• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انجکشنز زیادہ تر انسانی جان بچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جب کہ بعض انجکشن ایسے ہیں جو شدت تکلیف یا ذہنی اذیت کو کم کرنے کے لیے سکون بخش دوا کی صورت میں مریضوں کو دیئے جاتے ہیں لیکن بعض اوقات مریض ان ادویات کے زیادہ استعمال کے بعد ان کے عادی ہوجاتے ہیں، جب کہ نشے کے عادی افراد نشے کی طلب پوری کرنے کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں اور بعض دفعہ غلط طریقے سےلگائے گئے اور دوااوورڈوز ہونے کی صورت میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ٹنڈومحمدخان ضلع میں میڈیکل اسٹوروں پر نشہ آور ادویات کی فروخت کھلے عام جاری ہے جس سے ہمارے معاشرے کی نوجوان نسل تباہی کے دہانے کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اس مہلک نشے سے اب تک مختلف علاقوں میں متعدد جانیں ضائع ہوچکی ہیں لیکن حکام کی جانب سے اس کی روک تھام کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ سول سوسائٹی کی جانب سے سوالات اٹھ رہےہیں کہ نشہ آور ادویات کی آزادانہ فروخت کے خلاف ضلعی وتحصیل انتظامیہ کیا کررہی ہے ۔ شہری اور دیہی علاقوں میں زیادہ تر میڈیکل اسٹوروں پر نشہ آور ادویات فروخت کی جارہی ہیں جن کے استعمال کرنے سے ذہنی سکون ملتا ہے جو کسی نشہ آور شے کے نشے سے کم نہیں ہے ۔ کھانسی کے سیرپ میں الکوحل اور افیون سمیت دیگر منشی اجزا کی بڑی مقدار شامل کی جاتی ہے۔ مریضوں کے علاوہ اس شربت کو نشہ کے عادی افراد بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ شربت میڈیکل اسٹوروں پر بلاروٹوک فروخت کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ سکون بخش گولیاں بھی فروخت کی جارہی ہیں جو صرف ڈاکٹری نسخے کے مطابق فروخت کی جانا چاہئیں لیکن ٹنڈو محمد خان اور گردونواح کے علاقوں میں میڈیکل اسٹوروں پر بغیر نسخے کےمذکورہ دوائیں فروخت کی جارہی ہیں۔ان گولیوںکاعادی ہوکر انسان ذہنی طور سے ناکارہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات اوور ڈوز لینے کی صورت میں اس کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔ ان گولیوں میںزینکس، ڈائزاپام اور لیکسوٹنل قابل ذکر ہیں جو مختلف پاورز کی ملتی ہیں اور طبیب حضرات تکلیف کی شدت میں انسانی ذہن کو سکون دینے یا ذہنی اذیت یا ڈپریشن ی وجہ سے بے خوابی کے مریضوں کوااپنے نسخے میں تجویز کرتے ہیں اور محکمہ صحت کی جانب سے ان گولیوں کی بغیر ڈاکٹری ہدایات دیکھے، فروخت جرم ہے ۔ ان گولیوں کو نشے کے عادی افراد بھی استعمال کرتے ہیں جب کہ زندگی سے بیزار افراد ان گولیوں کوخودکشی کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور پوری شیشی کی گولیاں کھاکر اپنی جان کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔

ٹنڈو محمد خان میں مختلف ناموں سے نشہ آور انجکشنوں کی بھی سرعام فروخت جاری ،ہے جن میں ڈائپران، سوسیگان ، بیوپران ،کنز اور ایول وغیرہ شامل ہیں،جو کھلے عام بغیر ڈاکٹری نسخے کے فروخت ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے شہر میں نشہ کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، یہی نہیں بلکہ اسکول و کالجوں کے طلباء اور نوعمر بچے بھی اس نشے کے عادی ہوتے جارہے ہیں ، واضح رہے کہ ٹنڈومحمد خان میں نشہ آور انجکشنز اور دیگر ادویات کے استعمال متعدد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں، جب کہ محکمہ پولیس نشہ آور ادویات کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کو تیار نہیں ہے۔

معالجین کے مطابق ، کنز انجکشن آپریشن کے دوران’’ لائٹ انستھیسیا ‘‘ دینے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ اس کے لگانے کے بعد مریض کو آپریشن کے لیے بے ہوش کرنے کے لیے’’ جنرل انستھیسا دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس دوا کو اس لیے مریض کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے تاکہ مریض کا جسم سن ہوجائے اورسرجنز کو اپنے کام میں دقت پیش نہ آئے۔ مگر ہمارے یہاں اسے ذہنی سکون حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہےاور اس میں زیادہ تر نوجوان طبقہ ملوث ہے۔ سرنجز کے مطابق یہ ’’انٹراوینس‘‘ یعنی نس کا انجکشن ہوتا ہے اور اس انجکشن کو جسم کی جس نس میں لگایا جاتا ہے تو وہ جگہ پنکچر ہوجاتی ہے، انٹرا وینس انجکشن، ماہر پیرا میڈیکل عملہ ہی لگاتا ہے ورنہ اناڑی قسم کے میل و فی میل نرسز کو بعض اوقات نسیں ہی نہیں ملتیں اور وہ جگہ جگہ نسوں میں سوراخ کرکے بدن کو چھید دیتے ہیں۔ لیکن نشے کے عادی افراد نئی یا استعمال شدہ سرنجز کے ذریعے خود ہی اپنی نسوں میں یہ انجکشن لگانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا بدن چھلنی ہوجاتا ہے۔ ٹنڈومحمدخان میں درجنوں افراد اس نشے کا استعمال کرتے ہیں۔سوسےگن کا انجکشن دافع درد ہے، اس میں بھی درد کی شدت کے احساس کو کم کرنے کے لیے نشہ آور اور مسکن اجزاء شامل کیے جاتے ہیں ۔ بعض نوجوان اس انجکشن کے بھی اس حد تک عادی ہوگئے ہیں کہ وہ اس کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، دستیاب ہونے کی صورت میں خود ہی اپنے بازو پر لگا کر کسی فٹ پاتھ پر یا سڑک پر پڑے دوسروں کے لیے نشان عبرت بنے رہتے ہیں۔ ٹنڈومحمد خان کے زیادہ تر میڈیکل اسٹوروں پر ان کی آزادانہ فروخت کی جاتی ہے۔سول سوسائٹی کی جانب سے محکمہ ہیلتھ کی توجہ اس نشے کی جانب مبذول کرائی گئی جس پرمیڈیکل اسٹوروںکے خلاف معمولی سی سختی کی گئی تھی لیکن انہیں قوانین کا پابند بنانے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے اس زہر پر کنٹرول نہیں کیا جاسکاہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین