• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہرسال 3مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے، ہم بھی اِس دن کو بہت جوش و خروش سے مناتے ہیں مگر پہلی بار اِس دن کی مناسبت سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے نصیحت آموز پیغام جاری کیا تو فرطِ جذبات سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ بات ہی کچھ ایسی تھی، ریاستِ مدینہ کی طرف مائل اور روحانیت کے قائل وزیراعظم نے سورۃ البقرہ کی ایک آیت ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اُن کے لئے ہے جو جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں۔ محولا بالا آیت کا مفہوم کچھ یوں ہے: سچ کو جھوٹ میں نہ ملائو اور نہ ہی اُس سچ کو چھپائو جو تم جانتے ہو۔ اُس سے چند روز قبل افواجِ پاکستان کے ترجمان نے بھی یہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا تھا کہ ’’اگر 1971میں ہمارا میڈیا آج کے میڈیا کی طرح آزاد ہوتا تو شاید مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔ اگر آپ 1971میں ہوتے تو ہمیں بتاتے کہ پاک فوج یہ غلطی کر رہی ہے، سیاستدان وہ غلطیاں کر رہے ہیں۔ انڈیا یہ گیم کر رہا ہے، ہم خود کو درست کرتے۔ آج پھر یہ موقع ہے۔ پلیز ہمارے کان اور آنکھیں بنئے، ہماری رہنمائی کیجئے‘‘۔ حامد میر اُس پریس کانفرنس میں موجود تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ وہ ضرور یہ نکتہ اُٹھائیں گے کہ اُن کے والد پروفیسر وارث میر جیسے چند باضمیر لوگوں نے ریاست کے لئے آنکھ، کان اور ناک بننے کی کوشش کی تو اُن کے ساتھ کیا ہوا؟ مگر وہ خاموش رہے کیوںکہ خاموشی بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہوا کرتی ہے۔

ویسے تو مجھے ایمان کی حد تک یقین تھا ہی کہ پاکستان میں صحافیوں کو اظہارِ رائے کی جو آزادی میسر ہے، کسی اور ملک میں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن فوج کے ترجمان اور وزیراعظم کی نصیحت آموز گفتگو کے بعد اِس احساس کو تقویت ملی ہے کہ میڈیا کے لوگوں پر کس قدر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جنرل آصف نواز کے بھائی شجاع نواز نے اپنی کتاب "Cross Swords"میں بتایا ہے کہ صحافیوں کو ’’لفافے‘‘ دیکر ساتھ ملانے کی روایت ایوب خان کے دور میں ڈالی گئی۔ شجاع نواز لکھتے ہیں کہ بریگیڈئیر ایف آر خان کو ’’بیورو آف نیشنل ریسرچ اینڈ ری کنسٹرکشن‘‘ کا انچارج بنایا گیا جو دراصل پروپیگنڈا سیل تھا۔ بریگیڈئیر ایف آر خان نے ایوب خان کے لئے گوئبلز کا کردار ادا کیا۔ اُس دور میں معروف صحافیوں کے نام سے کالم لکھ کر قومی اخبارات میں شائع کروائے جاتے اور اُنہیں بطور لفافہ 1000سے 2000روپے ماہوار مشاہرہ دیا جاتا۔ یحییٰ خان کے دور میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات روئیداد خان اور اُس وقت کے پاک فوج کے ترجمان بریگیڈئیر عبدالرحمٰن صدیقی نے قوم کو یہ خبر نہ ہونے دی کہ مشرقی پاکستان میں حالات کس نہج پر جا پہنچے ہیں۔ مغربی پاکستان کے لوگ اِس مغالطے میں رہے کہ بھارت کو دندان شکن جواب دیا جارہا ہے یہاں تک کہ پاکستانیوں کو 16دسمبر کو ڈھاکہ میں شرمناک سرنڈر کی خبر بھی آل انڈیا ریڈیو سے ملی، جس کے بعد ایک مبہم سی خبر سرکاری سطح پر جاری کی گئی۔ بھٹو دور میں بھی صحافیوں کو ابتلا وآزمائش کا سامنا رہا۔ ضیاءالحق کے دورِ آمریت میں تو سنسرشپ عروج پر تھی۔ اخبارات کی کاپی تیار ہو جاتی تو پریس میں جانے سے پہلے پریس انفامیشن ڈیپارٹمنٹ کو دکھا کر منظوری لی جاتی۔ سنسر شپ کو بے نقاب کرنے کے لئے یہ راستہ ڈھونڈا گیا کہ جو خبریں اتار لی جاتیں، اُن کی جگہ کوئی نئی خبر لگانے کے بجائے خالی چھوڑ دی جائے مگر بہت جلد یہ خالی جگہ بھی ناگوار محسوس ہونے لگی اور حکم ہوا کہ جو خبریں اتاری جائیں اُن کی جگہ نئی خبریں لگا کر اخبار شائع کیا جائے۔ کئی اخبارات اور رسائل و جرائد کے ڈیکلریشن منسوخ کر کے اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ حق گو صحافیوں کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے۔

