• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا، ایران کشیدگی: مشرقِ وسطیٰ پر خطرات کے مہیب سائے

مئی کے پہلے ہفتے میں امریکا کے طیّارہ بردار بحری بیڑے، یو ایس ایس ابراہام لنکن کو خلیجِ فارس میں تعیّنات کر دیا گیا۔ یہ بحری بیڑہ اُس اسٹرائیک گروپ کا حصّہ ہے، جس کی ذمّے داری ایران، امریکا فوجی تصادم کی صورت میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کی حفاظت کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکا کی قومی سلامتی کے مُشیر، جان بولٹن کا کہنا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کا بھرپور طاقت سے جواب دیا جائے گا۔ دوسری جانب ایرانی صدر، حَسن رُوحانی نے کہا ہے کہ ایران اُس نیوکلیئر ڈِیل کی مزید پابندی نہیں کرے گا، جس پر اس نے امریکا اور عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر دست خط کیےتھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر باقی فریقین نے معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا، تو ایران بھی اپنے ایٹمی پروگرام پر عمل درآمد کے حوالے سے آزاد ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی حَسن روحانی نے سرکاری ٹی وی پر ایرانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’حالات عراق جنگ سے بھی ابتر ہیں۔ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔‘‘ اس وقت ایران بالکل اُسی پوزیشن پر واپس آ گیا ہے، جس پرجولائی 2015ء یعنی جوہری معاہدے سے قبل تھا۔ قبل ازیں، 2مئی کو امریکا نے ایران پر پابندیوں کے اُس استثنیٰ کو ختم کرنے کا اعلان کیا، جو اُس نے 8ممالک کو دیا تھا۔ خیال رہے کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس نیوکلیئر ڈِیل سے نکلنے کا اعلان کیا تھا، جب کہ چین، رُوس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی تا حال معاہدے میں شامل ہیں۔ امریکا کے اتحادی ممالک کا خیال تھا کہ وہ ٹرمپ کو کسی طور دوبارہ معاہدے میں شمولیت پر آمادہ کر لیں گے، لیکن ایسا نہیں ہو سکا، بلکہ اب مزید سخت پابندیاں عاید کی جا رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جوہری معاہدہ برقرار رکھنے کی کوششیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں ۔ نیز، مشرقِ وسطیٰ میں امریکا اور ایران کے درمیان تصادم ہونے والا ہے۔

بحیرۂ عرب میں آبنائے ہُرمز وہ اسٹرٹیجک گزر گاہ ہے، جس کے ذریعے دُنیا کا ایک تہائی سے زاید تیل مشرقِ وسطیٰ سے امریکا، چین، بھارت، جاپان، جنوب مشرقی ایشیا، کینیڈا، آسٹریلیا، لاطینی امریکا اور نیوزی لینڈ تک جاتا ہے۔ اس سے کچھ فاصلے پر پاکستان کی گوادر بندرگاہ اور ایران کی چاہ بہار پورٹ واقع ہے۔ آبنائے ہُرمز کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اُن پانچ آبی گزر گاہوں میں سے ایک ہے، جو بحرِہند کی کلید کہلاتی ہیں۔ باقی چار آبنائے ملاکا، آبنائے سوئز، آبنائے عدن اور آبنائے باسفورس ہیں۔ پینٹاگون نے پہلے اپنا طیّارہ بردار جہاز، یو ایس ایس ابراہام لنکن بحرِ روم سے بحیرۂ عرب میں اُتارا اور پھر اس کی حفاظت کے لیے بی 52نامی بم بار طیّارے قطر کے فوجی اڈّے پر تعیّنات کر دیے۔ مذکورہ بحری بیڑے پر 90لڑاکا بم بار طیّارے اور جنگی ہیلی کاپٹرز موجود ہیں، جب کہ یہ مشہور ٹوما ہاک میزائل سے بھی لیس ہے۔ خیال رہے کہ یہی میزائلز افغانستان میں اسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کو تباہ کرنے کے لیے بحرِ ہند سے فائر کیے گئے تھے۔ مذکورہ امریکی اقدام کے بعد ایرانی فوج نے بیان دیا کہ وہ امریکی بحری بیڑے کو ایک میزائل سے تباہ کر سکتی ہے۔ بعد ازاں، امریکا نے اپنے بحری بیڑے کی حفاظت کے لیے دفاعی نظام بھی نصب کر دیا، جو بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور جدید جنگی طیّاروں کی روک تھام کے لیے ہے اور ایران، عراق جنگ میں سعودی عرب کی حفاظت کے لیے یہی نصب کیے گئے تھے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات ایرانی خطرے کے پیشِ نظر کیے گئے ہیں، جب کہ ایران اسے دبائو کا حربہ قرار دیتا ہے۔ گو کہ امریکا نے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا، لیکن ماہرین کے مطابق امریکا اپنے عرب اتحادیوں کو یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ انہیں امریکا کی ’’حفاظتی چھتری‘‘ حاصل ہے۔

