• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسما نعیم

شہرِ کراچی کاشمار بڑے گہما گہمی والے شہروں میں ہوتا ہے۔کسی زمانے میں چھوٹی آبادی پر مشتمل یہ شہر آج ایک بہت بڑی آبا دی میں تبدیل ہو چکا ہے،جہا ں اس کے شہر ی گھٹن زدہ ما حول میں رہنے پر مجبور ہیں۔ماہرین اس شہر کو آیندہ چند برسوں میں دنیا کے پہلے پا نچ بڑے شہروں کی فہرست میں دیکھ رہے ہیں۔80ء کی دَہائی میں یہاں کی جو آبادی 55سے 60لاکھ نفوس پر مشتمل تھی،اب تقریباً ڈھا ئی کروڑ ہو چکی ہے،مگر افسوس کہ یہا ںکے اکثرشہری صاف پانی، بجلی اور دیگربنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم نظر آتے ہیں۔ ایک محتا ط انداز ے کے مطابق شہرِ قائد میںایک کروڑ سے زایدافراد کچّی آبا دیوں میں رہتے ہیں اور اس تعدادمیں دن بہ دن اضا فہ ہو تا چلا جا رہا ہے۔اس شہرکے دیگر کئی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کابھی ہے۔ اسی لیےایسی غیر رسمی تجارتی سرگرمیوںکا خاتمہ ،جو شہر کے ما حول کے لیے نقصان دہ ہوں، ضروری ہے۔نیز، جو اراضی شہر کے اہم بنیادی ڈھانچے کے لیے مخصوص ہو، وہا ں سے بھی غیر قانونی تعمیرات ختم ہونی چاہئیں ، کیوں کہ ان تجاوزات اور بے ہنگم تعمیرا تی کاموں سے عا م شہر ی بُری طرح سے متا ثر ہورہے ہیں ۔ لیاری اور ملیر ندی کے کناروں، لانڈھی اور بن قاسم کے علاقوں سمیت بے تحا شا ایسے مقاما ت ہیں، جہاں غیر قانونی تعمیرات اورکچّی بستیاںقایم ہیں۔اگر گندے پانی کے نالوں اور برساتی نالوں پر اسی طرح تجاوزات و تعمیرات ہو تی رہیں، توشہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ چند ما ہرین کے مطابق 12سے14فی صدرہا ئشی زمین پرتقریباً 60فی صد افراد ، جب کہ 400سے 2000گز کے پلاٹس پر 36فی صد افراد قابض ہیں ۔ اپنی زمین پر اپنا مسکن ، تو سب ہی کی خواہش ہو تی ہے،مگر پچھلی کئی دَہا ئیوں سے تیزی سے بڑھتے اس شہر میں اب زمین ہی نہیں بچی۔اس ضمن میں ماہرِشہری منصوبہ بندی ،عارف حسن کا کہنا ہے کہ ’’ 80گز کے پلاٹس پر جو کچّی آبادیاں تھیں، وہاں اب 8،10اور 12 منزلوں تک عما ر تیں تعمیر ہوچکی ہیں ۔اس کی دو وجوہ ہیں ،ایک تو یہ کہ زیادہ ترلوگ کرائے پر رہنےکے لیے ان بلند رہا ئشی عما رتوں میں بس رہے ہیں ، دوسرایہ کہ ایک ڈویلیپر4یا 8 لاکھ روپے اور دو فلیٹس دینے کے عوض پلاٹ / جگہ خرید لیتا ہے، پھر اُس جگہ عمارت تعمیر کرواکرکرائے یا پگڑی پر دے دیتا ہے۔اسی شہر میں 5800اسکوائر فیٹ کا فلیٹ بھی ہےاور 300سے 400اسکوائر فیٹ کے چھوٹے فلیٹس بھی مو جود ہیں۔ ‘‘

دنیا کے دیگر بڑے شہروں کے مقابلے میں شہرِکراچی ایک برسا تی جنگل کی مانند بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے،جہاں زیا دہ تر رہائشی عمارتیں بغیر کسی منصوبہ بندی کے تعمیر ہورہی ہیں۔ بعض رہائشی جگہوں کا تو یہ حال ہے کہ وہاں اگر دن کے وقت بھی بجلی چلی جائے، تو گھر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے، جب کہ ہو ا کا گزربھی ممکن نہیں۔