غلام مصطفے جمالی،گڑھی خیرو
چند سال چند سال پیشتر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بیش بہا قربانیوں کے نتیجے میں ملک خاص طور سے صوبہ سندھ میں امن و امان کی جو فضا بحال ہوئی تھی، وہ گزشتہ چند ماہ سے دوبارہ مکدر ہوگئی ہے۔2014 سےقبل تک سندھ کا پور ا خطہ شدید بدامنی کا شکار تھا۔ کراچی سے کشمور اور اوباڑو تک دہشت گردوں ،جرائم پیشہ افراد واورسماج دشمن عناصر کی آزادانہ سرگرمیوں کی وجہ سے ، کراچی سمیت پورے صوبے میں خوف و ہراس طاری تھا۔ ڈاکوؤں، اغواہ کاروں اور دہشت گردوں کی کارروائیوں کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں کے اندر بھی خود کومحفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ بڑے شہروں میں دہشت گردی، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ تھی تو سندھ کے دیہی علاقوں میں اغوابرائے تاوان ، راہ زنی، لوٹ مار، قبائلی تصادم عام تھے جن کی وجہ سے پورا سندھ، فلسطین اور بیروت کا نمونہ بنا ہوا تھا۔لیکن 2014ء میںپورے ملک میں امن و امان کے قیام اوردہشت گردی و ملک دشمن عناصر کے خاتمے کے لیے ، آپریشن ضرب عصب شروع ہوا۔ کراچی سمیت پورے صوبے میں امن و امان کی بحالی ، دہشت گردی، چوری و ڈکیتی کی وارداتوں کے خاتمے کے لیے،نیشنل ایکشن پلان کے تحت ،پولیس ، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کئے گئے مشترکہ آپریشنز کے بعدصورت حال بہتر ہوگئی تھی، جس کے بعد عوام نے سکھ و چین کا سانس لیا ۔
لیکن چند ماہ سےامن و امان کی صورت حال دوبارہ مکدہوگئی ہے۔ چھوٹے موٹے جرائم اس قدر عام ہوگئے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تروارداتوںکی رپورٹ بھی درج نہیںہوتی۔آئےروز اغوا، قبائلی تصادم اور غیرت کے نام پربے گناہ انسانوں کا بہیمانہ قتل کوئی غیر معمولی بات نہیں رہ گئی، لیکن گزشتہ چند دنوں سےصوبے ، میں خاص طور پر ضلع جیکب آبادکےاہم تعلقہ گڑھی خیرو جہاں پر مختلف قسم کے جرائم میں تشویش ناک حد تک اضافہ نظر آیا ہے۔ یہاں پر جرائم کی شرح دیگر شہروں کے مقابلے میں بلند ترین ہےجب کہ پولیس کارکردگی صفر نظر آتی ہے، جس کا اندازہ صرف یکم سے 2 مئی تک،صرف دو دنوں میں ہونے والے مختلف خونی واقعات میںسفاک قاتلوں کے ہاتھوں6 افراد کے بہیمانہ قتل سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔
پہلے واقعے میں سود کے پیسوں کی ادائیگی کے معاملے پر شکایت کی بنیاد پر سی آئی اے پولیس دوداپور کے ہاتھوں دوداپور کے رہائشی اربیلومنگی کو گرفتار کیا تھا،بعدمیں مذکورہ شخص کے بیٹے سرتاج منگی نے پولیس پر مخالفین کی ایما ء پر اپنے باپ کی گرفتاری کا الزام عائد کرتے ہوئےسندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اس معاملے میں سی آئی اے پولیس کے اہل کاروں کے خلاف آئینی پٹیشن دائر کروائی، جس کے بعد پر مذکوراہل کاروںاور نوجوان سرتاج منگی کے درمیان سخت تلخ کلامی ہوئی۔ سی آئی اے پولیس کے مقامی ااہل کار، رستم اوڈھو نے نوجوان سرتاج منگی کو ہائی کورٹ میںپولیس کے خلاف دائر ہونے والی آئینی درخواست واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا اوردرخواست واپس نہ ینے کی صورت میں بدترین نتائج کی دھمکی دی۔ باخبر ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر سی آئی اے پولیس اہل کارکی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیوں کے بارے میں مذکورہ نوجوان سرتاج منگی نے مقامی تھانہ دوداپور سمیت اعلیٰ پولیس حکام کو بھی آگاہ کیا تھا، مگر کسی نے بھی اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔ یکم مئی کو سرتاج منگی شادی کی ایک تقریب میںشرکت کے بعد گھر واپس آرہا تھا کہ مذکورہ سی آئی اے پولیس اہل کار رستم اوڈھو نے اپنے دو نامعلوم ساتھیوں کے کی مدد سے سرتاج منگی کو شہر سے کچھ فاصلے پر واقع پرانے پولیس تھانے کے مقام پر گھات لگا کر روکنے کے بعد اسلحے کے زور پہ موٹر سائیکل سے اتار کر ٹی ٹی پستول سے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا۔ زخمی سرتاج کوسول اسپتال لاڑکانہ لے جایا جا رہا تھاکہ اس نے راستے میں ہی دم توڑدیا۔ اس طرح قانون کے ایک رکھوالے نے ذاتی رنجش کی بنا پر ایک قانون پسند شہری کی جان لے لی۔