گزشتہ 50برس کے دوران واشنگٹن اور تہران کے درمیان تعلقات انتہائی نچلی سطح پر رہے ہیں۔ ایرانی انقلاب کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔ ایران کی مذہبی حکومت کا کہنا تھا کہ امریکا اس کا دشمن نمبر ایک ہے اور اس کے جواب میں امریکا اسے ’’بدی کا محور‘‘ کہتا رہا۔ اس دشمنی میں ایک مرتبہ سابق امریکی صدر، باراک اوباما کے دوسرے دَور میں تعطّل آیا۔ اس سلسلے میں سابق امریکی وزیرِ خارجہ، جان کیری نے مرکزی کردار ادا کیا اور انہوں نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک نیوکلیئر ڈِیل کو حتمی شکل دی۔4سال قبل طے پانے والے اس جوہری معاہدے کی سب سے زیادہ مخالفت مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک اور اسرائیل نے کی، لیکن عالمی طاقتوں نے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا، جو بعد ازاں فریقین کے لیے مشکلات کا سبب بنا۔ گرچہ اس منصوبے کو ’’جوائنٹ ایکشن کمپری ہینسیو پلان‘‘ کا نام دیا گیا تھا، لیکن اس میں جوہری معاملے کے سوا کسی بھی معاملے کو زیرِ غور لانے کی بات نہیں کی گئی تھی اور اگر صرف جوہری معاملے ہی کو دیکھا جائے، تو ایران کے اس دعوے میں کسی حد تک وزن محسوس ہوتا ہے کہ وہ مظلوم فریق ہے۔

امریکا، ایران کشیدگی: مشرقِ وسطیٰ پر خطرات کے مہیب سائے
خلیجِ فارس میں موجود امریکی طیارہ بردار بحری بیڑا، یو ایس ایس ابراہام لنکن

عالمی طاقتوں سے جوہری معاہدے کے نتیجے میں ایران کو فائدہ پہنچا اور ایرانی صدر، حَسن روحانی کی اندرونِ مُلک مقبولیت بڑھ گئی، لیکن امریکا میں ٹرمپ کے برسرِ اقتدار آتے ہی بازی پلٹ گئی۔ تاہم، یہ کوئی ناگہانی صورتِ حال نہیں تھی، کیوں کہ معاہدے کے ایک سال بعد اپنی انتخابی مُہم میں ٹرمپ نے نیوکلیئر ڈِیل کو بد ترین معاہدہ قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کی دھمکی دی تھی اور پھر گزشتہ برس نومبر میں امریکا نے اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر دیا۔ دراصل، نیوکلیئر ڈِیل کے نتائج امریکا اور اس کے اتحادیوں کی توقعات کے بر خلاف نکلے۔ معاہدے کے بعد ایران، جو شام میں بشار الاسد کی حمایت کر رہا تھا، مزید طاقت کے ساتھ جنگ کا حصّہ بن گیا، جب کہ غالباً اوباما کا خیال تھا کہ معاہدے سے ملنے والی رعایت کے بعد وہ شامی خانہ جنگی کے خاتمے میں مدد کرے گا۔ کچھ عرصے بعد معاہدے کے ایک اور فریق، رُوس نے بھی شام میں فوجی مداخلت کرتے ہوئے فضائی بم باری شروع کر دی اور سابق امریکی صدر اور اُن کے وزیرِ خارجہ تماشائیوں کی طرح شامی شہریوں کا قتلِ عام ہوتے دیکھتے رہے۔ وہ ایران اور رُوس کی پالیسیز کے سامنے مکمل طور پر پسپا اور بے بس نظر آئے اور انہوں نے اپنے مشرقِ وسطیٰ کے اتحادیوں کو بیچ منجدھار میں چھوڑ دیا۔ نتیجتاً، شامی اپوزیشن شکست کھا گئی۔ پھر یمن میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور وہاں بھی ایران اور حزبُ اللہ نے خاصا فعال کردار ادا کیا۔ یاد رہے کہ اوباما کے دَور ہی میں امریکی و مغربی فوجی ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کر دیا تھا کہ تہران، دمشق، بغداد اور بیروت راہ داری بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر عربوں کو یہ یقین ہو گیا کہ ایران کو مشرقِ وسطیٰ میں برتری دلانے کے لیے ڈِیل کی گئی تھی۔ تاہم، عالمی طاقتوں نے ان کی شکایات پر کان نہیں دھرے اور انہوں نے اسرائیل کے تحفظات کو بھی نظر انداز کر دیا۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ شاید نیوکلیئر ڈِیل کی صورت میں ملنے والی فتح کی سرشاری نے حَسن روحانی جیسے منجھے ہوئے اور مدبّر سیاست دان کو اپنے پڑوسی عرب ممالک سے معاملات سُلجھانے سے باز رکھا اور پھر ایران کے سخت گیر عناصر کی وجہ سے پیدا ہونے والے برتری کی جنگ کے تاثر کو ختم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی، حالاں کہ فریقین امتِ مسلمہ سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان و تُرکی سمیت کئی اسلامی ممالک اس سلسلے میں ثالث کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکتے تھے۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے عُہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا غیر مُلکی دورہ سعودی عرب کا کیا، جہاں انہوں نے کُھل کر عرب مؤقف کی حمایت کی اور ایران پر دہشت گردی و افراتفری پھیلانے کا الزام لگایا۔ نیز، امریکی صدر نے ریاض میں 40اسلامی ممالک کے سربراہان سے خطاب بھی کیا اور بعد ازاں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک مشترکہ فوج بھی تشکیل دی گئی۔ اس موقعے پر ایرانی قیادت یہ بھانپنے میں ناکام رہی کہ ایران اپنی جارحانہ پالیسی کی وجہ سے اسلامی دُنیا میں تنہائی کا شکار ہو رہا ہے اور حَسن روحانی کو شاید اپنے یورپی دوستوں پر کچھ زیادہ ہی اعتماد تھا کہ وہ ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے، جنہیں ٹرمپ کی پالیسی سے شدید خطرہ لاحق تھا، لیکن آج ایرانی صدر ہی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ حالات عراق جنگ سے بھی زیادہ ابتر ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اُس وقت ایران کو بینکوں، تیل کی فروخت یا درآمدات و برآمدات جیسے مسائل کا سامنا نہیں تھا اور صرف ہتھیاروں پر پابندی عاید تھی۔ اگر دیکھا جائے، تو یورپی میڈیا بھی یہی تاثر دیتا رہا کہ عربوں کا جوہری معاہدے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ صرف ایران اور عالمی طاقتوں کا معاملہ ہے، حالاں کہ جغرافیائی طور پر بھی ایران، عرب دُنیا سے منسلک ہے، یورپ اس سے دُور، جب کہ امریکا ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کے ایٹمی پروگرام کا یورپ اور امریکا پر براہِ راست کوئی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ اس کے اتحادی عرب ممالک اس سے متاثر ہو رہے تھے۔ یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اپنے تجارتی مفادات کی خاطر ایران اور عرب دُنیا کو قریب لانے کی کوشش نہیں کی۔ بعد ازاں، جب ٹرمپ نے نیوکلیئر ڈِیل سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا، تو انہوں نے ایران کے مشرقِ وسطیٰ میں عسکری کردار پر بہت سے سوالات اُٹھائے اور اب اگر جوہری معاہدے پر کوئی بات چیت ہو گی، تو ایران کی فوجی مداخلت کو اوّلیت حاصل ہو گی۔

