• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم نے بھارت کو ہمیشہ اپنا دشمن سمجھا اور حقیقت بھی یہی ہے اس نے ہمیشہ ہمیں نقصان پہنچایا اور آج بھی وہ موقع کی تاک میں رہتا ہے۔ دونوں ممالک صرف ایک دن کے فرق سے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے میں مشترکہ طور پر کامیاب ہوئے پھر کیا وجہ ہے کہ وہ ہم سے ہر مقام پر آگے نظر آتا ہے جبکہ صرف غربت میں ہم سے بدتر ہے۔ تعلیم، معیشت، پیداوار، سیاست باوجود کرپشن کے اس نے سب میں اصلاحات کیں اور وہ آج تک جاری ہیں۔ آزادی کے فوراً بعد اس نے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا، زمینیں کسانوں میں تقسیم کیں تو جاگیرداری نظام ختم ہو گیا۔ سب سے زیادہ توجہ اس نے تعلیم پر دی، پھر معیشت میں اس نے سوئی سے لیکر ہر چیز تک بنانا شروع کیا۔ اپنے ملک میں 40سال امپورٹ پر پابندیاں لگاکر خود کو جاپان، کوریا اور چین کی طرح خودکفیل کرلیا۔ ایک طرف کسانوں کو زمینیں دیں پھر بجلی اور گیس مفت مہیا کرکے پھل، سبزیاں، گندم، چاول، دالیں عام آدمی کی پہنچ میں رکھیں تو تعلیم کیلئے بھی مفت زمینیں مہیا کیں اور 20فیصد ضرورت مند طلباء و طالبات کا مفت کوٹہ رکھا تاکہ غریب تعلیم سے محروم نہ رہے۔ یہی طریقہ علاج و معالجہ کی سہولتوں کی فراہمی میں بھی کیا، سرکاری اسپتالوں کے علاوہ نجی اداروں کو مفت زمینیں دیں اس میں بھی 20فیصد مفت علاج کی سہولتیں دیں۔ خاص طور پر NGOکو تو زمین کے ساتھ مالی امداد بھی دی گئی۔ سیاست پر 40سال تک چونکہ پنڈت جواہر لال نہرو اور ان کی فیملی کا راج تھا تو جمہوریت پروان چڑھتی رہی۔ کوئی فوجی انقلاب نہ آسکا پھر جب اس فیملی میں کرپشن داخل ہوئی تو آہستہ آہستہ دیگر سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی جاتی رہیں البتہ اب وہاں بھی کرپشن بڑھتی رہی اور کم وبیش چند افراد کو چھوڑ کر سب ہی کرپٹ ہو چکے ہیں مگر عدلیہ کو انہوں نے الگ اور آزاد رکھا، سیاسی اثر و رسوخ کا کوئی دخل نہیں ہونے دیا۔ ان کی عدلیہ نے بڑے بڑے فیصلے آزادانہ دئیے، کسی نے انگلی نہیں اٹھائی خواہ وہ کتنا ہی سخت فیصلہ کیوں نہ ہو۔ ہر ہندوستانی قوم پرست ہے اور وہ ہمیشہ اپنے ملک سے محبت کے ساتھ ساتھ ملکی اشیاء خریدنے پر فخر کرتا ہے، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں جاکر آباد ہو جائے وہ بھارتی کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے اور اپنے ہم ملکی کو Preferکرتا ہے۔ مجموعی طور پر تمام سیاسی جماعتوں نے کرپشن کے ہوتے ہوئے عوام کے مفادات کو سامنے رکھا اور ان کی بہتری کیلئے اقدامات کئے وہ عوام سے کٹے نہیں، جڑے رہے۔ انہوں نے عوام کے مفاد میں 13سے 38صوبے بھی بنائے تاکہ صوبائی خود مختاری پر آنچ نہ آئے۔