اسی روز انسانی جان لینے کا دوسرا واقعہ تھانہ محمد پور کے حدود میں گوٹھ غفار بروہی میں پیش آیا، جس میں مبینہ طور پر شادی سے انکار پرمشتعل ہوکر نیاز بروہی نامی نوجوان نے اپنی ہی قریبی عزیزہ مسمی کلثوم بروہی کو پستول کے فائر کرکے قتل کرنے کے بعد مبینہ طور پہ خود کو بھی گولی مارکر خودکشی کرلی۔ مرنے والوں کے خاندانی ذرائع مذکورہ دوہری اموات کا واقعہ غیرت کے نام پر دوہرے قتل کا ہے، جسے پولیس کی مدد سے مبینہ طور پر خودکشی کا رنگ دیا گیاہے۔ایک ہی دن میں تین افراد کی ہلاکت کے واقعے کے دوسرے روز 2 مئی کو بھی ایسے ہی تسلسل سے دو ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ ان واقعات میں بھی مختلف مقامات پر دو افراد موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ پہلے واقعے میں دوداپور تھانے کیحدود گوٹھ مینگل دشتی میںایک شخص رسول بخش دشتی نے ایک ماہ قبل بیاہی جانے والی اپنی دلہن مسمی نمانی کو گولیاں مارکر قتل کر دیا۔ جب کہ اسی روز ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں تھانہ تاجو دیرو کی حدود گوٹھ جعفر مندرانی میں ملزم شوہر یعقوب مندرانی نے مبینہ طور پر نشہ کرنے سے روکنے پر اپنی بیوی مسمی صدیقا کو گولیاں مارکر ہلاک کر دیا۔ اس طرح صرف دو دن کے اندر ہی مختلف وارداتوں میں 5 بے گناہ افراد کو اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑاجب کہ قاتل واردات کرنے کے بعد جائے وقوعہ سے با آسانی فرار ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ پولیس مقدمہ درج کرنے کے بعدروایتی انداز میں محض خانہ پری کے لیے مذکورہ واقعات کی تفتیش کررہی ہے جب کہ قاتلوں کی گرتاری کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
دو روز کے اندر 5 افراد کےبہیمانہ قتل پر جہاں پر علاقے میں خوف اور دہشت پھیلی ہوئی ہے وہیں پر عوام کے جان و مال کی محافظ گڑھی خیرو پولیس کی کارکردگی پر بھی متعدد سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔سول سوسائٹی اور سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ گڑھی خیرو پولیس کی نااہلی کہیں یا جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کی وجہ امن کے دشمن ہمہ وقت جدید اسلحہ لے کر انسانی جانوں کا شکار کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے پولیس اور شہری انتظامیہ تمام واقعات میں سوائے جائے واردات سے لاشیں اٹھوا کرپوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال پہنچانے کے علاوہ جرائم کے خاتمے اور مجرموں کی بیخ کنی ، قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کوئی بھی عملی کاروائی کرتی نظر نہیں آئی، جس کے بعد لوگوں کے دلوں سے قانون اور انصاف کا خوف ختم ہو گیا ہے۔ ،یہی وجہ ہے کہ گڑھی خیرو میں آئے روز بے گناہ انسانوں اور عام شہریوں کا قتلِ معمول بن چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے، آخر عوام جس کی جان و مال کی حفاظت کے نام پر کروڑوں، اربوں روپے تنخواہوں اور دیگر ضرورتوں کے نام پر لینے والے ادارے ہی جب انہیں تحفظ دینے اور انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوجائیں تو پھرعوام کی حفاظت اور انہیں انصاف فراہم کرنے کا فریضہ کون انجام دے گا۔؟