• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہِ صیام کو نیکیوں کا موسمِ بہار بھی کہاجاتا ہےجس میں دامن کو خیر اور فلاح سے بھرنابہت آسان ہوتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے آج مسلم معاشرے میں رمضان المبارک کی قدروقیمت پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔پہلے اس مہینے میں لوگوں میں ایثار، ہم دردی، تقوی، خوفِ خدا،حُبّ ِ رسول ﷺ ،اورتزکیہ نفس کا جذبہ نمایاں ہوتا تھا اور لوگ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ لیکن اب بہت سے مسلمان ’’مال‘‘ کمانے اور بنانے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ابھی یہ ماہِ مقدّس شروع بھی نہیں ہواتھاکہ گزشتہ برسوں کی طرح ناجائز منافع خوروں ، ذخیرہ اندوزوں، ملاوٹ کرنے والوں،چور بازاروں اور غیر معیاری اشیا فروخت کرنے والوں نے اپنا کام شروع کردیا تھا۔اسی طرح ہمارے معاشرے میں اس ماہ میں دیگر مسائل بھی سر اٹھاتے ہیں۔

رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوش ربااضافہ ہوچکا ہے۔منہگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔غریب عوام کے لیے دووقت کی باعزت روٹی کمانابھی مشکل بنادیا گیا ہے ۔ ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیز گراں فروشی کے خلاف بے بس نظر آتی ہیں۔ناجائز منافع خوری اورذخیرہ اندوزی کے خلاف کوئی خاص تادیبی کارروائی نہیں کی جارہی۔اگر کہیں ملزموں کو پکڑبھی لیاجاتاہے تو معمولی جرمانہ کرکے پھر سے عوام کو لوٹنے کے لیے چھوڑدیاجاتا ہے۔

ہر برس حکومت کی جانب سے اربوں روپے کے رمضان پیکیج کااعلان توکردیاجاتاہے مگر اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے۔حکومتی ذمے داران ہی خردبرد کرلیتے ہیں۔ان پیکیجز کاصرف20سے30فی صد ہی عوم تک پہنچ پاتاہے۔سستے بازاروں میں اشیائےضروریہ ناقص ، غیر معیاری اور زاید المیعاد ہونے کی شکایات عام ہیں ۔ چیک اینڈ بیلنس کاکوئی واضح نظام موجود نہیں۔

رمضان کے آغاز سے قبل یہ خبر آئی تھی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے رمضان میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں کنٹرول کرنےکےلیےمتعلقہ حکام کوہدایات جاری کردی ہیں۔لیکن ہوا اس کے برعکس ۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی گراں فروشی کا سلسلہ عروج پر پہنچ گیا، سبزیاں، پھل، دالیں اور دیگر اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے مزیددور ہوگئی ہیں۔

یوں تو یہاں منہگائی کا زور پورا سال رہتا ہے، لیکن رمضان سے کچھ دن پہلے اوراس ماہ کے دوران اشیا خورو نوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔اس ماہِ مقدس میں ہر مسلمان گھرانے کےاخراجات عام دنوں سے زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ہر سال ماہ رمضان میں اشیائے خوردونوش کو سستا کرنے اورقیمتوںمیں استحکام لانے کے لئے حکومت عوام سے جھوٹے وعدے کرتی ہے، خصوصی رمضان پیکچز کا اعلان کیا جاتا ہے اورپرائس کنٹرول کمیٹیز کو ہائی الرٹ کیا جاتا ہے۔لیکن ان سارے اقدامات کے باوجود ماہ رمضان میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔

ساری دنیا میں حکومتیں اورادارےمذہبی ایام اور تہواروں کے موقعے پر اشیائے صرف کی قیمتیںکم کر دیتے ہیں۔ عیسائیوں کے مذہبی تہوار کرسمس کو دیکھ لیں، ان دنوں میں اشیائےضرورت سستی کر دی جاتی ہیں تا کہ غریب افرادبھی کرسمس کی خوشیاں مناسکیں۔ افسوس کہ ہم پاکستانی اپنے کو مسلمان کہلواتے ہیں، لیکن اپنے مذہب کے لازوال سچے اقوال و رہنما اصولوں کی تقلید نہیں کرتے۔ رمضان میں منہگائی کرنے میں ذخیرہ اندوز، ٹھیلے والے، دکان دار اورگرانی روکنے کے ذمے دار سرکاری افسران، سب ہی شریک ہوتے ہیں اور ان پر چیک رکھنے والے خوابِ غفلت کے شکار عمال اس نہایت سنجیدہ مسلے کو نظر اندر کر دیتےہیں۔

برسوں سے جاری روایت کے مطابق اس بار بھی رمضان المبارک کے دوران کھانے پینے کی اشیاءکے نرخ کنٹرول میں رکھنے کےلیےروایتی سرکاری فیصلے اور اقدامات کیے جارہے ہیں،مگر ان سے پہلے ہی چینی ، بیسن، چنے ، گھی، دالوں ، دودھ، دہی ،کھجور ،پھلوں،گوشت اور دیگر اشیاءکی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔عوامی حلقے کہتے ہیں کہ تاجروں نے رمضان سمیت تمام تہواروں کو کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے ۔ تاہم اشیائے ضروریہ کے تھوک فروش سارا الزام حکومت کے سر تھوپتے ہیں اور ہول سیلرز پر لگنے والے الزامات کو درست نہیں قراردیتے۔

چند برسوں کے دوران مہنگائی میں کئی سو فی صد کے لگ بھگ اضافے نے عوام کی قوت برداشت ختم کردی ہے۔حکومت کی جانب سے ہرسال بلند بانگ دعوے کیے جاتے اور اخباری بیانات سامنے آتے ہیں،لیکن منہگائی قابو میں آنے کا نام نہیں لیتی ۔اس کی ایک اور مثال گائے یا بکرے کے گوشت کی قیمتوں کا آسمان کو چھونا ہے۔

ذخیرہ اندوزی یا مہنگائی پر قابو پانااتنا مشکل کام نہیں ہے، اس کےلیے محض عزم اور ارادے کی ضرورت ہے ۔ مگر حکومت کی جانب سے ہرسال عارضی طریقہ کار ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے شروع میں کچھ دن سختی دکھانے کے بعد حکومتی کارروائیاں سست ہوجاتی ہیں۔خصوصاً ماہ مبارک کے دوران پھلوں کی طلب بڑھتے ہی منہ مانگے دام طلب کیے جانے لگتے ہیں ۔ حکومت تقریبا ًہر سال عوام کو ریلیف دینےکی غرض سے رمضان پیکیج کااعلان کرتی ہے، لیکن چینی، بیسن ، گھی،تیل، آٹا اور مختلف اقسام کی دالیں،مشروبات وغیرہ یوٹیلیٹی اسٹورزسے حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ماہ رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کی برسات کا مہینہ ہے ،لیکن اس کے برخلاف حال یہ ہے کہ سبزی ،پھل ،گوشت، اجناس ، دودھ دہی کے تاجر، درزی ، کریانہ اسٹور اور بیکری کے مالکان سمیت پورا کاروباری طبقہ رمضان المبارک میںصلہ رحمی ، محبت اور رحم دلی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے لوٹ کھسوٹ اور ناجائز منافع خوری میں مصروف ہے۔دوسری طرف حکومت اور انتظامیہ بے بس اور خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے ۔

ایسے میں عوام ذخیرہ اندوزوں اور ناجائزمنافع خوروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر برسر اقتدار طبقہ رمضان المبارک میں عوام الناس کو واقعتاً کوئی ریلیف پہنچانا چاہتا ہے تو اسے بعض بہت سخت فیصلے کرنے ہوں گے ۔ حکومت کو مٹھی بھر مفاد پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بننے اور ان کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے بجائے سرکاری نرخوںپر اشیا کی فروخت کو یقینی بنانے اور گراں فروشی کی روک تھام کےلیے علمائےکرام، معززین ، صحافیوں ، سیاسی و سماجی کارکنوں اور پولیس و سول انتظامیہ پر مشتمل ایسی خصوصی کمیٹیز تشکیل دینی چاہییں جو رمضان المبارک کے دوران اور اس کے بعد بھی منہگائی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کر سکیں۔

دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا طرزِ عمل

’کرسمس‘‘، ’’ایسٹر‘‘، ’’تھینکس گیونگ ڈے‘‘ اور ’’بلیک فرائیڈے‘‘ امریکا میں بڑے تہواروں کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ ان دنوں سارے امریکا میں ہر طرح کی ضروریاتِ زندگی 50 فی صد تک سستی کر دی جاتی ہیں۔ ایسٹر اپریل میں منایا جاتا ہے، باقی تینوں تہوار ایک ماہ میںمنالیے جاتے ہیں۔ہرسال نومبرکی آخری جمعرات تھینکس گیونگ ڈے، جمعہ بلیک فرائیڈے اور 25 دسمبر کرسمس کے دن ہیں۔ لوگ ان دنوں اتنی خریداری کرتے ہیں کہ باقی سال اس کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ امریکا کے بڑے بڑے اسٹورز عوام کے لیے دن رات کھلے رہتے ہیں۔ ہرشے ارزاںنرخوں پر دست یاب ہوتی ہے۔ معاشی طور پر کم زور امریکی قطاروں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ اس موقعے سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آن لائن سودے طے ہوتے ہیں۔ نرخ ادا کیے جاتے ہیں۔ سامان گھروں تک پہنچا دیا جاتاہے۔ ان دنوں سارے امریکا پر خریداری کا بخار طاری رہتا ہے۔ امیر لوگ غریبوں کو خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اپنا فالتوقیمتی سامان مفت بانٹ دیتے ہیں۔وہ اسے اپنے گھرکے دروازےپر ڈھیر کی صورت میں رکھ دیتے ہیں۔ ضرورت مند آتے اور مطلوبہ اشیا اٹھا کر چل پڑتے ہیں۔غریبوں کوبہت سی اشیا مفت میں مل جاتی ہیں جن سے ان کی زندگیوں میں سکھ اور آرام آجاتا ہے۔ امریکی حکومتیں جو دنیا بھر میں قتل وغارت گری کے منصوبے سوچتی ہیں، اپنے عوام کے لیے ان دنوں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔

یورپ میں کرسمس پر تقریبا ایسا ہی طرز عمل دیکھنے میں آتا ہے۔ کسی قسم کی ذخیرہ اندوزی کا نام و نشان نہیں ملتا۔ منافع خوری کے ہتھکنڈے نہیں آزمائے جاتے۔ اشیائے خورونوش بازار سے غائب نہیں کی جاتیں۔ اشیا کومنہگاکر کے فروخت کرنے کے لیے کوئی حربے استعمال نہیں کیے جاتے۔ الٹا ان دنوں نایاب اشیا بھی دکانوں پر مناسب نرخوں میں دست یاب کر دی جاتی ہیں ۔ہندومت اوربودھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت والے ممالک میںبھی ہم اسی طرح کی مثالیں دیکھتے ہیں ۔دیوالی پر تیل کے نرخ حکومتی سرپرستی میں گھٹا دیے جاتے ہیں۔ ہولی پر رنگوں کے دام کم ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل جیسے ظالم ملک میں بھی عوام تہواروں پر سستی اشیاسے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کمیونسٹ ملکوںمیں، جہاں ریاست مذہب سے ماورا ہے، عوام کو ان کی خوشیوں والے تہوار منانے کے لیے حکومتی چھتریاں مہیا کر دی جاتی ہیں۔ بعض اسلامی ملکوں میں بھی رمضان مبارک کے دنوں میںاور دونوں عیدوں کے موقعے پر ہر ضرورتِ زندگی نہایت مناسب نرخوں پرمہیا کر دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں رمضان کا مہینہ عوام کے لیے برکتوں کے ساتھ بے شمار زحمتیں بھی لے کر آتا ہے۔ اس مہینے کی آمد سے ہفتوں قبل اشیائے خورونوش ذخیرہ کی جانے لگتی ہیں۔ہر حکومت منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دے دیتی ہے۔ ان پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہتا۔ بے رحم سرمایہ دار عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ سفّاکیت کی زندہ مثال بن کر سامنے آجاتے ہیں۔