اب میں پاکستان کی تنزلی کی وجوہات بیان کرتا ہوں، ہم نے بھارت کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے بھی اس کی معیشت کو مضبوط کیا، اس کا سامان خریدنے میں ہم سب سے آگے ہیں اور اس کی فلمیں ہمارے ہر گھر کی ضرورت سمجھی جاتی ہیں۔ ہمارے سیاستدان قائداعظم اور قائد ملت کے انتقال کے بعد تتربتر ہوگئے، سیاسی کشمکش عروج پر ہونے کی وجہ سے ہم کوئی انقلابی نظام نہ لا سکے، نہ ہم نے جاگیرداری نظام ختم کیا، نہ تعلیم عام کی۔ نتیجے میں عوام جاگیرداروں کی غلامی میں دھنستے گئے اور جاگیردار چونکہ تمام صوبوں میں قبلِ تقسیم موجود تھے، انہوں نے مل کر سیاست پر گرفت قائم کرلی۔ اس افراتفری میں آمریتیں آتی رہیں۔ آج بھی 72سال گزرنے کے باوجود عوام جاگیرداروں کے غلام ہیں۔ دوتہائی اکثریت آج بھی گائوں گوٹھوں میں رہتی ہے، ان جاگیرداروں نے صرف اپنے مفادات کی خاطر ان کو تعلیم اور دیگر سہولتوں سے دور رکھا ہوا ہے تاکہ عوام جاہل رہیں۔ حکومت نے تعلیمی بجٹ گھوسٹ اسکولوں کے نام پر ہڑپ کر ڈالا، اگر نجی اسکول نہ ہوتے تو ہمارے معیارِ تعلیم کا بھی بیڑہ غرق ہو چکا ہوتا۔ ہمارے حکمران ملک میں صنعتکاری کے بجائے بیرونِ ممالک سے ہر چیز امپورٹ کرتے رہے لہٰذا بنیادی صنعتیں نہیں لگ سکیں تو ہم کیسے اپنی بنی ہوئی اشیاء سے محبت کرتے؟ ہم امپورٹڈ اشیاء کی محبت میں گرفتار ہوگئے اور آج اس کو اسٹیٹس سمبل بنا چکے ہیں، رہا معاملہ سیاسی کشمکش کا، اس کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں نے اٹھا کر ہر دس 12سال بعد اقتدار میں آکر جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔ اور یہی جاگیردار، وڈیرے، نواب، چوہدری ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرتے رہے اور خود کو مضبوط کرتے رہے۔ اپنے فائدے کیلئے یہ سیاستدان ایئر پورٹس، ہائی وے، سڑکیں، سامانِ تعیش اور گاڑیاں اندھا دھند مپورٹ کرتے رہے۔ ہر چیز میں کک بیکس، کمیشن وصول کرتے رہے اور قرضے لیتے رہے پھر قرضوں پر اتنا بڑا سود ادا کرنے کیلئے نئے قرضے لئے اور ایک ایک چیز گروی رکھتے گئے۔ پاکستان کے بجائے قومیت کا پرچار کرتے رہے، انتظامیہ اور عدلیہ میں اپنے اپنے نمائندے شامل کرتے گئے اور ہمارا انتظامی یونٹ صرف 5صوبوں تک محدود رہا۔ ملکی کرنسی کی وقعت گرتی رہی، 4روپے 75پیسے میں ملنے والا امریکی ڈالر آج ان قرضوں، فضول اشیاء کی امپورٹس کی وجہ سے 145روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس نئی حکومت سے جو حقیقی تبدیلی کی امید تھی وہ ایک ایک کرکے دم توڑ رہی ہے۔ اب آئی ایم ایف سے قرضے پر لعنت بھیجنے والے آئی ایم ایف کے ملازمین سے قرضوں کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ قوم کو جلد خوشخبریاں سنائیں گے اور واقعی قوم کو وہ ہر 2ہفتوں میں نئی خوشخبری گیس، پٹرول، بجلی کی مہنگائی کی صورت میں سناتے رہتے ہیں اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کی بھی خوشخبری ان کے وزیر خزانہ سے ملتی ہے۔ ہماری عدلیہ سے گزارش ہے کہ گیس، تیل اور بجلی کی قیمتوں کا نوٹس لے۔ اسی طرح رمضان میں 30سے 50فیصد کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ بڑھا دئیے گئے ہیں، اس کا بھی نوٹس لے۔ موجودہ حکومت تو مہنگائی میں بالکل بے لگام ہو چکی ہے۔ ہر روز ان کا وزیر ایک نیا ڈرامہ میڈیا پر چھوڑ کر توجہ اس طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور میڈیا بھی مزے لیکر تبدیلی کا ٹائٹل لگا دیتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

تازہ ترین