محمد سلیم میمن ، ٹنڈو باگو
ذرائع ابلاغ اور عدالت عظمیٰ ملک کے پریشان حال اوربے سہارا عوام کی امیدوں کی آخری کرن ہیں۔ حکمران طبقہ اس ملک کوبری طرح لوٹ رہا ہےاور ہر ادارہ بدعنوانی اورلوٹ کھسوٹ کا شکارہے۔ ملک کے یہ دونوں ستون ، کرپشن اور کرپٹ عناصر کی راہ میں رکاوٹ بنےہوئے ہیں ۔ نیکی اور بدی کی جاری جنگ میں فتح بالآخر نیکوکاروں کی ہی ہوگی لیکن اس کے لیے طویل عرصہ درکار ہے کیوں کہ کرپشن کی جڑیں، کینسر کی طرح ہر ادارے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس وقت سب سے پریشان کن مسئلہ ڈرگ مافیایا جعلی ادویات بنانے والی کمپنیوں کا ہے جن کے آگے حکومتی ادارے بے بسی کا شکار ہیں۔سندھ سمیت ملک کےمختلف علاقوں کے لاکھوں افراد ناقص ادویات کے استعمال کی وجہ سے مختلف النوع بیماریوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ جعلی ادویات بنانے والی ایک کمپنی کے خلاف وزارت صحت اور ڈریپ کے سربراہ نے عدالت عظمیٰ کے، ایچ آر سیل میں درخواست دائر کی ہےجس میں کہا گیا ہے کہ کہ ادویات بنانے والی ایک کمپنی ضرر رساں ادویات تیارکرتی ہے۔ اس کے مالکان اتنے بارسوخ ہیں کہ وزارت صحت کا کوئی بھی افسر،اس فیکٹری یا کمپنی کے دفتر میں نہیں جاسکتا۔ہم نے انہیں ان کے مذموم کاروبار کے خلاف نوٹس جاری کیے جس کےجواب میں مذکورہ کمپنی نے، ہم پر 30 سے زائد مقدمات دائر کردیئے ہیں۔سی ای او ڈریپ نے بتایا کہ اسلام آبادکی اس کمپنی کے تیار کردہ فارمولوں کی دنیا میں کہیں منظوری نہیں دی گئی ہے ۔ یہ تو ایک ادویہ ساز کمپنی کی مثال ہے لیکن ملک میں اس وقت ایسےدرجنوں دوا ساز ادارے کام کررہے ہیں جن کی تیار کردہ جعلی ادویات بغیر ڈرگ لیبارٹریز سے چیکنگ کے مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہیں۔ ان کی کھپت زیادہ تر دیہی علاقوں اور قصبات میںہوتی ہے۔ضلع بدین میںبھی ہر میڈیکل اسٹور اور میڈیکل سینٹر میںیہ دوائیںکھلے عام فروخت ہورہی ہیں ۔باوثوق ذرائع کے مطابق ملک بھر میں 181 جعلی ادویات ایسی فروخت ہورہی ہیں جنہیںکسی باقاعدہ فارمولے کے تحت تیار نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے استعمال سے مریضوں کوفائدہ پہنچنے کے بجائے مرض کی شدت میں اضافہ ہونے کے علاوہ نئے امراض جنم لیتے ہیں ۔ضلع بدین کے مختلف شہروں میں 300 سے زائد میڈیکل اسٹور ہیں جہاں جعلی کمپنیوںکی ضرررساںادویات فروخت ہوتی ہیں۔ ان ڈرگ کمپنیوں نے اپنی دواؤں کی فروخت بڑھانےکے لیے خطیرمعاوضے پر خواتین و حضرات کو بہ طور سیلز افسربھرتی کرنے کےعلاوہ میڈیکل سینٹرز اور طبی مراکز کے لیے بھی پرکشش مراعات ،تحائف اور پیکیجز متعارف کرائے ہیں۔ ان کمپنیوں کے خلاف ڈرگ کنٹرول اتھارٹی کے حکام بھی کارروائیاں کرنے سےگریزاں ہیں ۔ ان کمپنیزنے بعض سرکاری و نجی طبی مراکز، ہیلتھ سینٹرزکے اندر اور ڈاکٹروں کے کلینکس کے ساتھ میڈیکل اسٹورز بھی قائم کردیئے ہیں، اورڈاکٹروں کو ان دواؤں کی فروخت پر کمیشن بھی دیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں روزنامہ جنگ کی جانب سےکئے گئے سروے کے دوران ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک زمانے میں دونمبر کی اصطلاح عام تھی ،لیکن ضلع بدین میں جو دوائیں فروخت ہوتی ہیں، انہیں’’ دس نمبری‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ بدین کے اکثر قصبات اور تحصیلوں میں میڈیکل اسٹورز پرنشہ آوانجکشن اور گولیاں کھلے عام فروخت کی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں ضلع بدین کے ڈرگ انسپکٹر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ان جعلی اور نشہ آور ادویات کی فروخت روکنے کے لئے حکومت نے فارم 9 متعارف کرایا ہے جس کے تحت ہر قسم کی نشہ آور دواؤں کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے، یہ ایک قسم کا حلف نامہ ہے۔
بدین کی سماجی شخصیات کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ جعلی ادویات کی فروخت کو روکنا محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے۔ ہر چھوٹے بڑے ضلع میں ڈرگ انسپکٹرزمقررہوتے ہیں، لیکن ڈرگ مافیا اور جعلی دوائیں بنانےوالی کمپنیاں اس قدر طاقت ور ہیں کہ وفاقی وزارت صحت بھی بے بس ہوگئی ہے۔طبی ماہرین کے مطابق جعلی ادویات کے استعمال سے ملک کا ہر فرد بلڈ پریشر کامریض بن چکا ہے۔وزارت صحت کےایک ذمہ دار افسراورڈرگ اینالسٹ نے بتایا کہ بازار میں فروخت ہونے والی سیکڑوں جعلی ادویات ان کی تجزیاتی رپورٹ کے بغیر پاس کردی جاتی ہیں۔ اس مذموم کاروبار کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان کو فوری طور سے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی کمپنیوں اور ان کی مصنوعات کے خلاف کارروائی کا حکم صادر فرماناچاہیے۔