ہر سال کی طرح اس برس بھی رمضان کی آمد سے پہلے ہی ہوش ربا گرانی نے عوام کو چاروں طرف سے گھیرلیاتھا۔اشیائے خورونوش کی قیمتیں بلند پروازی کا مظاہرہ کرنا شروع ہوگئی تھیں۔ ضروریاتِ زندگی غریب لوگوں کی پہنچ سے بہت دور نکل گئیں۔ عام بازاروں کو توچھوڑیںسہولت بازاروں میں بھی زیادہ تراشیا کے نرخ 10 سے 20 تک اور بعض اجناس کے 50 فی صد تک بڑھ گئے تھے۔

آلو، پیاز،ادرک، لہسن،ٹماٹر،ہرا دھنیا، پودینہ، ٹینڈے،آلو،پیاز،گوشت، مرغی اورانڈے گراں فروشی کی زد میں آنے والی صرف چند اشیا ہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔کوئی سبزی 70، 80 روپےفی کلو سے کم نہیں۔ کوئی پھل 60تا70 روپے سے کم میںدست یاب نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ صورت حال کیا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے یوٹیلیٹی اسٹورز پربہت سی اشیا کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیاہے۔ حکومت کا شکریہ کہ اس نے غریب عوام کو یہ سہولت فراہم کی، مگر ملک میں یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد اس قدر کم ہے کہ کروڑوں افراداس دستِ شفقت سے محروم ہی رہیں گے۔یوٹیلیٹی اسٹورز پر کڑی دھوپ میں روزوں کے دنوں میں قطاریں بنا کر یہ رعایت لینا بہت مشکل کام ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر دست یاب بہت سی اشیا کا معیا ر بہت کم ہوتا ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے رہنماوں کو پُرتکلف کھانوں، پروٹوکول، غیرملکی دوروں سے فرصت نہیں ملتی۔ یوںمنافع خور اور ذخیرہ اندوز موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی اپنے گودام بھر لیتے ہیں۔بازارمیں اشیا کی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ رمضان آتے ہی یہ من چاہے نرخوں پر سامان بیچنے لگتے ہیں۔ ان پر حکومتی گرفت بالکل ہی نہیں ہوتی۔ یوں ملک بھر میں سحراور افطار کے لیے درکار خوراک کئی گنامنہگی ہو جاتی ہے۔ غریب عوام کی چمڑی ادھیٹری جاتی ہے۔ ان کے روحانی انہماک کو چُورچُور کیا جاتا ہے۔ وہ ہر سحر اور افطار کے موقعے پر اپنے سامنے موجودیا غیر حاضر اشیائے خورونوش کی گرانی پر کڑھتے رہتےہیں۔ ہر سال اسی طرح ہوتا ہے۔ یوں اس بیمار معاشرے میں عبادات کا مہینہ عوام کے لیے اذیت رسانی کا بڑا سبب بن جاتا ہے۔ بڑے سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ کروڑوں، اربوں روپے سمیٹ کر ایک طرف ہو جاتاہے۔ حکومتیں سرد مہری سے یہ سب ہوتا دیکھتی رہتی ہیں،لیکن غریب غربا کو کوئی ڈھال فراہم نہیں کرتیں۔

