• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کو اس وقت کئی اقسام کی ’’انارکی‘‘ کا سامنا ہے، مثال کے طور پر سندھ جہاں آئینی انارکی کا سامنا کررہا ہے وہیں قانونی، معاشی اور انتظامی انارکی بھی سندھ کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ میرے آج کے کالم کا موضوع یہی ہے مگر اسی دوران ملک میں اور خاص طور پر سندھ کے حوالے سے دو اہم ’’ڈویلپمنٹ‘‘ ہوئی ہیں اور یہ ’’ڈویلپمنٹ‘‘ اتنی اہم ہیں کہ سب سے پہلے ان عوامل کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے ایک پیشرفت تو مثبت کہی جا سکتی ہے جبکہ دوسری پیشرفت ہر لحاظ سے منفی نوعیت کی ہے۔ مثبت پیشرفت یہ ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کراچی کے حالیہ دورے میں یہ مثبت اعلان کیا کہ ’’ہم سندھ کے دو صوبے‘‘ بنانے کے خلاف ہیں، حالانکہ یہ اعلان ان کے نامزد کردہ سندھ کے گورنر بھی کرچکے ہیں، بہرحال اس اعلان پر سندھ کے عوام نے کسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا ہے مگر اس کے باوجود سندھ کے اکثر حلقے اب بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان صاحب کا ’’یوٹرن‘‘ عارضی ہو اور جلد ہی شاید انہیں پھر ’’یوٹرن‘‘ نہ لینا پڑے۔ بہرحال سندھ کے اکثر حلقے اس پیشرفت کو مثبت قرار دے رہے ہیں تاہم وہ وزیراعظم عمران خان کے اس رویے کو درست قرار نہیں دے رہے ہیں جس کے مطابق وہ نہ سندھ کے دورے کے وقت وزیراعلیٰ سندھ کو اس دورے میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں اور نہ کراچی کے بارے میں ان کے زیر صدارت اجلاسوں میں وزیراعلیٰ سندھ کو مدعو کیا جاتا ہے۔ میں نے کالم کی ابتدا میں موجودہ حکمران طبقوں کی طرف سے کی گئی ایک منفی پیشرفت کا بھی ذکر کیا تھا، اس پیشرفت کے مطابق ایک دن پہلے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جہاں ملکی معیشت کے حوالے سے کچھ مثبت اعلانات کئے وہیں ایک انتہائی منفی قسم کا اعلان بھی کیا، جسے ملک کے غیر جانبدار ماہرین اور محب وطن طبقے مشکل سے قبول کریں گے۔ اس اعلان کے مطابق عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا ہے وہ آئی ایم ایف کے بورڈ کی منظوری سے پہلے عام نہیں کر سکتے۔ کیا پاکستان آئی ایم ایف کی ’’کالونی‘‘ بن چکا ہے کہ پاکستان سے جن افراد نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کئے وہ خود آئی ایم ایف نے نامزد کئے اور اب کہا جارہا ہے کہ یہ معاہدہ اس وقت ظاہر کیا جائے گا جب آئی ایم ایف کا بورڈ اس کی منظوری دے گا۔ ہونا تو چاہئے تھا کہ پاکستان کی طرف سے اس معاہدے کو قبول کرنے سے پہلے ملک کی قومی اسمبلی میں یہ پیش کیا جاتا اور ملک کے متعلقہ اداروں سے اس کی منظوری لی جاتی اگر حکومت یہ معاہدہ قومی اسمبلی کے کھلے اجلاس میں پیش کرنے سے گھبرا رہی تھی یا اسے آئی ایم ایف کی طرف سے ایسا کرنے سے روکا گیا تھا تو یہ معاہدہ اسمبلی کے بند اجلاس میں پیش کیا جاسکتا تھا۔ یہ سب نہ کرنے کا مطلب ہے کہ یہ معاہدہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو Dictateکیا گیا ہے اور ہماری حکومت نے ایک ’’کالونی‘‘ ملک کی حکومت کی طرح من و عن یہ سب کچھ منظور کرلیا۔ مجھے ان دونوں ڈویلپمنٹس پر کافی کچھ لکھنا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جس ڈویلپمنٹ کا ذکر ہے اس کے مطابق سروسز ٹیکس پر وفاق اور سندھ میں تنازع پیدا ہوگیا ہے اور سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو اس ٹیکس کی وصولی سے روک دیا ہے۔ اس سلسلے میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پی اے سی وفاق کے ماتحت ہے، آئین صوبوں کو وفاقی آمدنی پر سروسز ٹیکس وصولی کی اجازت نہیں دیتا، وفاق کے وکیل کے موقف کے مطابق وفاقی اداروں کی آمدنی اور جائیداد پر صوبے سروسز ٹیکس وصول نہیں کرسکتے حالانکہ حکومت سندھ اور سندھ کے سینئر قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کی ایک شق کے مطابق صوبے سروسز ٹیکس وصول کر سکتے ہیں۔ یہ ترمیم آئین کا حصہ بننے کے بعد حکومت سندھ نے سروسز پر ٹیکس وصول کرنے کے لئے ’’سندھ ریونیو بورڈز‘‘ کے نام سے ایک نیا ادارہ بنایا، جو اسی وقت سے سروسز پر ٹیکس وصول کررہا ہے۔ اس بات سے وفاقی حکومت بھی انکار نہیں کر سکتی کہ اس نئے ادارے نے ایک سال کے اندر صوبے سے جتنا سروسز ٹیکس وصول کیا اتنا وفاقی حکومت اس سے پہلے کبھی بھی سندھ سے وصول نہ کر سکی۔ شاید وفاقی حکومت کے متعلقہ افسران کو یہ خوف تھا کہ یہ دیکھ کر اور ٹیکسز بھی صوبوں کے حوالے کرنے کی تحریک شروع نہ ہوجائے، بہرحال سندھ حکومت پہلے ہی سے اس موقف کی قائل رہی ہے کہ آئین کے تحت اشیاء پر ٹیکس وصولی بھی وفاقی حکومت سے لیکر صوبوں کے حوالے کی جائے، جسے وفاقی حکومت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ بہرحال سندھ کے سیاسی حلقے اور قانونی ماہرین نے موقف اختیار کیا ہے کہ یکطرف طور پر سروسز ٹیکس کی وصولی صوبوں سے واپس لیکر مرکز کے حوالے کرنا آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے لہٰذا اس ڈویلپمنٹ کو سندھ اور باقی صوبوں کے خلاف ایک آئینی انارکی قرار دیا جارہا ہے۔ سندھ اس بات پر بھی احتجاج کر رہا ہے کہ وفاقی حکومت نے سندھ کے زیر انتظام اسپتالوں اور ایک اور ادارے کو یکطرفہ طور پر اپنی تحویل میں لے لیا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی وفاقی حکومت نے مبینہ طور پر مالی خسارے کی وجہ سے کراچی کے ان تین اسپتالوں کے بجٹ کا انتظام سنبھالنے سے مجبوری ظاہر کی ہے۔ اس کے باوجود سندھ کے قانونی ماہرین اور سیاسی حلقے وفاقی حکومت کی طرف سے ان تین اسپتالوں کا انتظام سنبھالنے والے مرحلے کو مرکز کی طرف سے ایک آئین کی خلاف ورزی اور صوبائی خود مختاری پر ہاتھ صاف کرنے کا جرم قرار دیا ہے۔ لہٰذا سندھ کے سیاسی حلقے اس فیصلے کو ایک اور آئینی انارکی قرار دے رہے ہیں۔ اسی دوران سندھ کے لئے ایک اور اطلاع آئی ہے جس کے مطابق پنجاب نے سندھ کے حصے سے 12ہزار کیوسک پانی اٹھایا ہے، اس اطلاع کے مطابق 16اور 17مئی کو ترمو اور پنجند میں سے سندھ کے لئے مختص 12ہزار کیوسک پانی پنجاب نے اٹھاکر استعمال کرلیا، یہ چوری اس وقت کی ہے جب سندھ میں جیکب آباد سے لیکر بدین تک کینالز میں پانی کی کمی کی وجہ سے ساری فصلیں شدید متاثر ہورہی ہیں اور ان علاقوں کے آبادگار اور عوام مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ سندھ کے قانونی ماہرین کے مطابق مرکز اور پنجاب کی یہ کارروائی 91کے پانی کے معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے لہٰذا اس کارروائی کو سندھ کے خلاف ’’قانونی انارکی‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔

تازہ ترین