کراچی(جنگ نیوز)سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب حاصل کئے گئے قرض کے مقابلے میں ان کی شرائط کو سخت ترین تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکتوبر میں ان کی شرائط اس سے کہیں زیادہ سخت تھیں۔ایک مذاکرے میں بات کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ہم نے انتخابات سے قبل ہی کہا تھا کہ قرض لینا ناگزیر ہے۔اسد عمر نے کہا کہ ‘آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہئے تھا یا نہیں، ہمیں پہلے سے پتہ تھا کہ بیل آؤٹ پیکیج کے لیے جانا ہے اور یہ الفاظ رٹ چکے تھے کہ جتنے برے حالات پیدا ہوگئے بیل آؤٹ پیکیج ناگزیر ہے لیکن سوال یہ تھا کہ پیکیج آئی ایم ایف کرے گا یا کوئی اور کرے گا۔سابق وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ بات صحیح ہے کہ یہ شرائط سخت ترین ہیں لیکن اکتوبر میں اس سے کہیں زیادہ سخت شرائط تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ اور 600 بیسس پوائنٹ کی شرط تھی اور روپے کی قدر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پیکیج سے رواں برس افراط زر 19 فیصد ہوگی اور ڈسکاؤنٹ ریٹ 20 سے 21 فیصد تک چلا جاتا۔اسد عمر نے کہا کہ جس دن حکومت آئی ایم ایف سے معاہدے کا اعلان کرے گی میں وہ تمام اہم 5 چیزیں بتاؤں گا جس کا وہ مطالبہ کررہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے حلف لیا تو ہمارے پاس 20 روز کے ذخائر تھے لیکن ہم نے خسارے کی اوسط کو کم کیا اور آئی ایم کے نمائندے نے بھی تسلیم کیا کہ معاشی پالیسی سے بہتری آئی ہے۔