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایرانی صدر، حَسن روحانی اس پوزیشن میں ہوں گے کہ وہ عرب دُنیا اور سیاسی معاملات پر کسی قسم کی گفتگو کر سکیں؟ ایسا شاید بہت مشکل ہو گا، کیوں کہ امریکی اقدامات اور معاشی دبائو نے اب اندرونِ مُلک اُن کی سیاسی پوزیشن کو بہت کم زور کر دیا ہے اور اسی لیے انہیں خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے کی اپیل کرنا پڑی۔ پھر ایک مشکل یہ بھی ہے کہ دوسرے ترقّی پزیر اسلامی ممالک کی طرح ایران میں بھی سازشی تھیوریز کا ذکر کرنے والے خاصا اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور وہ کوئی عملی قدم اُٹھا کر مشکلات سے نکلنے کی کوشش کرنے کی بہ جائے عوام کا جذباتی استحصال کرتے ہیں، جب کہ صدر روحانی ایک عملیت پسند رہنما ہیں اور انہیں کم زور کرنا نہ صرف امریکا بلکہ ایران کے سخت گیر عناصر کے لیے بھی بہتر ہے۔ یاد رہے کہ ایرانی صدر کے تمام مفاہمتی اقدامات کا بنیادی نکتہ ایران کی تباہ حال معیشت کو بحال کرنا تھا اور وہ ابتدا میں اپنے اس مقصد میں کام یاب بھی رہے، لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران امریکا کی جانب سے عاید پابندیوں سے ایران کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت ایرانی معیشت ناقابلِ تصوّر صورتِ حال سے گزر رہی ہے ۔ ایک امریکی ڈالر1,65,000ایرانی ریال کا ہو چُکا ہے، جب کہ تیل کی پیداوار انتہائی کم ہو گئی ہے۔ بیرونِ مُلک تجارت پر پابندی کی وجہ سے مُلک میں افراطِ زر بڑھ رہا ہے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع ناپید ہو چُکے ہیں۔ دوسری جانب حَسن روحانی کے یورپی دوست اُن کی مدد کرنے میں ناکام ہیں اور یورپی کمپنیز کسی بھی صورت ایران کی خاطر امریکی مارکیٹ کھولنے پر آمادہ نہیں۔ اندرونِ مُلک صدر روحانی اب اپنے مخالفین کا مؤقف اپنانے پر مجبور ہو چُکے ہیں۔ انہوں نے نیوکلیئر ڈِیل کی دو شِقیں معطّل کرنے کے ساتھ ہی اپنے یورپی معاونین کو یہ تنبیہہ بھی کی ہے کہ وہ 60روز کے اندر معاہدے کی پاس داری کے لیے اقدامات کریں اور ایران کا اقتصادی محاصرہ ختم کرنے کے لیے مدد کریں، وگرنہ وہ مزید شِقیں بھی معطل کردیں گے۔ تاہم، یورپی یونین نے اس انتباہ کو مسترد کر دیا اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے کہا ہےکہ ایران معاہدے کے طے شدہ اصولوں پر عمل جاری رکھے اور کشیدگی بڑھانے والے اقدامات سے گریز کرے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیوکلیئر ڈِیل کی موت کا وقت قریب آتا جا رہا ہے اور ایران کی جانب سے معاہدے کی شِقیں معطّل کرنے کا مطلب یورینیم افزودگی کی سطح کو بڑھانا، افزودہ یورینیم کا ذخیرہ کرنا اور اسے ایٹم بم بنانے کی جانب راغب کرنا ہے، لیکن کیا ایران کے اس اقدام کو اس کے پڑوسی عرب ممالک قبول کریں گے، جب کہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ سعودی عرب بھی ایٹمی طاقت بننے کی طرف جا رہا ہے۔

اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا ایران اور امریکا کے درمیان جنگ ہونے جا رہی ہے، تو ماہرین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ البتہ کشیدگی میں اضافے کے نتیجے میں خطّے کے اسلامی ممالک کو اپنے مزید وسائل جنگوں میں جھونکنے پڑیں گے، جو پہلے ہی ہر لحاظ سے پیچھے ہیں۔ پھر تیل کی کم قیمتیں ایران سمیت تمام تیل پیدا کرنے والے ممالک کے لیے ایک چیلنج بن چُکی ہیں اور ان سب ممالک کی معیشتیں ایک عرصے تک دبائو میں رہیں گی، جب کہ امریکا میں شیل آئل اتنی مقدار میں نکل رہا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے یورپی اتحادیوں کی تیل کی ضرورت بہ آسانی پورا کر سکے گا۔ اس صورتِ حال میں غالباً ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات ہی سب سے بہتر حل ہے اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ٹرمپ سیاسی معاہدے کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ہمہ وقت آمادہ بھی رہتے ہیں۔ خیال رہے کہ جنگ صرف تباہی لے کر آتی ہے اور آج پوری امتِ مسلمہ ہی جنگ کے شعلوں میں گِھری ہوئی ہے اور کروڑوں مسلمان تارکینِ وطن در بدر ہیں۔ ایران اور عرب ممالک کو برتری کی جنگ میں مبتلا ہونے کی بہ جائے خطّے کے مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حکمتِ عملی اپنانا پڑے گی، وگرنہ مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پہلے سے بھی زیادہ دگرگوں ہو جائے گی۔

تازہ ترین