ماضی کے برعکس آج صورتحال یکسر مختلف ہے، کوئی بھی غیر متعصب اور متوازن سوچ رکھنے والا صحافی پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہے کہ موجودہ دور میں کسی قدغن اور دبائو کا تصور موجود نہیں۔ گوئبلز کے دن تمام ہوئے، اب تو سچ کا زمانہ ہے۔ بول کے لب آزاد ہیں تیرے کا مژدہ جانفزا سماعتوں میں رس گھولتا ہے مگر صحافت کے کوچے میں پھر بھی گہرا سکوت بولتا ہے۔ آخر کیوں؟ سوچتا ہوں یہ کیا ماجرا ہے؟ لکھنے اور کہنے والے اِس قدر خوف زدہ کیوں رہتے ہیں؟ ہمیں تو آنکھ، کان اور ناک کا کردار ادا کرنا ہے، ہمیں تو رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔ بہت بھاری ذمہ داری ہے اِن نازک کندھوں پر۔ اگر آج سچ بیان نہ کیا تو اپنے فرض کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہونگے۔ سچ کو چھپانا یا سچ میں جھوٹ ملانا تو بہت سنگین جرم ہے، وزیراعظم کی طرف سے نہایت واضح اور غیر مبہم پیغام مل چکا، افواجِ پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ کی طرف سے دوٹوک وضاحت آچکی، اگر اب بھی کوئی سچ سے گریز پا ہے تو یقیناً یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ اُس کا ایجنڈا یہ ہے کہ سنسر شپ کا فسانہ گھڑ کر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کیا جا سکے۔

مجھ ایسے صحافی جو وزیراعظم کی بات پر من وعن عمل کرنے کو تیار ہیں، اُن کی اڑچن یہ ہے کہ پریس ایڈوائس اور سنسرشپ تو قصہ پارینہ ہو چکی ہاں البتہ اخبارات میں براجمان چند ایڈیٹر نما ’’ڈکٹیٹرز‘‘ بدستور پرانے دور میں زندہ ہیں۔ اشاروں کنایوں میں بھی کوئی بات کی جائے تو نہایت حساس طبیعت کے مالک یہ ایڈیٹرز کالم کو ناقابلِ اشاعت قرار دے دیتے ہیں۔ جس دن وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان صاحب نے سچ میں جھوٹ کی آمیزش سے منع کیا، میں نے جھوٹ سے بھرپور کالم میں سچ کی تھوڑی سی ملاوٹ کردی۔ وزیراعظم کی بات پر عمل کرنا بھی ضروری تھا اور کالم کو ناقابلِ اشاعت ہونے سے بھی بچانا تھا، اِس لئے سچ میں جھوٹ ملانے کے بجائے جھوٹ میں سچ کی تھوڑی سی مقدار شامل کردی لیکن اتنی سی بات پر کالم رُک گیا۔ اندریں حالات وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے التماس ہے کہ بذریعہ نوٹیفکیشن تمام اخبارات کے مدیران کو آگاہ کیا جائے کہ حکومتِ پاکستان بشمول تمام ریاستی ادارے کسی قسم کی سنسرشپ پہ یقین نہیں رکھتے چنانچہ سیلف سنسرشپ سے گریز کیا جائے اور آئندہ سچ میں جھوٹ ملانے یا جھوٹ میں سچ کی آمیزش کرنے سے احتراز کیا جائے۔ اِس نوٹیفکیشن کے باوجود جو لوگ سچ کو جھوٹ میں ملانے سے باز نہ آئیں، اُن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت سنگین غداری کے مقدمات قائم کر کے کڑی سزا دی جائے کیونکہ یہ لوگ ملک دشمن اور غدار ہیں۔

تازہ ترین