قومی اسمبلی میں ڈاکٹر رمیش کمار نے ایک پرائیویٹ بل پیش کیا۔ یہ بل سولہ سال سے کم عمر افراد کی شادی کی مخالفت کرتا ہے ۔ اس بل نے کچھ معزز ممبران کو تائو دلادیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شادی کے لئے عمر کی حدمقرر کرنا غیر اسلامی ہے کیونکہ اُن کے مطابق اسلام شادی کے لئے عمر کی حد تجویز کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس رائے کے مطابق ولی(کوئی مرد سرپرست) اپنی سرپرستی میں آنے والے کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی کسی بھی عمر میں شادی کرسکتا ہے ۔ اور یہ کہ بچے کے پاس ولی کی مرضی سے ہونے والی شادی سے انکار کا کوئی حق نہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ اسلام کاطے شدہ اصول ہے، چنانچہ پارلیمنٹ اس میں تبدیلی کی مجاز نہیں ۔
مذکورہ بل نے پارلیمنٹ میں موجودہ جماعتوں اور الائنسز کے درمیان تنازع کھڑا کردیا۔ اس نے سب سے زیادہ مشکل حکومتی جماعت، پاکستان تحریک ِ انصاف کے لئے پیدا کی۔ کابینہ کے دووزرا نے اس بل کی آن ریکارڈ مخالفت کی۔ ان میں سے ایک تو وفاقی وزیر برائے مذہبی امور ہیں۔ دوسرے وزیر نے کھل کر اعلان کیا کہ اگر اُنہیں اس بل پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے ۔ لیکن ایک تیسری وزیر، محترمہ شیریں مزاری اس بل کی حمایت میں اپنے ساتھیوں کے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ اُنہوں نے ببانگ ِدہل کہا کہ وہ اس بل کے حق میں ووٹ دیں گی۔
فی لحال یہ بات غیر واضح ہے کہ ایک پرائیویٹ ممبر کے پیش کردہ اس بل پر حکومت کا باضابطہ موقف کیا ہے ؟ اسی طرح پی ایم ایل (ن) بھی غیر واضح ہے ۔ اس کی صفوں میں مکمل طور پر خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اس میں موجود انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن بھی جماعت میں موجود مذہبی انتہا پسندوں کے رد ِعمل سے خائف ہیں۔ وہ سب کے سب اپنی اپنی نشستوں میں دھنسے رہے ۔ صرف پاکستان پیپلز پارٹی ہی وہ واحد جماعت تھی جو رکن قومی اسمبلی ، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اس بل پر پوری استقامت سے اپنے قائد کے پیچھے کھڑی دکھائی دی۔ او ر یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں۔ جب یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمان اور پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام سینیٹرز نے ا س کی متفقہ طور پر حمایت کی۔
اس معاملےمیں ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے :اگر قائد ِاعظم، بیرسٹر محمد علی جناح کو ایسے معاملات میں مذہبی جذبات اور دلائل کا سامنا ہوتا تواُن کا طرز ِعمل کیا ہوتا؟ لیکن شاید یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ قائد ِ محترم کیا کرتے۔ یقینا وہ 1929 ء میں فکری اعتبار سے ہم سے 90سال آگے تھے ۔
