• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی برس ہوئے منو بھائی نے اپنے کالم میں ایک چیل کی داستان غم بیان کی تھی داستان اس سوال پرمبنی تھی جو اس سے کوے نے پوچھا۔ کوے نے سوال کیا کہ تم اتنی جاندار، اونچی اُڑان ، پروں کے وسیع پھلاؤ، لپٹنے جھپٹنے کی ماہر ہونے کے باوجود مردار کیوں کھاتی ہو۔ چیل نے کہا کہ واقعی بات تو تمہاری سہی ہے کہ میں پروں کا وسیع پھلاؤ رکھتی ہوں۔ میری اُڑان لاجواب ہے میرے پنجے اور چونچ نوکیلے اور تیز ہیں میرا لپکنا جھپٹنا کسی بھی عقاب سے بہتر لیکن کیا کروں میں جیسے ہی شکار کرنے کیلئے کسی شکار کے قریب پہنچتی ہوں تومیرا ہاسا نکل جاتا ہے۔
مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ اس حکایت کا طاہرالقادری صاحب سے کیا تعلق ہے لیکن جس طرح سے انہوں نے اپنا عظیم مقصد حاصل کیا ہے اس سے واقعی میر ا تو ہاسا نکل گیا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ بقول مولانا فضل الرحمن کے کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ اپنے چالیس لاکھ کے مارچ پر روانگی سے قبل بلکہ20 لاکھ کے مجمع سے لاہور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جس انداز میں حکومت اور اپوزیشن کے لیڈروں کو للکارنا شروع کیا تھا اور اپنے اسلام آباد میں 4روز پڑاؤ کے دوران جس طرح سے ان کی ٹون میں تبدیلی آتی جارہی تھی اور پھر سب سے آخر میں جو معاہدہ سامنے آیا اسے پڑھنے کے بعد کیا کوئی ذی ہوش ایسا ہوسکتا ہے کہ جس کا بے ساختہ ہاسا نہ نکل جائے۔حقیقت میں طاہر قادری نے مجھے جاوید اقبال کارٹونسٹ کا ایک زبردست کارٹون یاد کرا دیا ہے اس کارٹون میں ایک یوگا کاماہر اس انداز میں آسن جمائے سر کے بل کھڑا ہے کہ اس کی ٹانگیں ہاتھ اور بازو ، گو ، تمام انگ آسن کے اندر ایک ایسے انداز میں جکڑے ہوئے ہیں کہ کوئی انگ دوسرے انگ سے الگ نہیں۔ ایسے عالم میں اس کو صرف دو انگلیاں آسن سے باہر ہیں اور اس سے وہ پاس کی دیوار پر کچھ لکھ رہا ہے غور سے پڑھیں وہ لکھ رہا ہے ”عدد“ کچھ ایسا ہی انداز طاہر قادری کا تھا آخری روز کے خطاب میں جس میں انہوں نے جناب صدر کو صرف ایک گھنٹے میں کراچی سے اسلام آباد پہنچ کے اپنی کابینہ سمیت مذاکرات کیلئے دھمکی دی لیکن دھمکی ایسے اندازمیں دی گئی کہ جس کے معنی یہی ہیں کہ خدارا مجھے بچا لو۔ میری عزت کا پاس رکھ لو اور کچھ نہیں تو میری حفاظت پر مامور ان ماؤں بیٹیوں ہی کی لاج رکھ لو۔ اسی لئے صدر اور وزیراعظم نے خود تو ان سے فون پر بات کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی اور بھیج دیا ایک ایسے وفد کو جس میں چودھری شجاعت، فاروق نائیک ، مشاہد حسین اور دیگر کے علاوہ وہ قمر الزمان کائرہ بھی شامل تھے جو خود ایک دن پہلے تک طاہر قادری کی باتیں دہرا کر ہاسے سے محفوظ ہورہے تھے۔ اگر اب بھی آپ کائرہ صاحب کی پریس کانفرنس کی جھلکیاں دیکھیں تو آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ کائرہ صاحب کا کس انداز میں ہاسا نکل رہا ہے۔ صرف کائرہ صاحب ہی نہیں مجھے تو اس وفد میں جانیوالے تقریباً ہر رکن کے چہرے پر ایک ایسی مسکراہت نظر آرہی ہے جو صرف ہاسا روکنے کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اپنی سیاسی تجربہ کاری کی بدولت ان سب کو یہ یقین تھا کہ اب آخر میں جب وہ ڈرافٹ تحریر کرنے لگیں گے تو اس کی شقیں ایسی ہوں گی کہ جن کو دیکھ کر مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک مسکرا کر یہی کہیں گے کہ بھائی یہ کیا ہے یعنی کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ مولانا فضل الرحمن نے تو مولانا طاہر قادری کو جے سالک سے بھی تشبیہ دے دی کہ مولانا مسلمانوں کے جے سالک ہیں، یعنی یہ کہ جے سالک عیسائیوں کے مولانا طاہر قادری ہیں یہاں لازم ہے کہ کچھ بیان جے سالک صاحب کا بھی ہوجائے۔ موصوف میڈیا کوریج لینے کیلئے عجیب و غریب بیانات دینے اور سوانگ بھرنے کے ماہر ہیں۔ٹیری جونز کے ناپاک اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے جے سالک نے بوری کا لباس پہنچ کر تین گھنٹے اپنے سر پر خاک ڈالنے کا مظاہرہ کیا۔ 9 جنوری 2006 میں جے سالک نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے بچانے کیلئے اسلام آباد کے سخت سرد موسم میں بغیر گرم کپڑے پہنے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔ 28 اگست 2005 میں اسی جے سالک نے اپنے ہمراہ بسوں میں لائے گئے عورتوں اور بوڑھوں کے جلوس کو پہلے تو بوری کے پکڑے پہنائے اور پھر ان کے اور اپنے چہرے پر راکھ مل کر اقلیتوں کے تحفظ کیلئے مظاہرہ کیا۔
یہی جے سالک نے ایک بار مظاہرے کے دوران اپنے آپ کو پنجرے میں بند کر لیا تھا۔ پنجرہ اگرچہ عام سا سستی سی قیمت کا تھا لیکن مولانا طاہر قادری کے اپنے آپ کو کنٹینر میں بند کرلینے کے اقدام کو نامعلوم کیوں لوگوں نے اسے بھی جے سالک کے اقدام سے موازنے پر مجبور کردیا ہے۔ ہے نہ یہ بھی ہاسے کی بات، لیکن ایک بات ضرور ہوئی کہ مولانا کے اقدامات نے پورے پاکستان کی سیاسی جماعتوں حکومت میں شامل اتحاد، اپوزیشن اتحاد، عمران خان اور سول سوسائٹی کو متحد ضرور کر دیا ہے۔ یعنی اگر آپ ان دنوں کے اقدامات دیکھیں اور اعلانات کو غور سے پڑھیں تو آپ کو یقین آجائے گا کہ اب سیاسی عمل کو رواں دواں رکھنے کیلئے تمام جماعتیں متحد ہیں۔ وہ کسی بھی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کرنا چاہتیں۔ مولانا طاہر قادری شاید اس کو بھی اپوزیشن اور حکومت کا گٹھ جوڑ کہیں گے، لیکن اس گٹھ جوڑ میں ان کے دو حمایتی یعنی ایم کیو ایم اور عمران خان بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بھی جب علامہ صاحب ان کو مدد کیلئے پکار رہے تھے سیاسی دھارے میں شامل رہنے کو ترجیح دی۔ اگر علامہ صاحب اپنے اس تمام اقدامات اور آخر میں سائن کئے گئے معاہدے کے نکات کو غور سے پڑھیں اور کچھ دیر کیلئے اپنی جذباتیت سے باہر نکل کر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو انہوں نے کیا کیا اور انہیں ملا کیا تو مجھے یقین ہے کہ ان کا بھی ہاسا نکل جائے گا ، بے بسی کا۔
تازہ ترین