میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:طلعت عمران
عکّاسی:اسرائیل انصاری
ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ معاہدے میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط بھی شامل کی گئی ہیں اور اگر ہم ان شرائط کو تسلیم نہیں کریں گے، تو آئی ایم ایف پروگرام کھٹائی میں پڑ جائے گا،
یہ اقدام ہم پر دبائو بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے اور اس کا تعلق معیشت سے نہیں، بلکہ سیاست سے ہے،امید کرتا ہوں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے بین الاقوامی طور پر ہماری ساکھ بہتر ہو گی، تاہم مجھے یہ بھی نہیں لگتا کہ اہم آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کر لیں گے ،ترقیاتی اخراجات ختم کرنے کے بعد 7.5فیصد بجٹ خسارہ بہت زیادہ ہے،اگر موجودہ حکومت 5300ارب روپے کے ٹیکسز جمع کر لیتی ہے، تو یہ بہت اچھی بات ہو گی، لیکن موجودہ شرحِ نمو اور افراطِ زر کی شرح کے ساتھ ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا، اس قدر شرحِ سود بڑھانے سے ہماری معیشت بیٹھ جائے گی، اب روپے پر مزید دبائو نہیں بڑھے گا اور ہم آرام سے ادائیگیاں کر سکیں گے
مفتاح اسمٰعیل
اگر حکومت 6ماہ پہلے آئی ایم ایف پروگرام میں چلی جاتی، تو زیادہ بہتر ہوتا،پروگرام کی وجہ سے ہمیں سختیوں کا سامنا کرنا پڑے گا،
شرحِ سود میں مزید دو فیصد اضافے سے نئی صنعتیں لگنے کے امکانات کافی کم ہو جائیں گے، آنے والوں برسوں میں بھی ایکسچینج ریٹ مینج ہو گا،ایف بی آر کے لیے اضافی 700سے800ارب روپے جمع کرنا خاصا مشکل ہو گا،اس وقت کم آمدنی والے افراد کی زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے، شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے صنعتوں کے لیے مشکلات کھڑی ہوں گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہوں گے،جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا، معیشت بھی ڈگر پر نہیں آئے گی
زبیر طفیل
زر ِمبادلہ کے ذخائر اور ادائیگیوں کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا، اس کے نتیجے میں ہمارے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ بھی کھل جائے گی، معیشت منضبط ہو گی،
آمدنی اور اخراجات میں فرق مینج ایبل ہو جائے گا، ہم نے جب بھی آئی ایم ایف پروگرام سے نکل کر ہیرو بننے کی کوشش کی، تو مار کھائی، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے سے پیداواری لاگت بڑھے گی،جی آئی ڈی سی کو ختم کر دینا چاہیے،افراطِ زر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شرحِ سود طے کرنا چاہیے،اب ڈالر مینج فلوٹ ہوگا، ایف بی آر 600سے700ارب کے اضافی ٹیکسز جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
عارف حبیب
اگر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا حکومت کی مجبوری تھی، تو یہ معاہدہ 6ماہ پہلے کر لیا جاتا،حکومت ایک طرف 6ارب ڈالرزملنے کی بات کر رہی ہے
اور دوسری جانب 700ارب روپے کا بوجھ ڈال رہی ہے،آئی ایم ایف پیکیج سے معیشت کو کوئی سہارا نہیں ملے گا،حکومت کو مفتاح اسمٰعیل کی خدمات سے بھی استفادہ کرنا چاہیے،ایمنسٹی اسکیم کے نتیجے میں کم وقت میں پیسہ جمع کرنا مشکل ہو گا، حکومت کو چاہیے کہ وہ نئی منڈیاں تلاش کرے، تاکہ ہماری برآمدات کو فروغ ملے
دارو خان اچکزئی
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے ملک کے معروف ماہر معیشت، ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں 80لاکھ افراد خط ِغربت سے نیچے چلے جائیں گے اور 12لاکھ افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ نیز، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آئی ایم ایف پیکیج کے آتے ہی اسٹاک ایکسچینج کریش کر گئی ہو اور ایسا لگتا ہے کہ تاجر برادری اس سے خوش نہیں۔ اس کے علاوہ معاہدے میں کچھ سیاسی عوامل بھی دکھائی دیتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی خود مختاری متاثر ہوئی ہے، کیونکہ ایف اے ٹی ایف، سی پیک، چینی قرضوں اور این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے ہم پر دبائو ہے۔ پھر اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کو 39مہینوں میں 6ارب ڈالرز ملیں گے، یعنی ایک سال میں 2ارب ڈالرز، تو پھر حکومت کو اپنے وسائل سے خسارہ پورے کرنے کے بہ جائے آئی ایم ایف کی تمام سخت شرائط قبول کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ نیز، ڈالر کا آزاد ہونا بھی خطرناک ہے، کیونکہ ڈالر کی قدر مزید بڑھنے سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے علاوہ شرحِ سود میں اضافے سے مہنگائی بڑھے گی اور اس صورت حال کی وجہ سے ہمارے دفاعی بجٹ پر بھی دبائو پڑے گا۔ گزشتہ دنوں ’’آئی ایم ایف پیکیج، معیشت پر اثرات‘‘ کے عنوان سے فیڈریشن ہائوس میں جنگ فورم منعقد کیا گیا، جس سمیں سابق وزیرِ خزانہ، مفتاح اسمٰعیل، ایف پی سی سی آئی کے صدر، دارو خان اچکزئی، ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر، زبیر طفیل اور عارف حبیب گروپ کے چیئرمین، عارف حبیب نے اظہارِ خیال کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ :آئی ایم ایف سے معاہدہ عوام اور معیشت کے لیے کس قدر ضروری تھا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
عارف حبیب :ہمارے زر ِمبادلہ کے ذخائر اور ادائیگیوں کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا۔ اس معاہدے کا صرف یہ فائدہ نہیں کہ آئی ایم ایف ہمیں پیسہ دے رہا ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں ہمارے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ کھل جائے گی۔ یعنی آئی ایم ایف سے معاہدے کی وجہ سے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی ہمیں سپورٹ کریں گے اور ہمیں بین الاقوامی منڈی تک بھی رسائی حاصل ہو جائے گی، کیونکہ انٹرنیشنل مارکیٹ یہ سمجھتی ہے کہ اگر آپ آئی ایم ایف میں ہیں، تو آپ کی معیشت منضبط ہو گی۔اسی طرح آمدنی اور اخراجات میں فرق بھی مینج ایبل ہو جائے گا۔ ان تمام عوامل کے پیشِ نظر ہی تمام اسٹیک ہولڈرز یہ کہہ رہے تھے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ آئی ایم ایف پروگرام اسی وقت لیا جاتا ہے کہ جب کسی ملک کی معاشی صورتِ حال شدید ابتر ہو۔ میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ ہم نے جب بھی آئی ایم ایف پروگرام سے نکل کر ہیرو بننے کی کوشش کی، تو ہم نے مار کھائی ۔ ہمیں ایک پروگرام ختم ہونے پر دوسرا پروگرام لے لینا چاہیے، کیونکہ آئی ایم ایف آمدنی اور اخراجات میں توازن کی شرط عاید کرتا ہے۔
جنگ :لیکن اس پروگرام سے تو ہماری معیشت مزید بگڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے؟
عارف حبیب :آئی ایم ایف کسی ملک کو اس لیے قرضہ دیتا ہے کہ وہ نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچ جائے، بلکہ قرضہ ادا کرنے کے بھی قابل ہو۔ چونکہ آئی ایم ایف پروگرام میں مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، اس لیے منتخب حکومتوں کو مشکل پیش آتی ہے، کیونکہ ان کے نتیجے میں عوام پر بوجھ پڑتا ہے اور وہ چیختے ہیں۔
جنگ :یہ آئی ایم ایف کا تیرہواں پروگرام ہے، لیکن اب تک ہماری معیشت منظم نہیں ہوئی اور مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے؟
عارف حبیب: دراصل، آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہتے ہوئے ہماری معیشت منظم ہوتی ہے، لیکن جونہی پروگرام ختم ہوتا ہے، تو ہم اصولوں سے انحراف شروع کر دیتے ہیں۔ نیز، جب عام انتخابات قریب آتے ہیں، تو پھر حکومتیں رعایتیں دینا شروع کر دیتی ہیں۔
جنگ :آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