1927 ء میں دستور ساز اسمبلی میں کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کا بل (جو بعد میں اسی نام سے 1929 ء کا ایکٹ بن گیا)پیش کیا گیا۔ وہ بل بھی ایک ہندو، رائے ہری داس سردا نے پیش کیا تھا۔ اسے ’’سردا بل ‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ اُس وقت بھی اس پر تنازع کھڑا ہوگیا تھا، یہاں تک کہ وہ بل دوسال تک ہائوس میں زیر ِالتوا رہا۔ بل شادی کے لئے کم از کم عمر ، اور کم عمر بچوں کی شادی کرنے والے والدین کے لئےسزا تجویز کرتا تھا۔ اس بل نے ہندوستان بھر کے مسلمان اور ہندو بنیاد پرستوںکو مشتعل کردیا۔ ہائوس پٹیشن کمیٹی کو اس کے خلاف 707 درخواستیں وصول ہوئیں۔ ان پر 72,725 افراد کے دستخط تھے ۔ اس بل کی مذمت کرنے کے لئےایک فتویٰ بھی جاری کیا گیا، جس پر چوٹی کے 74علما کے دستخط تھے ۔ اس بل کی حمایت میں صرف چار درخواستیں وصول ہوئیں جس پر صرف دس افراد کے دستخط تھے ۔ ہائوس میں مسلمان ممبران نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔ ان میں این ڈبلیو ایف پی سے تعلق رکھنے والے نواب سر صاحبزادہ عبدالقیوم ، ڈھاکہ سے اے ایچ غزنوی، یوپی سے مسٹر محمد یامین خان اور ترہت (Tirhut) سے مولوی محمد شفیع دائودی قابل ِ ذکر تھے ۔ مولانا دائودی نے بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی منظوری مسلمانوںکے حقوق کی انتہائی سفاک پامالی ہوگی۔ بل کی مخالفت کرنے والوں نے ’’مذہب خطرے میں ہے ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ لیکن یہ مخالفت بیرسٹر جناح کو خائف نہ کرسکی ۔ اُس موضوع پر اُن کے الفاظ بہت واضح اور غیر مبہم تھے ۔ بہتر ہے کہ قائد کے الفاظ قارئین کے سامنے پیش کردئیے جائیں: ’’ میں نہیں یقین کرتا کہ ایسے شیطانی فعل کی حمایت میں مذہب کا کوئی حکم موجود ہے کہ ہم اس قبیح فعل کی یہاں اجازت دے دیں۔ ہندوستان میں رائج ایسی ظالمانہ، خوفناک، توہین آمیز اور غیر انسانی حرکت کی مذہب کس طرح حمایت کرسکتا ہے ؟‘‘جناح بے خبر نہیں تھے کہ وہ کس کی مخالفت کررہے ہیں، اور نہ ہی وہ بنیاد پرستوں کی اپوزیشن سے لاعلم تھے لیکن والٹیئر(فرانسیسی مفکر) کی طرح تسلیم کرتے تھے کہ ہرشخص اپنے عقائد اورجذبات کو عزیز رکھتا ہے لیکن وہ اصول کے معاملے پر دبائو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ وہ اپنے موقف میں بہت پرعزم تھے ۔ اُنھوں نے کہاـ : ’’ ایک سماجی مصلح کو ہمیشہ قدامت پسند سوچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس سوچ کے پیچھے عقیدہ، جذبات اور احساسات ہوتے ہیں، اور یہ بات قابل ِفہم ، اور کسی حد تک جائزبھی ہے ۔ ہر شخص کی اپنی سو چ ہونی چاہئے ۔ لیکن کیا ہم اس طبقے کے جذبات اوراحساسات کا خیال کرتے ہوئے ترقی کے سفر سے پیچھے قدم ہٹالیں؟ انسانیت کے نام پر میں آپ سے سوال کرتا ہوں۔‘‘
’’تو کیا ہم مذہب کے نام پر رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی اجازت دے دیں ، خاص طور پر جب ہم جانتے ہیں کہ اس معاملے پر مذہب خاموش ہے تو میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس اس پر ’’نہیں ‘‘ کہنے کا حوصلہ ہونا چاہئے ۔ نہیں،( اُنھوں نے زور دیتے ہوئے کہا) ہم ا س پر ہر گز خوفزدہ نہیں ہوں گے۔‘‘
ہو سکتا ہے کہ آج ایک پاکستانی، جس کے کانوں میں جناح کے مخصوص اور تراشیدہ بیانات ہی انڈیلے گئے ہیں، کے لئے یہ یقین کرنا مشکل ہو کہ یہ درحقیقت مسٹر جناح کے الفاظ ہیں۔ گیارہ اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے مسٹر جناح کا خطاب بھی اسی موضوع کا تسلسل ہے کہ ریاست کومذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ میر ے نزدیک گیارہ اگست کی تقریر ہمارے دستور کی بنیادی اساس ہونی چاہئے تھی۔ چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شادی کی عمر کا تعین کرنے کے ایشو پر 1929 ء میں بھی مسٹر جناح کس قدر واضح اور دوٹوک تھے۔