غلام حیدر آکاش،پڈعیدن
مکران کوسٹل ہائی وے پر اورماڑہ کے قریب اایک مسافر بس میں قتل عام کے واقعے کو ایک ماہ کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن اس کی ہیبت اھی تک لوگوں کے دلوںپر طاری ہے اور لوگ کراچی اور کوئٹہ کے درمیان بسوںپر سفر سے گریزاں ہیں۔ اس شاہراہ پر کراچی سے کوئٹہ اور وہاں سے ایران جانے والے افراد کی بڑی تعداد بذریعہ بسوں اور نجی گاڑیوں کے سفر کرتی ہے ۔پہلے یہ شاہراہ آر سی ڈی اور اس کے بعد سینٹو ہائی وے کہلاتی تھی۔اورماڑہ کے واقعہ میں ہلاک ہونے والے افراد منوں مٹی تلے دبا دئیے گئے، حکام کی طرف سے حسب سابق دہشت گردی کے خاتمے کے دعوے اور دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے پر مبنی اعلانات نشر ہوتے رہے۔ پہلے اس قسم کے واقعات پر حکام کی جانب سے ’’آہنی ہاتھوں ‘‘ سے نمفنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا تھا، بعد ازاں مذکورہ آہنی ہاتھ صرف حکم رانوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دینے لگے جب کہ عوام کو ڈاکوؤں، دہشت گردوں اور ٹاگٹ کلرز کے آہنی ہتھیاروں کے آگے ڈال دیا گیاجس کے بعد بڑی واردماتوں کی صورت میں صرف دعووں اور کاغذی اعلانا ت پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشیں ان کے آبائی علاقوں میں پہنچا دی گئیں۔ اس سانحے میں پڈعیدن کے ایک رہائشی کی میت بھی اس کےآبائی گاؤں پہنچا دی گئی تھی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق دہشت گردی کا نشانہ بننے والے پاکستان کوسٹ گارڈکےسپاہی ذوالفقار مری کی میت جب پڈعیدن پہنچی تو اس کے گھر میں کہرام مچ گیا۔ نماز جنازہ پڈعیدن کے نواحی علاقے گاؤں پٹھان مری میں ادا کی گئی جس میں پاکستان کوسٹ گارڈ کے صوبیدار، عارف و دیگر آفیسرز سمیت علاقہ مکینوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔نماز جنازہ کے بعد میت کوکوسٹ گارڈ کے افسران وسپاہیوں کی جانب سے سلامی دی گئی اور پورے اعزاز کے ساتھ اس کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔مرحوم کے خاندانی ذرائع کے مطابق، شہید ذوالفقار مری 10سال قبل پاکستان کوسٹ گارڈ میں بھرتی ہوا تھا ، جس کی ذیوٹی مکران کوسٹل ہائی وے پر لگی ہوئی تھی۔ وقوعے کےرو زوہچھٹی پر گھر آرہا تھا کہ دہشت گردوں کی ٹارگٹ کلنگ کا شکارہو گیا۔ شہید ذوالفقار ایک بیٹی اور ایک بیٹے کا باپ ہے۔ مرحوم کے والد مزار خان مری اور چچا کا کہنا تھا کہ مذکورہ سانحہ ہمارے لیے انتہائی دکھ اور کرب کا باعث ہے جس میں ہم سے ہمارا بیٹا، بھتیجا، بھائی اور دو بچوں کا باپ بچھڑ گیا لیکن ہمارے خاندان کے ہر فرد کو اپنی پاک سرزمین سے محبت ہے اور ہمارا بچہ بچہ پاکستان پر قربان ہونے کو تیار ہے ۔ پاکستان کوسٹ گارڈ کے صوبیدار عارف کا کہنا تھا مذکورہ واقعہ اگرچہ انتہائی روح فرسا ہے لیکن شہادت ایک بڑا رتبہ ہے جوبہت کم خوش نصیبوں کو ملتا ہے۔
18اپریل 2019کواورماڑہ کے قریب، مکران کوسٹل ہائی وے پر بوزی ٹاپ کے قریب 15سے 20 نامعلوم مسلح افراد نے کراچی سے گوادر آنے اور جانے والی 5،6 بسوں کو روکا۔انہوںنے تمام مسافروں کےشناختی کارڈز چیک کرنے کے بعدان میںسے 14 مسافروں کو بسوں سے نیچے اتار کر فائرنگ کر کے قتل کر دیا اور موقع سے فرار ہو گئے۔ پولیس کے مطابق تمام مسافروں کو ہاتھ باندھ کر قتل کیا گیاتھا ۔یہ اندوہناک واردات رات 12 سے ایک بجے درمیان ہوئی۔لیویز حکام کا کہنا ہے کہ بسوں سے اتارے گئےدو خوش قسمت مسافر، قاتلوںکی دسترس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے ۔سانحہ کوسٹل ہائی کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈز پر مشتمل اتحاد 'بلوچ راجی آجوہی سنگر (براس) نے قبول کرتے ہوئے اتحاد (براس)کے ترجمان، بلوچ خان نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ جن افراد کوقتل کیا گیا تھا،ان کے پاس پاکستان نیوی اور کوسٹ گارڈز کے کارڈ تھے اور شناخت کے بعد ہی ان کو قتل کیا گیا۔براس کے ترجمان نے پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سرکاری حکام کے ان دعووں کو مسترد کردیا تھا کہ اور ماڑہ میں بسوں سے مسافروں کواتار کر قتل کیا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی حکام اپنےحساس اداروں کے اہل کاروں کی ہلاکتوں کو چھپانے کے لیے میڈیا کے سامنے انہیں عام مسافر ظاہر کرتے رہے ہیں۔واضح رہے کہ مذکورہ واقعہ بلوچستان کے صوبے میں نیانہیں ہے، اس سے قبل ہزارہ برادری کے افراد کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔مکران ڈویژن سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مسافروں کو بسوں سے اتار کر ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد قتل کرنے کی وارداتیں اس سے قبل بھی ہوتی رہی ہیں۔ ااس خوںریز واقعےسے صرف ایک ہفتے قبل کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میںخودکش دھماکے میں کم سے کم 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہزارہ برادری اور ملک کے دیگر صوبوں سے بلوچستان آنے والے افراداکثر و بیشتر دہشت گردوں کے ہاتھوں اجل کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ اکتوبر 2014میں بھی ضلع لسبیلہ میں نامعلوم افراد نے دوسرے صوبے سے آئے ہوئے آٹھ مزدوروں کو فائرنگ کر کے ہلاک اور ایک کو زخمی کردیا تھا۔پولیس اور ضلعی حکام کے مطابق تحصیل حب کے علاقے ساکران میں نامعلوم مسلح افراد ایک پولٹری فارم پر پہنچے اور یہاں سے 11 مزدورں کو اغوا کر کے لے گئے۔اغوا کاروں نے اپنی کمین گاہ پر لے جاکرشناخت کے بعد ان میں سے دو مقامی مزدوروں کو چھوڑ دیا جب کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مزدوروں پر فائرنگ کی اور وہاںسے فرار ہوگئے۔نو میں سے آٹھ مزدور موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جب کہ مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے زخمی مزدور اظہر نے اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دی تھی۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس جدیداور سویلائز دور میں جہاں ہر جانب سماجی انصاف اور شہری حقوق کا پرچاراور امن و امان کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، روئے زمین پر کچھ علاقے آج بھی ایسے ہیں جہاں لاقانونیت کا راج ہے، وہاں جنگل کا قانون ہے،،انسان وحشی درندوں کی طرح اپنی ہی طرح کے انسانوں کو مذہبی و لسانی عصبیت کی بنیاد پر درندگی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ کوسٹل ہائی وے پر ملک کے دیگر صوبوں سے سیر و تفریح یا روزی کمانے کی غرض سے بلوچستان میں داخل ہونے معصوم افراد کو بے گناہ قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ صوبہ پاک ایران راہ داری بھی ہے، ایران سے پاکستان یا پاکستان سے ایران بذریعہ بس سفر کرنے والے زائرین کے لیے بھی یہ علاقہ ’’نو گو ایریا‘‘ بن گیا ہے۔ ان دردناک سانحات کے بعد وزیر اعظم، وزیر اعلی اور دیگر حکومتی افسران محض نمائشی بیانات جاری کرکے اپنی ذمہ داریوںسے سبک دوش ہوجاتے ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اورماڑہ میں پیش آنے والے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے محض کاغذی بیانات اور اعلانات کیے جن میںحکام کو ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیاگیا، لیکن کیا وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ نے سانحات کے بعد دیئے گئے اپنے احکامات پر متعلقہ حکام سے ان کی کارکردگی کی رپورٹ طلب کرنے کی زحمت کی ہے؟۔
مکران کوسٹل ہائی وے گوادر کو کراچی سے ملاتی ہے اور گوادر میں بندرگاہ فعال ہونے کے بعد اور چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق منصوبوں پر کام جاری ہونے کے سبب کوسٹل ہائی وے پر آمد و رفت بڑھ گئی ہے، اب بلوچستان کے علاقے، خا ص کر صوبے کو ملک کے دیگر شہروں سے ملانے والی اس اہم شاہراہ پر امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کڑے اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ سانحہ اورماڑہ سے زیادہ کوئی خوف ناک واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