عارف حبیب: آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنا ہوں گے اور آمدنی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ تاہم، عوام اور صنعت کار سب سے زیادہ جس چیز پر شور مچائیں گے، وہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اس کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا۔ میرے خیال میں جی آئی ڈی سی کو ختم کر دینا چاہیے اور ضرورت کے مطابق گیس کی قیمت میں اضافہ کرناچاہیے۔ پہلے سے ہی یہ کہا جا رہا تھا کہ مانیٹری پالیسی میں شرحِ سود میں دو فیصد اضافہ کیا جائے گا، حکومت کو ایسے تبصرے نہیں کرنے چاہئیں اور افراطِ زر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شرحِ سود طے کرنا چاہیے۔ موجودہ شرحِ سود افراطِ زر کے اعتبار سے مناسب ہے اور اس کے بڑھانے سے مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس کی وجہ سے قوتِ خرید متاثر ہو گی۔ اسی طرح صنعتوں کی پیداواری لاگت بھی بڑھے گی اور جب پیداواری لاگت بڑھے گی، تو اس سے مصنوعات مزید مہنگی ہوں گی۔ میرا ماننا ہے کہ سینٹرل بینک کو میرٹ پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ اگر ڈالر کی بات کی جائے، تو یہ فری فلوٹ نہیں ہو گا، بلکہ منیج فلوٹ ہو گا۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور اسٹیٹ بینک اسے مینج کرے گا۔ اگر ہم گزشتہ 20سال کا جائزہ لیں، تو پتہ چلتا ہے کہ ہر سال ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 4.80فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس عرصے میں کبھی روپے کی قدر میں کمی کو روکا گیا اور کبھی اس میں تیزی سے کمی کی گئی۔ جب بھی کاروباری ادارے اپنا کوئی تخمینہ لگاتے ہیں، تو وہ روپے کی قدر میں کمی کے اس تناسب کو سامنے رکھتے ہیں۔
جنگ :کیا مستقبل قریب میں ملک میں نئی صنعت کاری اور سرمایہ داری کو فروغ ملے گا؟
عارف حبیب :اگر مختصر المدتی اعتبار سے دیکھا جائے، تو دبائو بڑھے گا، لیکن میکرو اکانومی کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے اور اس کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔ اگر ایک مرتبہ میکرو اکانومی میں استحکام آ جائے، تو پھر شرحِ نمو پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
جنگ :آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت ہمیں 39ماہ میں 6ارب ڈالرز ملیں گے، تو ہمیں آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرتے ہوئے یہ معاہدہ کرنے کی کیا ضرورت تھی اور پھر ہمارے اوپر سیاسی دبائو میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس میں ایف اے ٹی ایف، این ایف سی ایوارڈ اور بجٹ خسارہ وغیرہ شامل ہیں، تو کیا ہم آئی ایم ایف کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دے رہے اور پھر اس سے چند روز قبل حکومت نے اپنی معاشی ٹیم بھی تبدیل کی، تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
مفتاح اسمٰعیل :میں عارف بھائی کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ آئی ایم ایف کے پاس 6ارب ڈالرز کے لیے جانا اتنا ضروری نہیں ، جتنا کہ ساکھ کے لیے ضروری ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ کھلی ہے، کیونکہ پہلے ہمیں کوئی بھی عالمی مالیاتی ادارہ قرض فراہم نہیں کر رہا تھا۔ البتہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ معاہدے میں ایف اے ٹی ایف کی شرائط بھی شامل کی گئی ہیں اور اگر ہم ان شرائط کو تسلیم نہیں کریں گے، تو آئی ایم ایف پروگرام کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ یہ اقدام ہم پر دبائو بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے اور اس کا تعلق ہماری معیشت سے نہیں، بلکہ عالمی سیاست سے ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے بین الاقوامی طور پر ہماری ساکھ بہتر ہو گی، گرچہ حکومت نے اس میں تاخیر کی۔ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی، تو شرحِ نمو 5.8فیصد تھی، جو اس حکومت میں 3فیصد ہو گئی۔ اسی طرح ہمارے دور میں افراطِ زرکی شرح 4فیصد تھی، جو اب 8.5فیصد ہو گئی ہے۔ سعودی عرب، یو اے ای اور چین کے قرضوں کے باوجود بھی معیشت سنبھل نہیں پا رہی تھی، جس کی وجہ سے اس حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف نے ایک اور شرط بھی عاید کی ہے کہ چین سے قرضوںکے سرٹیفکیٹس لے کر کر آئیں۔ رواں برس 2000ارب سے 2100ارب روپے قرضوں کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔ پچھلے برس یہ 1400ارب روپے تھے، لیکن اس مرتبہ شرحِ سود دگنا ہو گیا ہے۔ بجٹ خسارہ 2900ارب تک پہنچ جائے گا، جو پچھلے مالی سال میں 2200ارب روپے تھا۔ جی ڈی پی کے تناسب سے بجٹ خسارہ 7.5فیصد ہو جائے گا، جو ہمارے دور میں 6.6فیصد تھا۔ ترقیاتی اخراجات ختم کرنے کے بعد 7.5فیصد بجٹ خسارہ بہت زیادہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے تمام ادوار میں کبھی بھی اتنا بجٹ خسارہ نہیں رہا۔ اس اعتبار سے پرائمری ڈیفیسٹ2فیصد سے زیادہ ہو گا اور اگر اسے 6فیصد پر لے کر آ رہے ہیں، تو پھر پیٹ کاٹنا پڑے گا اور پھر ویسے بھی آئی ایم ایف پروگرام میں تکلیف تو برداشت کرنا پڑتی ہے۔ تاہم، مجھے عبدالحفیظ شیخ اور شبر زیدی کی اس بات پر خوشی ہے کہ وہ ان افراد پر ٹیکس عاید کریں گے، جو ابھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ یعنی وہ غریب افراد پر بوجھ نہیں ڈالیں گے اور ان کو دی جانے والی سبسڈیز ختم نہیں کریں گے۔ اگر موجودہ حکومت 5300ارب روپے کے ٹیکس جمع کر لیتی ہے، تو یہ بہت اچھی بات ہو گی، لیکن موجودہ شرحِ نمو اور افراطِ زر کی شرح کے ساتھ ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ نیز، مجھے یہ بھی نہیں لگتا کہ اہم آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کر لیں گے۔ یاد رہے کہ ہماری حکومت میں اسحٰق ڈار کی جو اہمیت تھی، وہ موجودہ حکومت میں عبدالحفیظ شیخ کی نہیں ہے۔ پھر یہ اطلاعات بھی ہیں کہ فنانس کمیٹی کا چیئرمین بننے کے بعد اسد عمر مالی معاملات پر غیر مطمئن ہیں۔ پھر حکومت جو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لے کر آئی ہے، وہ ہماری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی تقریباً نقل ہی ہے۔ ہماری ایمنسٹی اسکیم سے ایک ارب 20کروڑ روپے ملے، جبکہ اس سے قبل کبھی کوئی ایمنسٹی اسکیم اس قدر کامیاب نہیں ہوئی۔ اب جہاں تک شرحِ سود میں اضافے کی بات ہے، تو اس قدر شرحِ سود بڑھانے سے ہماری معیشت بیٹھ جائے گی۔ حکومت کو افراطِ زر پر قابو پانے کے ساتھ ہی شرحِ سود بھی فوراً نیچے لانا ہو گی۔ اگر حکومت شرحِ سود میں کمی کرتی ہے، تو اسے 150ارب روپے کی بچت ہو گی اور بجٹ خسارہ بھی خود بخود کم ہو جائے گا۔
جنگ :بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھنے سے ملک میں غربت مزید بڑھے گی اور حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ملک کو اکانومسٹ کی نہیں بلکہ پولیٹیکل اکانومسٹ کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
مفتاح اسمٰعیل :جہاں تک بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کی بات ہے، تو اگر کسی تھالی میں چھید ہے، تو اس میں آپ جتنی تیزی سے پانی ڈالیں گے، وہ اتنی ہی تیزی سے باہر نکلے گا۔ بجلی کی قیمت جتنی بڑھائی جاتی ہے، ڈیسکوز کے سربراہان کلیکشن اتنی ہی کم کر دیتے ہیں۔ 2016ء اور 2017ء میں انہوں نے 635ارب روپے جمع کیے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بجلی کی قیمت بڑھانے کے باوجود بھی گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں، کیونکہ قیمتیں بڑھانے سے بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں آرام سے بیٹھ جاتی ہیں، جبکہ گیس کی قیمت بڑھا کر حکومت نے غلطی کی ہے، کیونکہ اس وقت دونوں کمپنیاں منافع کما رہی ہیں۔ایس ایس جی سی نے 13.5ارب اور ایس این جی ایل نے 13ارب روپے کمائے، جبکہ حکومت نے پہلے کہا کہ 157ارب روپے کا نقصان ہو گیا اور پھر کہا کہ 157ارب روپے کا ادھار چڑھ گیا ہے۔
جنگ:آئی ایم ایف معاہدے کی تین خوبیاں اور تین خامیاں بتائیں۔
مفتاح اسمٰعیل :میں اس کے ہر پہلو پر تنقید کر سکتا ہوں، لیکن یہ بات درست ہے کہ معاہدے کے نتیجے میں ڈالر مینج فلوٹ ہو گا، لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ہاتھ باندھ دیے گئے کہ سال میں ایک ارب ڈالرز سے زاید خرچ نہیں کر سکتا۔
جنگ:آئی ایم ایف پیکیج کے ہماری معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
زبیر طفیل :ہماری معیشت میں پائی جانے والی کمزوریوں پر قابو پانے اور مزید بگاڑ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ضروری تھا۔ اگر حکومت 6ماہ پہلے چلی جاتی، تو قدرے بہتر ہوتا، لیکن دیر آید درست آید۔ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے ہمیں سختیوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہم شرحِ سود میں مزید دو فیصد اضافے کی بات کرتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں نئی صنعتیں لگنے کے امکانات کافی کم ہو جائیں گے۔ شرحِ سود دو فیصد بڑھنے سے 13فیصد سے زیادہ ہو جائے گی اور بینک لینڈنگ اس سے بھی زیادہ ہو جائے گی اور 15فیصد شرحِ سود پر صنعتوں کا لگنا اس دور میں بہت مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایکسچینج ریٹ کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ مفتاح اسمٰعیل اور عارف حبیب نے درست کہا کہ پاکستان میں فری فلوٹ ہونا ممکن نہیں اور کہیں ہمارا روپیہ انڈونیشی روپیہ نہ بن جائے۔ پاکستان میں ہمیشہ ہی سے مینج فلوٹیشن ہوتی ہے اور آنے والوں برسوں میں بھی ایکسچینج ریٹ مینج ہی ہو گا۔ البتہ ڈالر کے 150سے 160روپے ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں، تو آیا یہ بتدریج ہو گا یا ایک دم، اس سلسلے میں صورت حال وقت گزرنے کے ساتھ ہی واضح ہو گی۔ اس آئی ایم ایف پروگرام میں ایک نئی چیز میں نے یہ دیکھی ہے کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ آپ اپنے این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کریں۔ وفاق صوبوں کو بہت زیادہ رقم دے رہا ہے اور اس پر نظر ثانی کی جانی چاہیے اور عنقریب ایسا ہونے جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹیکسیشن کے ذریعے700سے 800ارب روپے مزید جمع کیے جائیں، تو ان ٹیکسز کے بارے میں بھی آیندہ دنوں میں پتہ چلے گا۔ اسی طرح بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہماری پیداواری لاگت پر اثر انداز ہو گا۔ اب جبکہ ایف بی آر محصولات کا موجودہ ہدف 4400ارب حاصل نہیں کر سکا، تو اس میں 700سے800ارب روپے اضافہ اس کے لیے خاصا مشکل کام ہو گا۔ اس سلسلے میں ایف بی آر کو نئے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس افسران کو اپنے دفاتر سے نکل کر نئے نئے ٹیکس دہندگان تلاش کرنا ہوں گے اور اس سلسلے میں ایف بی آر انہیں مختلف ترغیبات بھی دے سکتا ہے۔اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ہم سب کو آیندہ دو سے تین برس تک سختیاں برداشت کرنا ہوں گی اور اپنا موجودہ لائف اسٹائل تبدیل کرنا ہو گا۔
جنگ :کیا آیندہ مالی سال کا بجٹ عوام دوست ہو گا اور نہ ہی کاروبار دوست؟
زبیر طفیل :بجٹ کا عوام دوست ہونا تو مشکل ہے، لیکن حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ 75فیصد افراد متاثر نہیں ہوں گے۔ اب اس بات کا فیصلہ تو وقت کرے گا کہ وہ متاثر ہوں گے یا نہیں۔ البتہ اس وقت کم آمدنی والے افراد کی زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ بنیادی ضرورت کی اشیا مہنگی ہو چکی ہیں اور عوام گزشتہ حکومت کو یاد کر رہے ہیں۔
جنگ:آپ آئی ایم ایف پیکیج کے بارے میں کیا کہیں گے؟
دارو خان اچکزئی :ہم نے چین کے ساتھ ایک ایف ٹی اے پر دستخط کیے ہیں اور اس میں ہم نے 313آئٹمز شامل کیے ہیں، جو برآمد ہوں گے، جبکہ دوسری جانب حکومت بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا رہی ہے۔ ہمیں آسیان ممالک کے برابر رتبہ دیا گیا ہے، جبکہ ہم پہلے ہی ان کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ اگر آئی ایم ایف سے رجوع کرنا حکومت کی مجبوری تھی، تو یہ معاہدہ 6ماہ پہلے ہی کر لیا جاتا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا کہ جب میثاقِ جمہوریت کی طرح میثاقِ معیشت بھی ہوتا۔ اس وقت میثاقِ معیشت کی ضرورت ہے اور اگر اس میں ماہرینِ معیشت شامل ہوں، تو یہ بہتر ہو گا۔ اسی طرح حکومت کو مفتاح اسمٰعیل کی خدمات سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ اس حکومت کے لیے ایک اچھی بات یہ ہے کہ اپوزیشن اس کا ساتھ دے رہی ہے اور اس کے اقدامات کے خلاف مزاحمت نہیں کر رہی۔ حکومت ایک طرف 6ارب ڈالرزملنے کی بات کر رہی ہے اور دوسری جانب 700ارب روپے کا بوجھ ڈال رہی ہے، جبکہ ہم یہ رقم جمع نہیں کر سکتے، لیکن اگر ہم ایسا کر سکتے ہیں، تو پھر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اس کے ساتھ ہی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بھی بہت بڑا عنصر ہے۔ اگر یہ اسکیم کامیاب ہوتی ہے، تویہ بہت فائدہ مند ہو گی۔ اسی طرح ٹیکس نیٹ وسیع کرنی کی بات بھی ہو رہی ہے اور شبر زیدی تو نیٹ کے بہ جائے کوئی اور لفظ استعمال کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ شہری اسے جال سمجھتے ہیں اور وہ اس میں آنا نہیں چاہتے، جبکہ وہ انہیں سہولتیں فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوتا ہے اور ٹیکس نا دہندگان بھی ٹیکس دینے لگتے ہیں، تو اس سے معیشت کو فائدہ ہو گا۔ موجودہ حکومت جو ٹیکس ایمسنٹی اسکیم لائی ہے، وہ مفتاح اسمٰعیل کی متعارف کروائی گئی اسکیم کی تقریباً نقل ہے اور اس میں صرف چند فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں کم وقت میں پیسہ اکٹھا کرنا بہت مشکل ہو گا اور اس کے لیے طویل المدتی منصوبے کی ضرورت ہو گی۔ دوسری جانب حکومت نے اس سلسلے میں پوری طرح کام بھی نہیں کیا ہے، کیونکہ پہلے جو ڈرافٹ آیا تھا، تو اس میں 5،10اور 20فیصد بتایا گیا تھا اور بعد میں جو ڈرافٹ آیا، تو اس میں 4فیصد تھا اور 20فیصد شامل ہی نہیں تھا، جو بہتر ہے۔
جنگ:آئی ایم ایف پیکیج پر بزنس کمیونٹی کا کیا رد عمل ہے؟
دارو خان اچکزئی :آئی ایم ایف پیکیج سے معیشت کو کوئی سہارا نہیں ملے گا۔ زبیر طفیل صاحب کا کہنا ہے کہ دو سال تک ہمیں سختیاں برداشت کرنا پڑیں گی، تو دو سال سختیاں برداشت کرنے کے بعد تیسرے سال میں ہم ان کے عادی ہو جائیں گے۔ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف پیکیج سے معیشت کو کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہو گا۔
جنگ: اس حوالے سے فیڈریشن نے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا ہے؟
دارو خان اچکزئی :جب ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے، تو انہوں نے کہا کہ وہ اسے اپنے ایگزیکٹیو بورڈ میں لے کر جائیں گے، جبکہ ہمارے پاس ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں کہ جہاں اس معاہدے پر نظر ثانی کی جا سکے۔
جنگ :اس بارے میں فیڈریشن کو اپنا پالیسی بیان تو جاری کرنا چاہیے۔
دارو خان اچکزئی :جب تک آئی ایم ایف سے معاہدے کا حتمی مسودہ سامنے نہیں آ جاتا، تو ہم پالیسی بیان کیسے دے سکتے ہیں۔
جنگ :ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام ملنے کے بعد اسٹاک ایکسچینج میں تیزی نہیں آئی، بلکہ یہ گرگئی، تو اس کی کیا وجہ ہے؟
عارف حبیب :آئی ایم ایف سے معاہدے کے فوراً بعد اسٹاک ایکسچینج میں 500پوائنٹس کا اضافہ ہوا تھا، لیکن پھر تیکنیکی وجوہ کی بنا پر مارکیٹ گر گئی۔ تیکنیکی وجوہ یہ خبریں تھی کہ گورنر اسٹیٹ بینک نے شرحِ سود میں دو فیصد اضافے کی حامی بھری ہے۔ اس وقت ہمارے میوچل فنڈز مارکیٹ میں بہت بڑے پلیئرز ہیں اور ان کے انویسٹرز شرحِ سود بڑھنے کی وجہ سے ایکویٹی کو منی مارکیٹ میں ٹرانسفر کر رہے ہیں اور جب وہ ایکویٹی فنڈز ڈرا کرتے ہیں، تو انہیں مارکیٹ میں مال بیچنا پڑتا ہے اور یہی اہم وجہ ہے، لیکن اب اسٹاک مارکیٹ سے مثبت خبریں آ رہی ہیں اور اسٹاک ایکسچینج کا ایک وفد گورنر اسٹیٹ بینک سے ملنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے، جو انہیں یہ بتائے گا کہ شرحِ سود افراطِ زر کے مطابق ہونی چاہیے۔اسی طرح ایک سال میں روپے کی قدر میں 4سے 5فیصد بہ تدریج کمی کی جاتی ہے، تو یہ گوارا کر لیا جائے گا۔ اگر 600سے 700ارب روپے مزید ٹیکس جمع کرنے کی بات ہے، تو اس میں خوفزدہ ہونے کی کوئی بات نہیں، کیونکہ اس سے قبل بھی ہم ایک سال میں 650ارب ایکریمینٹل ٹیکسز جمع کر چکے ہیں۔ 2015-16ء میں ہمارا پرائمری ڈیفیسٹ 0.3فیصد تھا، جو اب 0.6فیصد ہے، تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم خود یہ اہداف حاصل کر چکے ہیں۔ یعنی ہم ایک اوور میں 12رنز بنا چکے ہیں اور اب اگر ایک اوور میں 11رنز بنانے کا کہا جا رہا ہے، تو یہ کوئی نا ممکن بات نہیں۔ این ایف سی کے حوالے سے آئی ایم ایف کا موقف درست ہے، کیونکہ یہ مناسب نہیں ہے۔
جنگ :لیکن آئی ایم ایف کیوں نظر ثانی کا کہہ رہی ہے؟
عارف حبیب :آئی ایم ایف اس لیے نظر ثانی کا کہہ رہی ہے کہ ہم خود یہ نہیں کر رہے۔ این ایف سی ایوارڈ مناسب نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ صوبوں کو وسائل تو منتقل ہو گئے، لیکن وہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے۔ اب یا تو ان کے وسائل کم کیے جائیں یا پھر یہ اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔
جنگ :حکومت چین، سعودی عرب اور یو اے ای سے تقریباً 10سے 12ارب ڈالرز لے چکی ہے۔ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تھی، تو زرِ مبادلہ کے ذخائر 10.8ارب ڈالرز تھے اور اب بھی اتنے ہی ہیں، جبکہ آئی ایم ایف سے ہمیں اس سال 2ارب ڈالرز ملنے کی توقع ہے، تو کیا ہم روپے پر دبائو سے بچنے کے لیے اپنے زر مبادلہ کے ذخائر کو مینج کر سکیں گے؟
مفتاح اسمٰعیل :پاکستان کو اگلے 5برس تک ہر سال 5سے 6ارب ڈالرز واپس کرنا ہوں گے۔ رواں برس بھی حکومت نے یہ رقم واپس کی ہے اور ہم بھی اپنے دور میں ادا کرتے رہے ہیں۔ اب روپے پر مزید دبائو نہیں بڑھے گا اور ہم آرام سے ادائیگیاں کر سکیں گے۔ ہم ابھی تک ری پیمنٹ میں نہیں پھنسے۔ یہ ری پیمنٹ 5ارب ڈالرز کی ہے اور اتنی رقم تو ملک ریاض نے عدالت میں دے دی۔ یعنی اس ملک میں بہت پیسہ ہے۔
جنگ :ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے کن کن شعبوں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے؟
مفتاح اسمٰعیل :ایک تو حکومت نادرا کو ڈیٹا فراہم کر دے، کیونکہ سیکوریٹی وجوہ کی بنا پر پہلے ایف بی آر شیئر نہیں کر سکتا تھا۔ ہم نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ ایک عام ٹیکس پیئر کے پاس عموماً دو گاڑیاں ہوتی ہیں، جن میں سے ایک گاڑی بیش قیمت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا شہر کے پوش علاقے میں گھر ہوتا ہے۔ نیز، ان کے علاوہ ایک اور خصوصیت بھی ہوتی ہے اور ایک عام ٹیکس پیئر میں یہ تینوں خصوصیات پائی جاتی ہیں۔اب ایف بی آر کو ان افراد کو تلاش کرنا چاہیے کہ جن میں یہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں، لیکن وہ ٹیکس پیئر نہیں ہیں۔ اپنے دور میں میں نے یہ تخمینہ لگایا تھا کہ 10لاکھ نئے ٹیکس پیئرز سامنے آئیں گے، جن میں یہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہوں گی اور ان میں سے نصف تو یہ عذر پیش کریں گے کہ ان کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا کوئی خاتون یہ عذر پیش کرے گی کہ اس کے شوہر ٹیکس پیئر ہیں، لیکن 4سے 6لاکھ افراد ایسے مل جائیں گے کہ جن سے ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ نئے ٹیکس پیئرز سے 1000سے 1200ارب روپے مل جائیں گے، تو ایسا نہیں ہو گا ۔ہر دولت مند فرد کے پاس کوئی نہ کوئی عذر ضرور ہوتا ہے اور ان سے پیسہ نکلوانا آسان کام نہیں۔ یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ ملک میں 15لاکھ دولت مند افراد موجود ہیں، لیکن یہ سب ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ تاہم، 10لاکھ افراد ضرور نکل سکتے ہیں اور انہیں ٹیکس دینے پر آمادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ رواں برس تو ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا، لیکن میری دعا ہے کہ ایسا ہو جائے۔
جنگ :شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے ہماری صنعتیں بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ ان کی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے، تو یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا؟
زبیر طفیل :شرحِ سود میں 2فیصد اضافے کے بعد یہ صنعتوں کے لیے تقریباً 15فیصد ہو جائے گا اور اس شرحِ سود پر کوئی کاروبار نہیں چل سکتا۔ شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے صنعتوں کے لیے مشکلات کھڑی ہوں گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہوں گے۔
جنگ :اس کی وجہ سے شرحِ نمو بھی متاثر ہو گی؟
زبیر طفیل :شرحِ نمو تو پہلے ہی کم ہو کر 3 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو پچھلے برس 5.8فیصد تھی اور اس کے 2.8 فیصد ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کی وجہ سے روزگار کے مواقع متاثر ہوں گے، جبکہ نئی صنعتیں تو لگ ہی نہیں رہیں اور نہ ہی روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔ پہلے حکومت صنعت کاروں کو مراعات دیتی تھی، لیکن اب تو ہر جگہ رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ شرحِ سود اور افراطِ زر میں اضافے اور تیل و گیس کی قیمتیں بڑھنے سے کام چلانا بہت مشکل ہو جائے گا اور نئی صنعتوں کا قیام تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ اس عرصے میں پاور پلانٹس وغیرہ تو لگیں گے، لیکن کوئی انڈسٹری نہیں لگے گی۔ اس کے علاوہ چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہوں گی اور ان حالات میں حکومت 800ارب روپے ٹیکس کہاں سے حاصل کرے گی۔ اس وقت عام حالات نہیں ہیں اور حکومت کو آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد کرنا ہے۔ حکومت نے صرف سالانہ ایک ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کی اتنی ساری شرائط قبول کی ہیں۔
جنگ :کیا ایکسپورٹرز کے ری فنڈز کی ادائیگی ممکن ہے؟
زبیر طفیل :ابھی تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ حکومت ری فنڈز کیسے ادا کرے گی۔ ہو سکتا ہے کہ بجٹ میں اس کا کوئی حصہ رکھا جائے، لیکن فی الوقت اس کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس وقت ایکسپورٹرز مجبور ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا سرمایہ حکومت کے پاس پھنس گیا ہے۔
جنگ :پہلے ایکسپورٹ سیکٹر کے بعض حصوں پر سبسڈی دی جا رہی تھی اور اب سبسڈی ختم ہونے کی بات کی جا رہی ہے، تو اس سے صنعتوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
دارو خان اچکزئی :اگر آئی ایم ایف پروگرام ہماری معیشت کو ایک نظم و ضبط کا پابند کر رہا ہے، تو یہ کوئی بری بات نہیں، لیکن اگر ہم ٹیکسز بڑھانے کے ساتھ سبسڈیز بھی ختم کر دیں اور بجلی و گیس کی قیمتیں بھی بڑھا دیں اور پھر ہم چین کے ساتھ ایف ٹی اے پر دستخط بھی کریں، تو ہم دوسرے ممالک کے ساتھ مسابقت کس طرح کریں گے۔ تاہم، ہر وقت بہتری کی گنجائش موجود ہوتی ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ نئی مارکیٹس تلاش کرے، تاکہ ہماری برآمدات کو فروغ ملے۔ اس سلسلے میں افریقی ممالک پر توجہ دی جا سکتی ہے، جہاں ہمارے لیے امکانات پوشیدہ ہیں۔ پچھلے سال ہم ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے مصر گئے، تو پتہ چلا کہ اس کی 65ارب ڈالرزکی برآمدات میں پاکستان کا حصہ 0.5ارب ڈالرز ہے۔ ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کی ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ اس کے علاوہ وسطی ایشیا میں منڈیاں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک افغانستان ہمارے لیے 3ارب ڈالرز کی مارکیٹ تھی اور ہم نے 2015ء تک 5ارب ڈالرز تک پہنچے کا ہدف طے کر رکھا تھا، لیکن اب یہ کم ہو کر 1ارب ڈالر سے 1.2ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ہم ان مارکیٹس کی مدد سے اپنی معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں۔
جنگ :بنگلا دیش، بھارت، ویت نام اور فلپائن سمیت دوسرے ممالک بھی معیشت کے اعتبار سے ہم سے آگے ہیں۔ ہم کب ان سے آگے نکلیں گے؟
زبیر طفیل :بد قسمتی سے یہ حکومت معیشت پر توجہ نہیں دے رہی اور اپنے اندرونی مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا، معیشت بھی ڈگر پر نہیں آئے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر میثاقِ معیشت پر اتفاق رائے کرنا چاہیے اور اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت آئے، میثاقِ معیشت کو نہیں چھیڑا جائے گا، تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور مہنگائی میں کمی واقع ہو۔ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی، تو افراطِ زر دو ہندسوں میں پہنچ جائے گا اور عوام کی رہی سہی ہمت بھی جواب دی جائے گی۔ اس وقت تعمیراتی صنعت بند پڑی ہے اور اس سے 40مزید صنعتیں وابستہ ہیں۔ لہٰذا، حکومت کو اس صنعت کو مزید مراعات دینے کی ضرورت ہے۔