ایک ایسے وقت میں جب پاکستان امریکی ڈالر کی اونچی اُڑان کی وجہ سے سنگین معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے، ہمارے ایک اور ہمسایہ ملک ایران کے خلاف طبل ِ جنگ بج چکا ہے۔ میری نظر میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ ٹویٹ پیغام باعثِ تشویش ہے جس میں انہوں نے ایران کو واضح الفاظ میںتباہ و برباد کرنے کی دھمکی دی ہے،جبکہ ایرانی قیادت نے امریکی اشتعال انگیزی کو مسترد کرتے ہوئے ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کی ہے، ٹرمپ پہلے ہی سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں ایران امریکہ جوہری سمجھوتے سے علیحدگی اختیار کرکےایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کو ایران امریکہ کشیدگی سے دور رہنا چائے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ہم اپنی منفرد جغرافیائی پوزیشن ، امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی ملک اورسب سے بڑھ کر ایران کے ساتھ تاریخی مذہبی و ثقافتی تعلقات کے تناظر میں لاتعلق رہ سکتے ہیں ،میرے اس موقف کی حمایت حال ہی میں حکومت پاکستان کی جانب سے ایران کو لکھا گیا خط ہے جس میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں عملدرآمد کی راہ میں بڑی رکاوٹ امریکی پابندیوں کو قرار دیاگیا ہے۔ عالمی میڈیا سے موصول تشویشناک اطلاعات کے مطابق اس وقت پورا مڈل ایسٹ بدترین کشیدگی کا شکارہے، متحدہ عرب امارات کی سمندری حدود میںموجود بحری جہازوں پر حملوں کا الزام ایران پر لگا دیا گیاہے، اسی طرح یمن میں حوثی باغیوں کے سعودی عرب کے آئل پمپنگ اسٹیشنز پر حملوں کے نتیجے میں سعودی عرب گلف کوآپریشن کونسل اور عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرچکا ہے، سعودی عرب کاموقف ہے کہ ایران یمن کے حوثی جنگجوؤں کو اسلحہ فراہمی میں ملوث ہے، علاقائی کشیدگی کے اس ماحول میں امریکہ کی طرف سے بھی مزید جنگی جہاز اور تباہ کن ہتھیار اپنے فوجی اڈوں میں منتقلی کی اطلاعات ہیں، امریکی میڈیا کے مطابق ایران کو نشانہ بنانے کیلئے پیٹریاٹ میزائل بھی مڈل ایسٹ میں نصب کردیئے گئے ہیں،امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ انتہائی اقدام ایران کی جانب سے خطرے کے ردعمل میں اٹھایا ہے، دوسری طرف ایران کو اپنا دشمن نمبر ایک قرار دینے والا اسرائیل بھی ایران پر حملہ یقینی بنانے کیلئے پیش پیش ہے، اسرائیل اپنی بقا کی خاطر آس پاس کے تمام مخالف ممالک کو عدم استحکام کا شکاردیکھنے کا خواہاں ہے۔ شاہِ ایران کے دورِ حکومت میں ایران امریکہ اور اسرائیل دونوں ممالک کا قریب ترین اتحادی ملک تھالیکن پھر 1979ء کے انقلاب ایران کے بعد مرگ بر امریکہ کا نعرہ ایران کے طول وعرض میں گونجنے لگا۔دوطرفہ کشیدگی کی اس تاریخ میں عالمی برادری نے سابقہ امریکی دور حکومت میں امریکہ ایران جوہری سمجھوتے کو عالمی امن کیلئے خوش آئند قرار دیا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ امریکی قیادت کی جانب سے اسے بھی جنگی جنون کی نذر کردیتے ہوئے فراموش کردیا گیا کہ حصولِ توانائی اور پرامن مقاصد کیلئے جوہری طاقت کا استعمال ہر ملک کا حق ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو جن نت نئے بحرانوںسے نبردآزما ہونا پڑ رہا ہے ان میں سے ایک حالیہ امریکہ ایران کشیدگی بھی ہے،ہمارے لئے صورتحال اس لحاظ سے بھی پیچیدہ ہے کہ پاکستان کے روز اول سے امریکہ، ایران اور سعودی عرب تینوں متحارب ممالک سے یکساں قریبی سفارتی تعلقات قائم ہیں، اگر ایک طرف ایران پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا اور پاک بھارت جنگوں میں ٹھوس امداد فراہم کرنے والا ملک ہے تویہ بھی ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ پاکستان نے اپنے قیام کے بعدامریکی کیمپ میںشمولیت کا فیصلہ کرتے ہوئے امریکہ کا اتحادی بننا پسند کیا، اسی طرح سعودی عرب کے مسلم دنیا میں سب سے قریبی اتحادی ملک ہونے کا اعزاز پاکستان کو حاصل ہے،پاکستانی عوام کا مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات کی دیکھ بھال کرنے والے سعودی عرب سے خصوصی عقیدت و احترام کا رشتہ قائم ہے۔میری نظر میں وزیراعظم عمران خان صاحب کے دورہ ایران سے دوطرفہ تعلقات کے جس نئے دور کا آغاز ہوا ہے اس کو کسی عالمی تصادم کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہئے ،ہماری موجودہ سفارتی حکمت عملی کا محور اس نکتہ پر ہے کہ ہماری پاک سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو لیکن اب ہمیں صرف غیرجانبداری یا لاتعلقی کی پالیسی پر ہی تکیہ نہیں کرنا ہوگا بلکہ جنگ شروع ہونے سے قبل ہی سفارتی محاذ پر نہایت متحرک ہونا ہوگاچاہے ہمیں ثالثی کا کردار ہی کیوں نہ ادا کرنا پڑے، ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ایران کی سرحدیں ہمارے اہم ترین صوبہ بلوچستان سے ملتی ہیں جہاں رواں صدی کا سب سے بڑا منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے، ایران پرمسلط کردہ جنگ کے شعلے پاکستان سمیت پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایران کے ساتھ جنگی تصادم چین، روس، فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے قومی مفاد میں بھی نہیں ہوسکتا جو امریکہ ایران جوہری سمجھوتے کے دیگر فریقین تھے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تمام سفارتی چینل استعمال کرتے ہوئے عالمی برادری کو جنگ کی تباہ کاریاں سے بچانے کیلئے قائل کریں ۔ امریکہ کو افغانستان، عراق، کوریا اور ویت نام کی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ بذات خود ایک مسئلہ ہے، ہمیں اپنے قریبی سفارتی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ اور ایران کی قیادتوں کوسمجھانا چاہئے کہ وہ جذبات سے نکل کر مذاکرات کی میز پر اپنے مسائل کا حل ڈھونڈیں اور ایک دوسرے سے اسلحہ نہیں بلکہ دلائل کی زبان میں بات کریں۔ آج پاکستانی میڈیا جو امریکی ڈالرکی قدر میں اضافے، ہوشربا مہنگائی اور اپوزیشن کی احتجاجی سیاست کی بنا پر ایران امریکہ کشیدگی پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پارہا ، اسے بھی چاہئے کہ حالیہ امریکہ ایران کشیدگی کے تناظر میں قومی بیانیہ تراشنے کی خاطر رائے عامہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