کی تقرری و تبادلے، ایس ایس پی کا استحقاق ہیں۔ آر پی او حیدرآباد ریجن براہ راست تھانوں اور اہلکاروں سے جواب طلبی نہیں کرسکتے ہیں ۔ایس ایس پی کے ذریعے جواب طلبی کی جاسکتی ہے جبکہ ڈی ایس پی کی تقرری جس کا استحقاق آر پی او کو حاصل ہے،وہ کرسکتے ہیں لیکن اس کے لئے بھی ایس ایس پی سے مشاورت ضروری ہے ۔ذرائع کاکہناہے کہ حال ہی میں تبادلہ کئے گئے ڈی ایس پی ٹریفک احمد قریشی کی آر پی او آفس تعیناتی اوران کی جگہ امتیاز بلوچ کی تعیناتی سے ٹریفک کی بدترین صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ پولیس کی وصولیوں میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔ بدنام زمانہ لینڈ گریبر اورپولیس کی منتھلی وصولیوں کے الزام میں برطرف اہلکار عاشق بروہی اور اس کی ٹیم کو آر پی آفس کی چھاپہ مار ٹیموں میں شامل کرکے کیا پیغام دیا جارہاہے۔ ذرائع کاکہناہے کہ عاشق بروہی کی ٹیم نے ایک مرتبہ پھر حیدرآباد سمیت دیگراضلاع سے وصولیوں کاسلسلہ شروع کردیا ہے۔ اس صورتحال کے باعث اچھی شہرت کے حامل افسران کہیں تعیناتی سے گریز کی پالیسی اختیار کئے ہوئے جبکہ تعینات اہل افسران صورتحال سے شدید نالاں اورپریشان ہیں ۔ جرائم میں اضافہ‘ منشیات ‘ جوا‘ سٹہ اور مضرصحت مین پوری وگٹکے کی فروخت بدستور جاری ہے۔ حیدرآبادپولیس اورآر پی او آفس کی ٹیموں کے چھاپوں اور کارروائیوں سے رشوت وصولی کے نرخوں میں تو اضافہ ہورہاہے لیکن عوام بدستور جرائم پیشہ افراد کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں۔