مسلم معاشروں کی مختلف تصویر

اگرچہ اسلامی تعلیمات ماہ رمضان میں انکسار ، قناعت اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے پر زور دیتی ہیں ، تاہم زیادہ تر مسلم معاشروں میں صورت حال اس کے بر عکس نظر آتی ہے۔ دن بھر کے لیے کھانے پینے سے اجتناب کی مذہبی دلیل کے مطابق اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طرح انسان بھوک اورپیاس برداشت کر کے غربت کے مارے لوگوں کے دکھ اور درد محسوس کر سکتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ سے یورپ اور امریکا تک اورآ?سٹریلیا سے جنوبی ایشیا تک جہاں جہاں مسلمان مقیم ہیں، ماہ رمضان میں ایک خاندان کا اوسط ماہانہ خرچ دوگنا ہو جاتا ہے۔سحر اور بالخصوص افطار کے اوقات میں پر تعیش کھانوں ، پھلوں اور مشروبات سے دستر خوان سج جاتے ہیں۔ دن بھر بھوکا رہنے کے بعد افطار کے وقت زیادہ کھا لینے کی وجہ سے بد ہضمی کی شکایات عام ہیں اور سماجی رابطے بڑھانے کے لیےافطار کی دعوتوں کا خرچ اس کے علاوہ ہے۔ کاروباری سرگرمیوں میں واضح کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق رمضان کے مہینے میں عرب دنیا میں کاروبار 87فی صد تک کم ہو جاتا ہے۔ لوگوں کی مجموعی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ دفتری اوقات میں سرکاری طور پر کمی کر دی جاتی ہے ۔ دفاتر میں موجود افراد زیادہ تر سستی اور کاہلی کا شکار نظر آتے ہیں اور ہر طرح کے کام تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اس مہینے میں خیرات اورعطیے کی شرح میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ تاہم دوسری طرف ہر سرکاری ادارہ عیدی وصول کرنے لگتا ہے ۔ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں جب رمضان کے مہینے میں مسلمانوں پر طاری سستی اور کاہلی کی وجہ سے سماجی خدمات کے شعبے متاثر ہوئے ۔

رمضان کے بعد عید بھی سیزن

رمضان کا سارا مہینہ ہم مہنگائی میں غرق رہتے ہیں پھر عید نزدیک آتی ہے تو یہی سرمایہ دار اس کا حسن بھی گہنا دیتے ہیں۔ جوتے چقل اورملبوسات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یوں ایک گرداب ہے جس میں پاکستان کئی دہائیوں سے چکر کھا رہا ہے۔ اگر ہمارے رہنماوںمیں ذرا سا بھی عوام کا درد ہے تو انہیں سب سے اہم پالیسی یہ بنانا ہو گی کہ خوراک کم سے کم نرخوں پر ہر آدمی کو مہیا ہو۔تاکہ عام آدمی رمضان کے مہینے میں اپنی دعائوں میں اقتصادی بادشاہوں کو بددعائیں نہ دیتا ہو۔ وہ پوری یک سوئی سے عبادات کرسکے۔

صارفین کا کہنا ہے کہ بازاروں میں سرکاری نرخ کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ صوبائی اورشہری انتظامیہ نمائشی کارروائیوں میں مصروف ہے۔عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ گراں فروشی پر قابو پانا بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنادیا جائے اور ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ کرنے والے عناصر کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلاکر سخت سزائیں دی جائیں۔

سال بھر کی کمائی کا مہینہ

بوہری بازار، صدر میں واقع ملبوسات کی دکان کے مالک احسان اللہ کے مطابق رمضان المبارک میں دکان داروں کے معمولات یک سر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ دن کے تقریباً گیارہ بجے دکان کھلتی ہے اور رات کو دیر تک کاروبار جاری رہتا ہے۔ آخری عشرے میں یہ سلسلہ تقریباً پوری رات پر محیط ہوجاتا ہے۔ اب بڑے بازاروں میں واقع زیادہ تر دکانوںکے مالک اور وہاں کام کرنے والے افراد کوشش کرتے ہیں کہ کم ازکم تین اور زیادہ سے زیادہ دس روزہ تراویح میں شرکت کرکے اس جانب سے ’’فارغ‘‘ ہوجائیں۔ اسے ’’شارٹ کٹ تراویح‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے بہ قول دکان دار اس مہینے کو سال بھر کی کمائی کا مہینہ کہتے ہیں۔ اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے وہ دو تین ماہ قبل تیاریاں شروع کردیتے ہیں، قرضے لیتے ہیں، مال کا آرڈر دیتے ہیں، نت نئی ورائٹیز تلاش کرتے ہیں اور نئے سیلز مین رکھتے ہیں۔ زیادہ تردکان دار اس مہینے میں بھرپورکمائی کےلیے جان توڑ محنت کرتے ہیں اور عموماً روزے نہیں رکھتے۔ اس مبارک مہینے میں کاروباری سرگرمیوں کے دوران دھوکا دہی، جھوٹ اور فریب عروج پر ہوتا ہے۔ من مانی قیمتیں وصول کرنے کے لیے بہت سی اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور مال کا معیار گرا کر پہلے والے نرخ پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اس مہینے میں کاروباری حضرات کے معمولات دین کے لیے کم اور دنیا کے لیے زیادہ تبدیل ہوتے ہیں۔

ٹریفک جام ہونے سے معمولات ،پر فرق پڑتا ہے

کوآپریٹو مارکیٹ میں خریداری کے لیے آنے والے مرتضیٰ خان کے مطابق، وہ نجی ادارے میں ملازم ہیں اور ادارے کی جانب سے انہیں موٹرکار فراہم کی گئی ہے۔ وہ رمضان المبارک میں صبح نو بجے دفتر پہنچ جاتے ہیں اور سہ پہر تین بجے دفتر سے گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ وہ رمضان المبارک میں اپنے معمولات زندگی یک سر تبدیل کردیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کریں اور اُن کی نیند پوری ہوسکے۔ لیکن رمضان میں اکثر گھر لوٹتے وقت ٹریفک جام میں پھنس جانے کی وجہ سے ان کے معمولات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ گھر پہنچنے کے بعد آرام کے لیے کم وقت ملتا ہے، لہٰذا بعض اوقات وہ عصر کی نماز گھر ہی میں ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور تھکن کی وجہ سے کسی روز صرف دس رکعت تراویح اور کسی روز بالکل نہیں پڑھ پاتے۔

کراچی میں بہت سے افراد رمضان المبارک میں ٹریفک جام ہونے کے گزشتہ برسوں کے تجربات کے بارے میں سوچ کر ہی کانپ اٹھتے ہیں۔رمضان المبارک میں ٹریفک جام ہونے کی شکایات کیوں زیادہ ہو جاتی ہیں، حالاں کہ شہر، اس کی سڑکیں اور اس کے باسی وہ ہی ہوتے ہیں جو رمضان سے قبل ہوتے ہیں؟ اس ضمن میں کراچی کے محکمہ ٹریفک کے ذمے داران کہتے ہیں کہ رمضان میں ہم لوگ عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ پکّے مسلمان بن جاتے ہیں۔ ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد گھر پہنچ کر اہلِ خانہ کے ساتھ روزہ افطار کرے۔ عام دنوں میں سڑکوں پر گاڑیوں کی انتہائی تعداد کے مختلف اوقات ہوتے ہیں۔سب سے پہلے بچّو ں کو اسکول لے جانے والی گاڑیوں کا ریلا آتا ہے۔ اس کے بعد دفتر جانے والے گھروں سے نکلتے ہیں،پھر کاروباری افراد سرگرمیاں شروع کرتے ہیں۔ پھر دن میں اسکول بند ہوتے ہیں، ان کے بعد دفاتر اور پھر تجارتی مراکز بند ہوتے ہیں۔اس طرح سڑکوںپرسے ایک وقت میں گاڑیوں کا ایک ریلا گزرتا ہے۔ رمضان المبارک میں افطار سے قبل دفاتر میں کام کرنے والے، کاروباری حضرات، محنت کش اور مختلف کاموں سے گھر سے نکلنے والے افراد بہ یک وقت سڑکوں پر آ جاتے ہیں اور ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح دوسرے سے پہلے گھرپہنچ جائے۔ اس کوشش میں لوگ سارے اصول و قواعد بھلادیتے ہیں۔چناں چہ پورا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔

تازہ ترین