مختار احمد کھٹی ،ٹنڈو غلام علی
جدیددور میں بچوں کے ساتھ والدین کے بے جا لاڈ پیار نے انہیں ہر طرح کی اخلاقی اقدار سے مادر پدر آزاد کردیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی آمد کے ساتھ جنریشن گیپ ختم ہونے کے بعد والدین اور اولاد کے درمیان حائل ،تقدس و احترام کے تمام فاصلے بھی ختم ہوگئے ہیں ۔ موبائل فون کی بہتات اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال نے 21ویں صدی کی ایک ایسی نسل تیارکی ہے جو بے راہ روی کا شکار ہوگئی ہے، اس میں ہر قسم کی برائیاں پیدا ہوگئی ہیں جب کہ والدین انہیں راہ راست پر لانے میں ناکام ہیں۔موبائل فون اور انٹرنیٹ پر مخرب الاخلاق ویڈیوز اور تصاویر دیکھ کر نوجوان اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں اور وہ فلموں کی کہانیوں کو حقیقی انداز میں فلمانے کی کوشش کرکے ماں باپ کی عزت اور ساکھ کو پامال کردیتے ہیں۔ا س میں بچے اور بچیاں دونوں ہی برابر کی شریک ہیں۔ ملک بھر میں اس نوع کے روزانہ درنوں واقعات ہوتے ہیںجو منظر عام پر نہیں آتے۔موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولتوں سے بلیک میلرزبھی استفادہ کررہے ہیں۔ وہ اس ٹیکنالوجی سے دوہرے فوائد حاصل کررہے ہیں، ایک جانب وہ دوستی کے نام پر جھانسہ دےکر اپنی ہوس پوری کرتے ہیں جب کہ مذکورہ بچے اور بچیوں کی شرمناک ویڈیوز اور تصاویر بنا کر انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کی دھمکیاں دے کر بلیک میلنگ کا کاروبار کرتے ہیں۔ کچھ عرصے قبل تھرپارکر میں بلیک میلروں کا گروہ پکڑا گیا تھا جس کی گرفتاری کے بعد اہم انکشافات منظر عام پر آئے تھے ۔بعض ذرائع کے مطابق بلیک میلروں کو بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے اوربلیک میلنگ کا مکروہ کاروبار مذکورہ شخصیات کی زیر سرپرستی جاری ہے جس کی وجہ سے ان کی سرکوبی کرنے والے ادارے بے بس ہوگئے ہیں۔
چند روز قبل ٹنڈو غلام علی میں بھی ایک نوجوان لڑکی جدید سائنسی ایجادات کی بھینٹ چڑھ گئی۔اسی قسم کا واقعہ ٹنڈو غلام علی کے وارڈ نمبر 5 کے میگھواڑ محلہ سے تعلق رکھنے والی محکمہ صحت کے ریٹائرڈ افسر اور مقامی سول ہسپتال کے سابق میڈیکل سپرننٹدنٹ ،ڈاکٹر لکھمن پرمار کے باعزت گھرانے کے ساتھ بھی پیش آیااور لکھمن پرمار کی لاڈلی بیٹی بلیک میلروں کے ہاتھوں تنگ آکر موت کی آغوش میں سوگئی۔اطلاعات کے مطابق اس کی موت کا سبب فیس بک اور واٹس اپ سے متوفیہ کی تصاویر اٹھا کر انہیں فوٹو شاپ کے استعمال سے نازیبا اور قابل اعتراض حالت میں بنا کر مذکورہ لڑکی کو بھیج کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی دھمکی دے کر اسے اپنے مطالبات پیش کیے ۔وہ ان کے مطالبات پورے کرتے کرتے تنگ آگئی تھی اور ان سے راہ فرار نہ پاکر اس نے زندگی سے ہی فرار حاصل کرلیا۔ متوفیہ انیلا پرمار نے خودکشی کرنے سے پہلے لکھے جانے والے آخری خط میں اپنی موت کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ سوم پرمار، مھیش اور اشوک کی بلیک میلنگ سے تنگ ہوکر میںزہر پی رہی ہوں۔ میری موت کا ذمہ دار مذکورہ افراد کو گردانا جائے۔
نیلا پرمار کے والد ڈاکٹر لکھمن پرما رنے اپنی بیٹی کی موت کے بعدذرائع ابلاغ کغ نمائندوں کو بتایا کہ بلیک میلنگ کا مرکزی ملزم سوم پرماران کاشتہ دار ہے اور ان گھر اس کا اکثر آنا جانا رہتا تھا۔کچھ عرصے قبل انیلا نے انہیں بتایا کہ سوم پرمار نے اسےتنگ کیا ہوا ہے اور ناجائز مطالبات منوانے کے لیے اس نے اس کی قابل اعتراض حالت میں فوٹو شاپ کے ذریعے فیک تصاویر اور ویڈیو بنارکھی ہیں اور وہ رقومات کے علاوہ مجھ سے ناجائز تعلقات بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر لکھمن کے مطابق انہوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے مذکورہ بلیک میلروں کو ہزاروں روپے کی رقم منہ بند کرنے کے لیے دی ۔ ہم نے جب اڈیرو لعل کے مکین مھیش واگھیلو سے اپنی بیٹی انیلا کا رشتہ طےکرکے منگنی کردی تو ر سوم پرمار نے مہیش کے گھر والوں کو میری بیٹی کی فیک تصاویر ارسال کیں اور کسی ذریعے سے ان کے فون نمبر حاصل کرکے ان پر انیلا سے شادی نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالاجس کے بعد مہیش نے انیلا سے منگنی توڑ دی۔ اس واقعے کے بعدہمارا ایک اور رشتہ دار اشوک نامی نوجوان جوکہ بھارت میں سکونت پذیر ہے،اور ان دنوں وہ ٹنڈوغلام علی آیا ہوا تھا۔پہلے اشوک کے گھر والے میرپور خاص کے شہر جھڈواور بعد ازاں ٹنڈو الہیار میں رہائش پذیر تھے ۔جب ان سے چند دن پہلے میری بیٹی انیلا کے رشتے اور منگنی کی بات چلائی گئی تو بلیک میلر سوم اور مھیش نے اشوک کو وہ تصاویر اور ویڈیو دکھا کراس پر انیلا سے رشتہ نہ کرنے کے لیے دباؤر ڈالا۔ اشوکنے عین منگنی کی رسومات کے دوران میری بیٹی انیلا سے شادی کرنے سے صاف انکار کر دیا ۔ جس کے بعد میری بیٹی ذہنی دباوٗ کا شکار رہنے لگی۔ واقعہ سے ایک دن پہلے میری بیٹی انیلا نے مجھ سے کہا کہ سو م ، مہیش اور اشوک نے اس کا جینا محال کر دیا ہے۔ وہ اب ز ندہ رہنانہیں چاہتی، ہم نے اسے تسلیاں دے کر خاموش کردیا ۔ لیکن ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہوہ بلیک میلر گروہ سے عاجز آکر اس حد تک بھی جاسکتی ہے کہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے۔وقوعے والے روز دن سکون سے گزرنے کے بعد رات کو اس کے کمرے سے چیخوں کی آوازیں سن کر جب ہم اس کے کمرے میں گئے تو اس نے روتے گہوئے کہا بلیک میلروں نے اس کی زندگی جہنم بنا دی ہے ، میری وجہ سے میرے خاندان کی عزت بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے اس لیے اس نے ان تمام باتوں سے نجات کے لیے زہر پی لیا ہے۔ اس کے کمرے سے اس کا تحریر کیا ہو آخری خط بھی ملا جس میں اس نے لکھاتھاکہ میںبلیک میلروںسوم پرمار،مہیش واگھیلو اور اشوک کی بلیک میلنگ سے تنگ آکر زہر پی رہی ہوں اور میری موت کے ذمہ دار وہی تینوںہوںگے۔ ہم اپنی بے ہوش بیٹی کو حیدر آباد کے اسپتال لے کر گئ وہاں سے کراچی روانہ ہوئے لیکن انیلا پرمارجان بر نہ ہوسکی۔ ہم اس کی میت کا تعلقہ اسپتال ماتلی سے پوسٹ مارٹم کرواکر ٹنڈو غلام علی لائے۔جس کے بعدمذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد اسے سپرد خاک کر دیا ۔ اس موقع پر کماری انیلا پرمار کے چچا ڈاکٹرہرکھا رام نے بتایا کہ ہماری بھتیجی انیلا پرمار کو بلیک میل کرنے والے مرکزی ملزم، بلیک میلر سوم پرمار کی والدہ ایک ہفتہ قبل بھی ہمارے پڑوس میں ایک عزیز کے گھر آئی تھی اور اس نے انیلا کی ویڈیو اور تصاویر ختم کرنے کے لیے رقم طلب کی تھی اور نہ دینے پر اس نے کہا پھر آپ لوگوں کی لڑکی تمام عمر کنواری رہے گی کوئی اس کے ساتھ بیا ہ نہیں کر ے گا۔ متوفیہ انیلا کے والد، ڈاکٹر لکھمن پرمار کا یہ بھی بتایا کہ انہوں نےانیلا کے فون پر مختلف نمبروں سے آنے والی کالز کا پتہ لگوانے کیلئے تمام ذمہ داراں کو جا کر تحریری اطلاع دی تاہم بروقت کاروائی نہ ہونے کے سبب میری بیٹی موت کے انہ میں چلی گئی۔
ایس ایس پی بدین حسن سردار نیازی نے ٹنڈو غلام علی پہنچ کر غمزدہ خاندان کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بچی کو موت کی وادی میں جھونکنے والے درندہ صفت بلیک میلروں سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ انہوں نے کہا انہوں نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے جسے ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ واقعے میں ملوث ملزمان کو 48 گھنٹوں میں گرفتا ر کر کے پیش کریں۔ بعد ازاںایس ایچ او ٹنڈو غلام علی، ریاض علی رند کے مطابق بلکی میلنگ کے واقعے کاےمرکزی ملزم سوم کمار کو حیدرآباد کے فتح چوک کے قریب ایک ہندو تنظیم کی معاونت سےگرفتار کیا گیا جبکہ باقی 2 ملزمان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
ٹنڈو غلام علی سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی، میر غلام علی خان تالپور نےاس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے غم زدہ خاندان کی دلجوئی اور بھرپور قانونی معاونت کی یقین دہانی کرائی ہے۔اس ضمن میر غلام علی خان تالپور نے اپنے ذاتی اثر رسوخ کے تحت بلیک میلروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے اپنے کوششیں تیز کردی ہیں۔
واقعے کے بارے میںسول سوسائٹی کا کہنا ہے کہاگر بلیک میلروں کی سرکوبی کے لیے قبل از وقت جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جاتا توبچی کی جان بچ سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نیٹ اور موبائل فون کی بہتات کی وجہ سے بلیک میلروں کے متعدد گروہ وجود میں آگئے ہیں اور اکثر و بیشتر بلیک میلنگ کے واقعات سننے میں آتے ہیں۔ اب بھی اگر ذمہ دار ادارے سنجیدگی سے ان واقعات کا نوٹس لیں، سی ڈی آر اور دیگر تیکنیکس کو بروئے کار لاکر سوشل میڈیا کے ذریعہ بلیک میلنگ کا دھندہ کرنے والے گروہوں کا سراغ لگاکر انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں تو اس قسم کے واقعات سے نجات مل سکتی ہے۔