کچّی آبادیوں یا چھوٹی جگہوں پر کثیر المنزلہ عمارتوں میں رہائش قطعی آسان نہیں، کیوں کہ وہاں دیوار سے دیوار اور بالکونی سے دوسرے گھر کی بالکونی اس طرح ملی ہو تی ہیں، جیسے ایک ہی گھر ہو۔ اِن تنگ علاقوں اور گلیوں میں ایمرجینسی وغیرہ کی صُورت میںایمبولینسزتک پہنچنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔اس حوالے سے ایک ایمبولینس ڈرائیور کا کہنا ہے ’’تنگ گلیوں میںریسکیوکرنا یا میّت پہنچانا بھی بہت مشکل ہو تا ہے۔‘‘ سابق میونسپل کمشنر، کراچی، مسعود عالم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ’’ اپنے مفا دات کے پیشِ نظر اس شہر میں پلاٹس پر قبضے کر کے تعمیرات پر تعمیرا ت کی جاتی ہیں ۔ یہ خیا ل تک نہ کیا گیا کہ یہاں کوئی ایمرجینسی پیش آسکتی ہے ، کوئی بڑا حادثہ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘اب یہ خطرہ دوسرے مر حلے میں داخل ہو چکا ہے ، کیوں کہ غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے وقت بجلی کے پولز اور ٹرانسفارمر ز وغیرہ کو نظر انداز کرکے، بلکہ پکڑے جانے کی صُورت میں سزا اور شرمندگی کے خوف سے بے نیاز ہو کراُن ہی پولزمیں کُنڈا ڈال کر بجلی حاصل کرلی جاتی ہے۔جب کہ برسات ، آندھی یا طوفان کے نتیجے میں یہی کُنڈےوغیرہ اموات کا سبب بھی بنتے ہیں، مگر کو ئی ان حادثات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا ۔ کچھ عرصہ قبل فیڈرل بی ایریا کے علاقے ،موسیٰ کالونی میں بجلی کے ٹرانسفامر کے بالکل ہی ساتھ واقع ایک زیرِ تعمیر غیر قانونی عما رت میں دس سالہ بچّہ ، دوسری منزل پر سریا لے کر جا رہا تھاکہ سریے کا دوسرا سِرابجلی کے تاروں سے ٹکراگیا ، جس کے سبب بچّہ کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ واقعے کے بعد عما رت کے مالک کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جا نب سے تعمیراتی کام رکوادیا گیا۔اس ضمن میںایس بی سی اے کا کہنا ہے کہ’’ بجلی کے انفرا اسٹرکچر کے قریب غیرقانونی تعمیرات خاصےجانی اور مالی نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس حوالے سے فوری کارروائی ناگزیر ہے۔ ‘‘جب کہ کے -الیکٹرک کاموقف ہے کہ ’’اگر چہ ہزاروں کی تعداد میں پی ایم ٹیزکو ایریل بنڈل کیبل سسٹم پر منتقل کردیاگیا ہے، لیکن اب بھی کافی کام باقی ہے، کیوں کہ اتنی بڑی تعداد میںپی ایم ٹیز کوایسے محفوظ سسٹم پر منتقل کرنا آسا ن نہیں، جس میں کُنڈا لگ سکے اور نہ بجلی چوری ہو۔‘‘ اگرکچّی آبادیوں اوردشوار گزارعلا قوں میں پی ایم ٹیز کو ایریل بنڈل سسٹم پر منتقل کرنے کے کام کا اندازہ لگایا جائے، تو محکمے کو لاحق چیلنجز کابہ خوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے، جب کہ آبادی اور توانائی کی طلب میں اضافہ بھی ہر گز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ لہٰذا اگر شہرِ قائد سےفی الفور تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات ختم کرکے کوئی ماسٹر پلان ترتیب نہ دیا گیا، تو مستقبل میں اس کے اور بھی خطرناک نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین