• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رمضان کا مُبارک مہینہ خیریت اور برکاتِ الٰہی کے ساتھ گزر گیا۔ بازاروں میں اشیاخورونوش تو باکثرت نظر آرہی تھیں مگر خریدار بہت کم تھے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ دوسرے اسلامی ممالک میں عید کے موقع پر قیمتیں کم کردی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ غیراسلامی ممالک میں بھی ان کے مذہبی تہواروں پر اشیاکی قیمتوں پر خصوصی رعایت ہوتی ہے۔ ناجائز منافع خور ساری کسر رمضان اور عید کے موقع پر پوری کرتے ہیں۔حکومت اس پر کوئی ایکشن لینے کے بجائے اس میں اپنا حصہ ڈال دیتی ہے۔عید سے چند دن پہلے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ناقابل سمجھ بوجھ ہے۔ اگر ایک ہفتہ بعد بڑھا دیتے تو کم از کم کروڑوں مسافروں کو مہنگائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور کھانے پینے کی چیزوں میں اضافہ نہ ہوتا۔ مگر وزیر اعظم نے اپنے آس پاس کم عقل لوگوں کو جمع کر رکھا ہے جن کی حکمت عملی User enemyہے ناکہ User friendly ۔ ویسے بھی ملک کی آدھی آبادی سے زیادہ لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور بیروزگاری عروج پر ہے۔ اگر کوئی پیاسا یا بھوکا مرجائے تو کسی کو کیا فکر ہے۔ آپ نے خود ہی دیکھ لیا ہے کہ پچھلے چند ماہ سے مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ہم مدینہ کی ریاست کی بات کررہے ہیں۔ حضرت عمرؒبن عبدالعزیز کے دور میں رمضان کے شروع میں آپؒ نے حکم دیا کہ بیت المال سے تمام غرباکو زکوٰۃ کے پیسوں سے رقم مہیا کردی جائے۔ کارندے بڑی بڑی رقمیں لے کر ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گئے مگر ایک زکوٰۃ لینے والا نہیں ملا۔ جب آپؒ کو بتلایا گیا تو آپؒ نے حکم دیا کہ افریقی ممالک میں زکوٰۃ کی تقسیم کردی جائے اور لیجئے ان غریب ممالک میں بھی کوئی حاجت مند نہیں ملا۔ یہ مدینہ کی ریاست کی مثال تھی۔ حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز اپنے وقت کے مالدار ترین شخص تھے۔ جب آپ کو سربراہ چنا گیا تو آپؒ نے اپنی پوری جائداد غرباء میں تقسیم کردی اور بیت المال میں جمع کرادی۔

میں نے پہلے کئی بار عرض کیا ہے کہ بھوپال جنت مقام میں نہ غربت تھی اور نہ فقیر تھے۔ روپیہ کی قدر کا یہ حال تھا کہ ایک روپیہ تین پونڈ سے زیادہ قیمتی تھا۔ بیگم بھوپال نے حج کے دوران نہر زبیدہ کی ریت بھری حالت دیکھ کر 6000 روپیہ سالانہ گرانٹ اس کی صفائی کے لئے مختص کردی اس وقت یہ رقم 20 ہزار پونڈ کے برابر تھی۔ شہر میں عام سڑکوں پر بجلی کے کھمبے تھے اور مغرب ہوتے ہی بجلی ملنا شروع ہوجاتی تھی۔ تنگ گلیوں اور سڑکوں پر لالٹین لگی ہوئی تھیں جہاں ملازم سیڑھی لے کر آتے تھے۔ شیشہ صاف کرتے کپّی میں تیل ڈال کر روشن کرکے چلے جاتے تھے۔ یہ لالٹین رات 12 بجے تک جلتی رہتی تھی۔ پورے شہر میں بمشکل 200 گز کے فاصلے پر پینے کے پانی کے نل لگے ہوئے تھے اور ان میں 24 گھنٹے پانی آتا رہتا تھا۔ رمضان اور عید کے تہوار قابل دید تھے، ہندو مسلمان سب ہی گرم جوشی سے مناتے تھے۔ عید کے دن جامع مسجد کے باہر سڑکوں پر ہندو دکاندار تھان کھول کر بچھا دیتے تھے تاکہ نمازیوں کو تکلیف نہ ہو۔

آپ نے ، میں نے اور میرے ملک نے IMF کا ڈرامہ دیکھا۔ بڑے بڑے ہنرمند ماہرین لائے گئے اور اس کی حمایت میں سنہرے خواب دکھائے گئے اور بالآخر نہایت سخت شرائط پر صرف 6 ارب ڈالر قرض لیا گیا۔ کیا وزیر اعظم کے لئے یہ ناممکن یا مشکل تھا کہ اتنی خطیر کے لئے ایک دورہ سعودی عرب، کویت، امارات، قطر، چین، ترکی، برونائے دارالسلام اور ملائیشیا کا کر لیتے اور صرف ایک ایک ارب ڈالر کم سود پر قرض لے لیتے اور IMF کی من مانی سے بچ جاتے۔ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ IMF سے قرض لینے کے بجائے میں خودکشی کرلوں گا۔

عید پر غرباء کی حالت قابل دید ہوتی ہے۔ نہ ان کے پاس کپڑے ، جوتے اور نہ ہی کھانے کا سامان ہوتا ہے۔ خوبصورت چھوٹے بچے جن کے چہروں پر فرشتوں جیسی معصومیت عیاں ہوتی ہے ، میلے گندے کپڑوں میں چاند بادلوں میں سے چمکتا نظر آنے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ کیا معصومیت ہے! نا غربت نا تکلیف کا احساس، لکڑیوں سے، پتھروں سے کھیلنا اور دنیا کے غموں (اور آسائشوں سے) آزاد، اپنے حال میں مست رہتے ہیں۔ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ عید کے مُبارک موقع پر ان معصوم بچوں کا بھی خاص خیال رکھیں۔ آپ سب سے درخواست ہے کہ اللہ کی راہ میں غرباء ، مسکینوں اور یتیموں کو عید کی خوشیوں میں شامل کیجئے۔ بچوں کو چند کپڑے اور جوتے دینے سے آپ غریب نہیں ہوجائیں گے مگر ان کی دعائیں فلک پر پہنچ کر آپ کے لئے نہایت باعث رحمت ہونگی۔ غرباء کو کھانے کا سامان، کچھ مٹھائی اور کچھ پھل دے کر اپنی خوشی میں ان کو شامل کیجئے۔ اللہ رب العزّت آپ کو جزائے خیر دے گا۔

ماضی کی طرح اس عید الفطر کی آمدپر بھی بازاروں میں کچھ چہل پہل رہی۔ خواتین زیادہ تر کپڑوں ، چوڑیوں اور کاسمیٹک کی دکانوں پر نظر آئیں۔ سونے چاندی کے زیورات کی دکانوں پر کم رش رہا۔ عید کی خریداری زوروں پر رہی۔

تمام مقامی و بیرون ممالک میں مقیم اہل پاکستان کو عید کی خوشیاں بہت بہت مبارک ہوں۔ اللہ پاک آپ سب کو تندرست و خوش و خرم رکھے، حفظ و امان میں رکھے، عمر دراز کرے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ آمین، ثم آمین۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین