شوبز اُس دُنیا کا نام ہے ،جہاں ہر روز نئے چہرے آتے اور گم ہو جاتے ہیں، لیکن کچھ آرٹسٹ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے کام سے اپنے پرستاروں پر ایسا جادو کردیتے ہیں، جنہیں اُن کے کردار کی وجہ سے مدتوں یاد رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک آرٹسٹ کا نام ’’نیلم منیر‘‘ ہے جو شوبز انڈسٹری میں آتے ہی چھا گئیں۔ نیلم منیر اُن خوش نصیب، ذہین اور باصلاحیت آرٹسٹوں میں سے ایک ہیں جو کام کے پیچھے نہیں بھاگیں، بلکہ کام اُن کے پیچھے پیچھے بھاگا۔9 ویں جماعت سے شوبز انڈسٹری کا سفر شروع کرنے والی نیلم آج پاکستان کی ڈراما اور فلم انڈسٹری کا بڑا نام ہیں۔ ان کی صورت میں پاکستان کی ٹی وی اور فلم انڈسٹری کو ایک ذہین، باصلاحیت، بااعتماد اور فنکارانہ صلاحیتوں سے مالا مال آرٹسٹ مل گئی ۔ نیلم منیر نے ’’جیو ٹی وی ‘‘ کے مارننگ شو کے ایک سیگمنٹ سے شہرت پائی ۔ جیو ٹی وی کے ہی ڈرامے ’’میری صبح کا ستارا‘‘ میں بھی انکا مرکزی کردار کافی مشہور ہوا۔ اس کے علاوہ جل پری، میری بہن مایا، اشک، کیسے ہوئے بے نام، بوجھ ، اُم ہانیہ سمیت کئی مقبول ڈراموں میں اہم کردار ادا کئے۔ رومانٹک کرداروں کے ساتھ منفی کردار بھی بخوبی کیے،نہ صرف یہ بلکہ مختلف مصنوعات کے اشتہارات میں ماڈلنگ بھی کرچکی ہیں۔ 2017ء میں فلم ’’چھپن چھپائی‘‘ سے نیلم نے فلمی صنعت میں قدم رکھا، اب میٹھی عید پر ان کی ایک میگا بجٹ فلم ’’ رانگ نمبر2 ‘‘ ’جیوفلمز‘‘ اور وائی این ایچ فلمز کے اشتراک سے ملک بھر میں ریلیز ہورہی ہے ۔ فلمی پنڈتوں کو یقین ہے کہ رانگ نمبر کی کام یابی کے بعد اِن کی ٹیم کی بنائی گئی فلم ’’رانگ نمبر2 ‘‘ بھی یقیناً کامیابی کاجھنڈا لہرا دے گی۔ گزشتہ دنوں نیلم منیر سے اُن کی نئی فلم کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ اور نجی زندگی کے حوالے سے کچھ کھٹی میٹھی باتیں ہوئی ہیں جو نذرِ قارئین ہے۔
س:رانگ نمبر 2میں سمیع خان کے ساتھ مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے کیسا لگا؟
نیلم منیر:سمیع خان کے ساتھ میری آن اسکرین کیمسٹری بہترین رہی۔ اُمید ہی نہیں یقین بھی ہے کہ ہماری یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوگی۔ پرستاروں کو ہم سے بہت زیادہ توقعات ہوتی ہیں ، اِن ہی کے سبب ایک آرٹسٹ ہمیشہ دبائو کا شکار رہتا ہے۔گرچہ ’’رانگ نمبر‘‘ بہت زبردست فلم تھی لیکن اسے سپر ہٹ بنانے کیلئے ہم نے بھی بہت زیادہ محنت کی ہے۔ اُمید ہے کہ یہ فلم مقبولیت میں سابقہ فلم کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گی۔
س:فلم کے بارے میں مختصراً بتائیں ؟
نیلم منیر: رانگ نمبر 2 کی کہانی کو کچھ اس طرح سجایا سنواراگیا ہے کہ فلم دیکھنے والے اپنی جگہ چھوڑ نہیں سکیں گے، ہر سین سے لطف اندوز ہوں گے۔ ہم نے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں لانے کی کوشش کی ہے۔ مرجھائے ، دُکھی اور پریشان چہروں پر قہقہے بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔ جان دار مکالمے اور بھر پور کامیڈی پر مشتمل فلم عید کے رنگوں کو مزید نکھار کر عوام کی خوشیاں دو بالا کردے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اچھا کام اچھی نیت سے کیا جائے تو اوپر والا ضرور کامیابی دیتا ہے۔ ہماری نیت اچھی ہے، فلم پر محنت بھی خوب کی گئی ہے۔ اس لئے اُمید ہے کہ عید الفطر پر فلم بینوں کو اچھا تحفہ دینے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔ ’’رانگ نمبر2 ‘‘یقینا میٹھی عید پر فلم دیکھنے والوں کی خوشیوں کو دوبالا کردے گی۔ یہ بتا دوں ، اس بار عید پر اچھی فلمیں لگیں گی اور اس بار کمپٹیشن بھی بہت زیادہ ہوگا۔ لیکن جو لوگ فلم ’’رانگ نمبر‘‘ دیکھ چکے ہیں اُنہیں بہت اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ ہماری فلم سب کو پیچھے چھوڑ جائے گی۔ ’’رانگ نمبر2‘‘ میری دوسری فلم ہے میں نے اپنے کردار پر بھر پور محنت کی ہے اور اپنے کام سے بھی بہت زیادہ لطف اندوز ہوئی ہوں۔ فلمی صنعت میں یہ فلم ایک اور بہترین اضافہ ثابت ہوگی۔ فلم میں میرے مدِ مقابل منجھے ہوئے اداکار سمیع خان ہیں،ان کے ساتھ کرکے بہت مزہ آیا۔ فلم کے ہدایتکار یاسر نواز ہیں ، سب جانتے ہیں کہ وہ اپنے کام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے، مجھے لگتا ہے کہ اچھا ڈائریکٹر وہی ہوتا ہے جو آرٹسٹ کے اندر سے کام کو باہر نکال لائے۔ یاسر نواز کی ہدایتکاری کے سب ہی معترف ہیں، کیونکہ جس مہارت سے وہ آرٹسٹ سے کام لیتے ہیں یہ بھی ایک فن ہوتا ہے۔ ان کی ڈائریکشن کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ اس فلم میںمحبت اور جذبات کے ساتھ قہقہوں کا طوفان بھی ہے، ہر سین میں شائقین کی پسند کومدنظررکھا گیا ہے، میوزک، رقص ، کہانی، لوکیشنز پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ میرے پرستار اِس فلم میں میرا ایک منفرد اور نیا روپ دیکھیں گے۔
س: فلم میں سینئر اداکاروں کے حوالے سے کیا کہیں گی ؟
نیلم منیر : جاوید شیخ، دانش نواز، یاسر نواز، احمد حسن، شفقت چیمہ ، ثنا فخر انڈسٹری کے بہت بڑے نام ہیں، اِن سے بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا ہے یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے سینئرز کے ساتھ کام کیا ہے۔ ’’رانگ نمبر2‘‘ کی کہانی کے حوالے سےفی الحال کچھ نہیں بتا سکتی ورنہ سرپرائز ختم ہو جائے گا، البتہ اتنا ضرور کہوں گی کہ کہانی یاسر نواز نے لکھی جس میں ہلکی پھلکی شرارت کے ساتھ محبت اور جذبات بھی ہیں۔ نوک جھونک، لڑائی ، مار کٹائی ، میوزک سب کچھ اس فلم میں شامل ہے۔ کہانی ایک امیر لڑکی کی ہے ،جسےاپنے باپ کے پرسنل اسسٹنٹ سے عشق ہو جاتا ہے۔ مصیبت ، الجھن اور غصے کے بہائو کو سچی محبت برداشت کرسکتی ہے یا نہیں یہی سب اس فلم میں دکھایا جائے گا۔
س:پاکستان فلم انڈسٹری کی صورت حال کے بارے میں کیا خیال ہے؟
نیلم منیر: ہماری فلمی صنعت ایک نئے دورسے گزررہی ہے لیکن اس دورکو یادگاربنانے کیلئے ضروری ہے کہ ایسی فلمیں پروڈیوس کی جائیں جوشائقین کوبھر پور تفریح فراہم کریں۔ اس وقت ضرورت شائقین کو گھروں سے نکال کر سینما گھرتک لانے کی ہے، اس کام کیلئے سب کوبہت محنت سے کام کرنا ہوگا، بلاشبہ ہمارے پاس وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں لیکن مل کران پرقابوپانے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے ۔ اگر محنت اور میعار کو یکجا کرکے کام کیا جائے تو پاکستان کی فلم انڈسڑی کو پاؤں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ انڈسٹری میں بہتری آرہی ہے ۔
س:آپ کی پہلی فلم ’’چھپن چھپائی ‘‘ہے اس سے قبل فلموں میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی ؟
نیلم منیر: کیرئیر کے آغاز میں ہی مجھے ٹی وی کے ساتھ فلموں کی آفرز آنا شروع ہوگئی تھیں، مگر میں نے جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، اس وقت سوچتی تھی ’’خدا کے لیے‘‘ اور ’’بول‘‘ جیسی معیاری فلمیں بنیں گی تو ضرور کام کروں گی۔ ا گر شروع میں شعیب منصور آفر کرتے تو ضرور کام کرتی کیونکہ میں ان کا کام اور زبردست نتیجہ دیکھ چکی ہوں۔ بہر حال گذشتہ برس جب مجھے ایک فلم ’’چھپن چھپائی‘‘ کی آفر ہوئی تو میں نے پہلے اس کا مسودہ پڑھا تو اچھا لگا۔اور میں نے کام کرنے کی حامی بھر لی وہ میری ڈیبیو فلم تھی، اس فلم میں میرے پرستاروں نے مجھےبے حد پسند کیا ۔ ’’رانگ نمبر2‘‘ میری دوسری فلم ہے۔ ویسے تو میں فلم میں آئٹم سانگ نہیں کررہی لیکن ہر پروجیکٹ میں گانوں کی عکس بندی میں سچویشن کے مطابق ہی کراتی ہوں۔ یہاں میںسوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ڈانس ویڈیو کے حوالے سےبھی بتانا چاہوں گی کہ میں بہت زیادہ دوستانہ اور ہنس مکھ ہوں شاید اسی کا غلط مطلب لے لیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو بہت پرانی ہے میری ایک دوست نے گاڑی میں بنائی تھی ،اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب میں نے سستی شہرت کیلئے کیا تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔
س: کیا بھارتی فلموں میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی ،اگر نہیں اور اب ہوئی تو کام کریں گی ؟
نیلم منیر: بالی ووڈ فلموں میں کام کرنے کا مجھے کوئی شوق نہیں لیکن کئی بھارتی فلموں کی پیشکش ہوچکی ہے اور وہ پیشکش بھارت کے نامور اور پروڈیوسرز نے دی ہیں۔ میں اِن باتوں کی تشہیر نہیں کرتی کیونکہ ہمارے ہاں ایک فیشن بن چکا ہے کہ ہر آرٹسٹ فخریہ انداز میں کہتا ہے کہ مجھے بھارتی فلموں کی پیشکش ہوئی ہے دراصل وہ اپنا امیج بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ البتہ پنجابی فلمیں مجھےبہت پسند ہیں اور اگر مجھے کسی اچھی پنجابی فلم میں کام کی آفر ہوئی تو ضرور کرو ں گی ۔
س: بچپن میں شرارتی تھیں یا سنجیدہ؟
نیلم منیر: میں بہت خاموش طبع تھی، اسکول سے گھر آتی او پھر فوراًسپارہ پڑھنے چلی جاتی اس کے بعد ٹیوشن پڑھنے جاتی اور واپس آکر سوجاتی،یہی میرے معمولات زندگی تھے۔ میری والدہ اکثر بتاتی نہیں کہ تمہارے بچپن سے جوان ہونے تک کا سفر آناً فاناً کٹ گیا، تم بالکل بھی شرارتیں نہیں کرتی تھیں۔ اس لئے بچپن کی باتیں یاد نہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ کسی کو میری موجودگی کااحساس تک نہیں ہوتا تھا۔
س:پھر شوبر کی دنیا میں کیسے آگئیں ؟
نیلم منیر : میں حبیب پبلک اسکول میں پڑھتی تھی، اسکول ، کالج اور اپنے خاندان میں واحد لڑکی تھی جو اے یا بی گریڈ لیتی تھی۔ہاں،یہ بات ضرور ہے کہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسکول کے زمانے سے ہی مجھے شوبز میں کام کرنے کا بھی شوق تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ نویں جماعت میں پہنچتے ہی ایک کمرشل کیلئے مجھے منتخب کرلیا گیا۔ پہلے ہی اشتہار میںاتنی شاندار پرفارمنس دی کہ کسی ڈر و خوف کا احساس تک نہ ہوا۔ میں نے پورے اعتماد کے ساتھ کیمرے کا سامنا کیا اور بہترین پرفارمنس دی۔ جب مجھے پہلا اشتہار ملا تو میرے ساتھ علی ظفر کو منتخب کیا گیا لیکن چند ناگزیر وجوہات کے سبب ان کی جگہ عاطف اسلم کو شامل ہونا پڑا۔ مجھے اندر ہی اندر جلن سی محسوس ہونے لگی کہ علی ظفر کی جگہ عاطف اسلم کیوں آگئے۔ میں اس وقت یہ سوچ رہی تھی کہ اگر پہلے ہی کمرشل میں علی ظفر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا تو زیادہ مزہ آتا لیکن اس وقت مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ مستقبل میں عاطف اسلم بھی سپر اسٹار بن جائیں گے۔ اس دور میں عاطف نے ایک ہی گانا ’’عادت‘‘ گایا تھا اس کے بعد وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ۔
س: کمرشل کا شوق ڈراموں کی طرف کیسے لے آیا؟
نیلم منیر: یہ حقیقت ہے کہ مجھے اداکاری کا بالکل بھی شوق نہیں تھا ،تاہم میں عمیرہ احمد کے ناول بہت شوق سے پڑھتی تھی، ایک بار مجھے عمیرہ دبئی ایئر پورٹ پرمل گئیں، باتوں ہی باتوں میں اُنہوں نے کہا تم مجھے میرے ایک ناول کے کردار میں فٹ نظر آتی ہو میں چاہتی ہوں وہ کردار تم ہی کرو۔ میں اپنی پسندیدہ مصنفہ کو انکار نہ کرسکی اور ان کے کہنے پر پہلا پروجیکٹ سائن کرلیا اور پھر تعلیم متاثر ہونے کے سبب کچھ عرصے کے لئے شوبز سے بالکل ہی غائب ہو گئی ۔
س: گھر والوں کی طرف سے شوبز میں کام کرنے کی اجازت کیسے مل گئی؟
نیلم منیر : میرے خاندان میں سے کسی ایک نے بھی میرے شوبز میں کام کرنے سے منع نہیں کیا، نہ ہی کسی نے میرے کام پر اُنگلیاں اُٹھائیں، سب بہت خوش تھے اور آج بھی ہیں۔ البتہ مجھے میری فیملی نے کچھ حدود بتا دی تھیں۔ مثلاً ڈراموں میں حاملہ خاتون یا یا ریپ کا کوئی سین نہیں کرنا ہے،بیرونِ ملک تنہا جانے اور ملک میں رات گئے شوٹنگ نہیں کروں گی۔ کئی پروجیکٹس میں گھر والے میرے کام پر تبصرے کرتے ہیں۔
س: ماضی میںعیدپر ایک شو کی میزبانی بھی کی تھی۔یہ تجربہ کیسا لگا ؟
نیلم منیر :میرے لئے خوشگوار اور منفرد تجربہ تھا ۔ اس کے بعد ایک نجی ٹی وی کی جانب سے مجھے مارننگ شو کی میزبانی کی پیشکش بھی ہوئی تھی، میں نے گھر والوں سے پوچھا تو اُنہوںنے مشورہ دیا کہ اگر تم مارننگ شو میں مصروف ہو جائو گی تو پھر اداکاری کو مستقل خیر باد کہنا پڑے گا۔ لہٰذا مارننگ شو کا فیصلہ رَد کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ انکار کی ایک اور وجہ بھی تھی کہ صبح سویرے اُٹھنا میرے لئے بہت مشکل کام ہے۔
نیلم منیر نےمزید بتایا کہ ’’ جیو ٹی وی‘‘ کے مارننگ شو کا ایک چھوٹا سیگمنٹ میری پہچان بنا۔ بظاہر وہ ایک چھوٹا سا سیگمنٹ تھا لیکن اس نے مجھے بے حد شہرت دی۔ یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ اس سات منٹ کے سیگمنٹ نے شوبز میں میرے پائوں مضبوطی سے جما دئیے۔ اسی سیگمنٹ کو دیکھتے ہوئے مجھے ڈائریکٹر بابر جاوید نے کام کی آفر کی۔ اس وقت تک میں سیکنڈ ایئر کے پیپرز دے چکی تھی، اس لئے سوچا اب کام کر لینا چاہئے۔ اس کے بعد جیو ٹی وی ہی کا ایک اور پروجیکٹ تھا ’’میری صبح کا ستارہ‘‘ میں اس میں کام کرنا چاہتی تھی لیکن شوٹنگ کی ابتدامیں ترکی میں تھی ،اس لیے انکار کردیا لیکن پھر بابر جاوید نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ یہ کردار تم ہی کرو گی ۔ ہم تمہارے واپس آنے کا انتظار کریں گے،اس طرح میں اس پروجیکٹ میں شامل ہوسکی۔ اس سیریل میں مجھے سینئر اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ میری یادگار سیریلز میں سے ایک ہے۔
س:ہر کردار کرنے کی حامی بھر لیتی ہیں یا پہلے مسودہ پڑھتی ہیں؟
نیلم منیر : کوئی بھی کردار قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھتی ہوں کہ مصنف، ڈائریکٹر اور کاسٹ میں کون ہے۔ اس کے علاوہ جو کردار میں ادا کروں گی وہ مجھ پر جچے گا یا نہیں؟۔ ویسے بھی میں منفی کردار تو بہت کرچکی ہوں لیکن تھرلر اور ایڈونچر سے بھرپور کردار کرنے کا شوق ہے۔ میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے ڈراموں کو ترجیح دوں جہاں مجھے کچھ الگ کام کرنے کا موقع ملے ۔مجھے بہت خوشی ہے کہ پروڈیوسراور ڈائریکٹر میری صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے چیلنجنگ کردارکیلئے میرا انتخاب کرتے ہیں لیکن اتنا کام کرنے کے باوجود آج بھی خود کو طالب علم ہی سمجھتی ہوں، کیونکہ زندگی کی آخری سانس تک کچھ نہ کچھ سیکھنے عمل جاری رہتا ہے اور میرا سفر مسلسل جاری ہے اور جاری رہے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ماڈلنگ سے شہرت ملی ۔ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں کام کرنے سے شناخت ملی ۔اور ٹی وی فن کاروں ہی نے بحران زدہ فلم انڈسٹری کو نئی زندگی دی ۔
س: کس فن کار کے کام سے متاثر ہیں ؟
نیلم منیر: میں ثانیہ سعید کی فین ہوں، انہیں اداکاری کے دوران خوبصورت نظر آنے کی فکر نہیں ہوتی ۔ مردوں میں فیصل قریشی، ہمایوں سعید،عدنان صدیقی کا کام پسند ہے اور ہمایوں سعیدکے ساتھ بھر پور کام کرنے کی خواہش ہے۔ روز مرہ کے معمولات پر روشنی ڈالتے ہوئے نیلم منیر نے بتایا کہ موقع ملتا ہے تو کچھ نہ کچھ پڑھ لیتی ہوں، نماز و قرآن آج بھی روز پڑھتی ہوں،وقت پر سونا اور وقت پر اٹھنا، میرا معمول ہے، اس لئے میرا چہرہ تروتازہ رہتا ہے۔ رات دیر تک گھر سے باہر رہنا گھر والوں کو پسند نہیں، اس لئے رات دس بجے پیک اپ کر دیتی ہوں۔ فارغ اوقات میں باغبانی کرنے کا شوق ہے، لونگ ڈرائیو اچھی لگتی ہے۔ چھوٹی سی بات پر بے تحاشا غصہ آجاتا ہے، صبح اٹھ جائوں اور موڈ خراب ہو تو پورا دن ہی برا گزرتا ہے، مجھے غصہ جلدی اور بہت زیادہ آتا ہے لیکن اتر بھی جلدی جاتا ہے۔ لیکن غصہ کرتی ہوں بدتمیزی نہیں ۔ میری شاپنگ والدہ کرتی ہیں،مغربی ملبوسات کے مقابلے میں مشرقی لباس زیادہ پسند ہیں۔ میرا کل بہت سادہ تھا، آج زندگی گلیمر سے بھرپور ہے، خودمختار ہوں، اپنا خرچہ خود اٹھانا اچھا لگتا ہے۔ سیاست سےدل چسپی نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے ملنا چاہتی تھی، افسو س یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی۔
س: اپنے پرستاروں کے لیے کوئی پیغام؟
نیلم منیر: زندگی میں کبھی بھی کامیابی کیلئے شارٹ کٹ کا استعمال نہ کریں، خوب محنت کریں، خود اعتمادی اور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھیں، جن لوگوں کو اپنی محنت قوتِ بازو پر یقین ہوتا ہے وہی کامیابی حاصل کرتے ہیں، جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ محنت ضرور رنگ لاتی ہے اور جو شخص محنت کرتا ہے پھر اسے کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
میری کام یابیوں کی سیڑھی ’’والدہ ‘‘ ہیں
نیلم منیر دبئی میں پیدا ہوئیں اور 8برس کی عمر میں پاکستان آگئیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ، ہم تین بہنیں ہیں، بھائی نہیں ہے۔ میں سب سے چھوٹی ہوں۔ ہم سب میں اس قدر پیار ہے کہ کبھی بھائی کی کمی محسوس نہیں ہوئی البتہ آج کا خطرناک دور دیکھتی ہوں تو کبھی کبھی بھائی کی کمی کا احساس ہو تا ہے۔ ایک بہن شادی شدہ ہے ، میری کامیابیوں کی سیڑھی اور زندگی کی سب سے پیاری ہستی میری والدہ ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ حیات ہیں۔ میں ہر دِن اُن سے دُعائیں لیتی ہوں ۔والد کا انتقال ہوچکا ہے۔